counter easy hit

آخر جمہوریت کے مقاصد کیا ہیں (قسط 1)

Democracy

Democracy

تحریر: لقمان اسد
جمہوری ممالک میں جمہوریت واقعتاً ایک ایسا نظام ہے کہ جس کے سبب عام آدمی کو زندگی کی تمام ترسہولیات دستیاب ہیں بہتر نظام تعلیم،منصفانہ قانونی اورعدالتی سسٹم،بلند معیار زندگی اور صحت سے متعلق تمام ترسہولتوں کا دستیاب ہونا،غرض عوام کے ہرطرح کے جانی ومالی تحفظ اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا وہاں پر ان جمہوری ممالک میں ایک لازمی اور یقینی عمل ہے

وطن عزیز پاکستان میں عرصہ ہائے دراز سے سیاسی راہنما اس بات کا رونا تو پوری شدومد کے ساتھ روتے آئے ہیں کہ پاکستان میں آمریت نے جمہوری نظام کو پنپنے نہیں دیا اور بار، بار کے مارشلائوں نے پاکستان کو ترقی کی منازل طے کرنے سے روکے رکھا مگر جب اس بات کا رونا رونے والے سیاسی راہنمائوں کو اقتدار نصیب ہوتا ہے تو وہ اسی نظام جمہوریت کا گلا گھونٹنے اور قلع قمع کرنے کے درپئے دکھائی دیتے ہیں

جبکہ باشعور طبقہ ان سیاسی راہنمائوں کے اقتدار کے دنوں کے طور واطوار کو دیکھ کر یہ اندازہ اور رائے قام کرنے میں قطعاً کوئی دشواری اور دقت محسوس نہیں کرتا کہ آمروں یا آمریت کو جمہوریت کا قاتل ٹھہرانے والے خود ہی جمہوریت کے فروغ،تسلسل اور جمہوریت کے قائم رہنے کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہیں۔ ایک مثال اور اہم عنصر یقینی طور پر اس باب میں یہ ہے کہ جمہوریت کے مقاصد کی عملاً جو تشریح یا یو ںکہیے کہ عملاً جوکردار ہمارے سیاسی رہنما ادا کرتے نظر آتے ہیں وہ یکسر جمہوری نظام حکومت کی نفی ہے

National Assembly

National Assembly

کیونکہ جمہوریت میں یہ کبھی نہیں ہوتا کہ ایک شخص وہ چاہے ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوکر قومی اسمبلی، سینٹ یاصوبائی اسمبلی میں پہنچتا ہے وہ پھر اس قدر طاقتور بنادیا جائے کہ وہ اپنے علاقہ کے تھانوں میں اپنے من مرضی کے تھانیدار تعینات کروائے اور جہاں جس جگہ مرضی ترقیاتی فنڈز کا استعمال کرے وہ یہ ترقیاتی منصوبے عمل میں لانے اور اُن پر بے

دریغ سرکاری خزانہ صرف کرنے میں اتنا قادر ہو کہ کوئی قانون اسے پوچھنے والا نہ ہو اور نہ ہی کسی کو اس لحاظ سے جوابدہی کا وہ پابند ہو۔یہ نکتہ بلاشبہ اس عنوان کے لحاظ سے ایک معمولی تنقید اور معمولی نشاندہی کا درجہ یا پس منظر رکھتا ہے جبکہ درحقیقت ہمارے یہاں سیاسی رہنمائوں کے ہاتھوں یہ نظام جمہوریت اس طرح یرغمال ہے

وہ نظام جس میں جمہور کو مستفید ہونا چاہیے اور وہ نظام جس کے ثمرات اس قدر وسیع تر بنیادوں پر قائم ہونا چاہئیں کہ جس کی بنا پر ملک کی تمام تر اور عام تر آبادی کو ان ثمرات سے بہرہ مند ہونے کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آنے چاہئیں جبکہ وہاں اس نظام کی چند مخصوص ہاتھوں میں یرغمالی کے سبب اسکے ثمرات سے بھی وہ ہی چند خاندان ہی مستفید ہوتے اور مفادات سمیٹتے نظر آتے ہیں جن کے ہاتھ میں اس نظام جمہوریت کی باگ ڈور ہے (جاری ہے)

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر: لقمان اسد