counter easy hit

شمع محفل یا گھر کی ملکہ

Women Day

Women Day

تحریر:ایم اے تبسم
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زمانہ جاہلیت میں خواتین کا مرتبہ صرف ایک گھریلو سامان کی حیثیت سے زیادہ نہ تھا، جن کی جانوروں کی طرح خرید و فروخت ہوا کرتی تھی اور ان کے حقوق کا گھلا گھونٹا جاتا تھا۔تعلیم بھی حاصل نہیں کر سکتی تھیں، وہ اپنے حقوق بھی نہیں مانگ سکتی تھیں اور اگر اپنے حقوق یا کسی بھی شے پرآ واز اٹھاتی، تو موت کے گھاٹ اتار دی جاتی۔مگر مذہب اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی علم حاصل کرنے کی اجازت دی ہے۔وہ معلم ہو سکتی ہیں ، طبیب ہو سکتی ہیں ، شرعی اصولوں کے مطابق تجارت کر سکتی ہیں، وہ جج بن سکتی ہیں۔اسلام نے انہیں صحیح آزادی کا تصور دیا ہے جو دیگر مذاہب میں قطعی نہیں تھا۔

اگر یوں کہوں تو بے جانہ ہوگا کہ آج کے دور میں خواتین کے لیے ایک بیداری مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں؟مگر پہلی بات، مغرب کو اس بات پر ناز ہے کہ اس نے دنیا کو جمہوریت اور سیکولرازم کا تحفہ دیاہے، جس میں ہر شخص کو اظہارِ خیال کی اپنی تہذیبی اور ثقافتی شناخت کے ساتھ رہنے کی اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے اور کسی پر کوئی رائے تھوپی نہیں جاسکتی۔ عالم اسلام پر اس کا دبائو ہے کہ وہ اپنے یہاں خواتین کو اپنے خیال کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دیں ، ہر گروہ کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا اختیار دیں اور اس میں جبرا ً، زور زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ مگر مغرب میں شایدآزادی کا حقیقی مقصد انسان کو اخلاقی اور مذہبی قدروں سے آزاد کرنا ہے، نہ کہ آزادی سے ہمکنار کرنا۔ اسی لیے مغرب مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت سے محروم کرنے اور مسلمان خواتین کو نقاب سے روکنے کی نہ جانے کیسی کیسی مہم چلاتا رہتا ہے۔ واضح ہوکہ فرانس میں اسکول اور سرکاری اداروں میں سکھوں کے لیے پگڑی، مسلمان خواتین کے لیے ‘ اسکارف’ یہودیوں کے لیے ان کی مخصوص ‘ ٹوپی’ اور عیسائیوں کے لیے صلیب رکھنے کی ممانعت کی گئی تھی، جس کا وبال پوری دنیا میں گونجا تھا۔

افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ کچھ خواتین بھی خواتین کے لیے پردہ کرانے کو غلط بتاتی ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ یہ جمہوری تصورکے منافی ہے، جس میں تمام لوگوں کو یکساں حقوق دینے کا اور اپنی سوچ کے مطابق عمل کرنے کا حق دینے کا دعویٰ کیا جاتاہے۔لیکن ذرا سوچئے! کیا سیکولر ازم کا مطلب یہی ہے کہ ایک شخص کو جانوروں کی طرح بے لباس ہونے کی تو اجازت ہو ؟لیکن اگر وہ اپنی خوشی اور خواہش سے لباس پہننا چاہیں تو اس پر پابندی لگا دی جائے؟اللہ کا نظام ہے کہ جو چیز اہم بھی ہوتی ہے اور نازک، اسے حفاظتی حصار میں رکھا جاتا ہے۔ انسان کے ہاتھ پائوں پر کوئی حصار نہیں رکھا گیا، لیکن دماغ کو سخت ہڈیوں والی کھوپڑی کے اندر رکھا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس کا تحفظ ہوسکے۔ دل کی جگہ سینے کی لچک دارہڈیوں کے بیچ رکھی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کی حفاظت ہوسکے۔آنکھوں پر پلکوں کا پہرہ بٹھایا گیا۔یہ ان اعضاء کی حفاظت کے لیے ہے۔نباتات ہی کو دیکھئے اگر آم پر دبیز چھلکوں کا لباس نہ ہوتا تو کیا مکھیوں اور بھرنڈوں سے بچ کر وہ انسان کے ہاتھ آسکتا ؟اگر چاول اور گیہوں کے دانوں پر ان کی حفاظت کے لیے چھلکے نہ ہوتے تو انسان انہیں اپنی خوراک نہیں بنا سکتا تھا۔ خود انسانی معاشرہ میں دیکھئے، ملک کا ایک عام شہری کھلے عام ہر جگہ آمدو رفت کرتا ہے، نہ اس کے ساتھ سیکورٹی گارڈ ہے نہ اس کی رہائش گاہ پر پہرے دار ہے، جبکہ اہم شخصیتوں کے لیے تحفظ کا خصوصی نظم کیا جاتا ہے۔

مردوں اور عورتوں میں عورتوں کی حفاظت کی زیادہ ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ خدانے انہیں مردوں کے لیے وجہ کشش بنایا ہے ، اس لیے ان کی تراش و خراش میں حسن کاری اور لطافت کو قدم قدم پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اگر کسی کا لڑکا شہر جائے تو اسے شام کے 4 بجے آجانا چاہیے تھا، لیکن وہ رات کے 10 بجے لوٹے تو اس سے گھبراہٹ پیدا نہیں ہوتی لیکن اگر یہی واقعہ کسی لڑکی کے ساتھ پیش آجائے تو دل کا قرار چھن جاتا ہے اور ماں باپ کی کروٹیں بے سکون ہوجاتی ہیں۔ اسی کو دیکھئے کہ پوری دنیا میں اور پاکستان میں بھی مردوں اور عورتوں کے تناسب میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ اللہ نے ان دونوں صنفوں کو ایک توازن کے ساتھ پیدا فرمایا ہے تاکہ دونوں طبقات کی ضرورتیں پوری ہوسکیں۔ 100 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ،اہل مغرب عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دینے کا نعرہ لگا رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود آج بھی عورتیں حقوق مانگتی ہیں اورانہیں وہ حقوق و اختیارات پوری طرح نہیں دیے جاتے۔ یہ فرق کیوں ہے؟ کیوں امریکہ و روس میںآج تک کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی؟ اور یورپ میں مار گریٹ تھیچر کے علاوہ کوئی خاتون وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ پر نہیں پہنچ سکی۔ یہ ظلم و حق تلفی کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ قانونی فطرت کا فیصلہ ہے۔ قدرت نے خود دونوں کی صلاحیتوں میں فرق رکھا ہے اور صلاحیتوں کے لحاظ سے دائرہ کار متعین کیا ہے۔ پردہ بھی اسی فرق کا ایک حصہ ہے۔

جانور بھی کھاتے پیتے ہیں اورشہوانی جذبات رکھتے ہیں، لیکن ان کی فطرت لباس کے تصور سے عاری ہے۔ انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو عریانیت سے بچائے اور لباس زیب تن کرے۔ وہی فطرت اس بات کا بھی مطالبہ کرتی ہے کہ مردوں کے مقابلے عورتیں زیادہ ڈھکی چھپی ہوں۔ فرض کیجئے دو لڑکیاں راستے سے گزر رہی ہیں، ایک لڑکی کا لباس چست اور شوخ ہو، اس کا سر کھلا ہو، اس کے بازو کھلے ہوں، اس کا پیٹ نگاہِ ہوس کو دعوت نظارہ دیتا ہو اور اس کا کسا ہوا لباس جسم کے نشیب و فراز کو نمایاں کرتا ہو اور دوسری لڑکی سرتا پا نقاب میں ہو یا کم سے کم ڈھیلا ڈھالا لباس اور سر پر دوپٹہ ہو تو اوباش قسم کے لڑکے ان میں سے کس کو چھیڑنے کی کوشش کریں گے؟ ہوس ناک نگاہوں کا تیر کس کی طرف متوجہ ہوگا؟ برائی کے جذبات ان میں سے کس کے تئیں دلوں میں کروٹ لیں گے؟ یقینا بے پردہ لڑکی اس کا نشانہ بنے گی۔ پردہ کے بارے میں اسلامی تعلیمات تو نہایت واضح ہیں، قرآن مجید نے عورتوں کو پورے جسم کے علاوہ چہرے پر بھی گھونگھٹ ڈالنے کا حکم دیا ہے۔خواتین کے لیے اللہ کے رسول نے مسجد میں پیچھے کی صف رکھی اور یہ بھی فرمایا کہ ان کا مسجد میں نماز پڑھنے سے گھر میں نماز ادا کرنا بہتر ہے۔ خواتین کے لیے شریعت نے بنیادی طور پر ایسی ذمہ داریاںمقرر کیں جو اندرون خانہ کی ہیں اور انہیں شمع محفل بننے کی بجائے گھر کی ملکہ بنایا۔ اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں بھی پردہ کا تصور رہا ہے۔ بائبل میں کئی خواتین کا ذکر ملتا ہے۔ جو کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھیں بلکہ بعض وہ ہیں جو پردہ کی وجہ سے پہچانی نہیں گئیں۔آج بھی حضرت مریم کا جو فرضی مجسمہ بنایا جاتاہے اس میں چہرے کے علاوہ پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے۔ حالانکہ رومن تہذیب اور اس کے بعد یورپ میں عورتوں کے عریاں مجسمے بنانے اور جسم کے ایک ایک نشیب و فراز اور خد و خال کو نمایاں کرنے کا رواج عام ہے۔ گویا جو لوگ عریانیت اور بے پردگی کے مبلغ ہیں وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عورتوں کا تقدس با پردہ رہنے میں ہی ہے۔ اسلامی تاریخ میں بہت سی باکمال خواتین پیدا ہوئی ہیں جن کے حالات پر کئی کئی جلدیں لکھی گئی ہیں۔ اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی علم حاصل کرنے کی اجازت دی ہے۔

وہ معلم ہوسکتی ہیں، طبیب ہوسکتی ہیں ، شرعی اصولوں کے مطابق تجارت کرسکتی ہیں ، کارِ افتاء انجام دے سکتی ہیں، وہ حدود قصاس کے علاوہ دوسرے مقدمات کی جج بن سکتی ہیں۔یعنی مردوں کی طرح حدود میں رہتے ہوئے ہر کام کرسکتی ہیں۔کاش اہل مغرب اور پردے کے مخالف حضرات عورتوں کے حقیقی مسائل کو سمجھ سکیں اور ان کے دکھ کا مداوا کرسکیں۔ یہ تاریخ کا ایک عجوبہ ہے کہ عیسائیوں کے نزدیک حضرت مریم ایک مقدس ترین شخصیت کی مالک ہیں بلکہ بعض تو انہیں عیسائی عقیدہ کے مطابق تین خدائوں میں ایک خیال کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک امتیازی پہلو یہ تھا کہ وہ کنواری تھیں۔ انہیں کسی مرد نے ہاتھ بھی نہ لگایا اور اللہ تعالیٰ کے خصوسی حکم کی بناپر وہ حاملہ ہوئیں، لیکن عجیب بات ہے کہ جس عورت کو اتنا بڑا رتبہ دیا گیا ہو، آج انہی پر ایمان رکھنے والی عیسائی قوم دامنِ عفت تار تار کرنے کو بے قرار ہے۔

M.A.TABASSUM

M.A.TABASSUM

تحریر:ایم اے تبسم (لاہور)
مرکزی صدر،کالمسٹ کونسل آف پاکستان”CCP”
email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102