counter easy hit

زرداری کا پرویز مشرف پر الزام

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر: سید انور محمود

سابق صدرآصف علی زرداری جو اب زرداری قبیلے کے سرداربھی بن گے ہیں اُنکو شاید سابق صدر پرویز مشرف کو‘بلا’ کہنے کا بہت شوق ہے گذشتہ سال کی طرح اس مرتبہ بھی 27 دسمبر 2007ء کو پیپلز پارٹی کی مرحوم قائد بینظیربھٹو کی برسی کے موقعہ پر انہوں نے مشرف کو ‘بلا’ کہکر پکارا اور پرویز مشرف پر بینظیربھٹو کے قتل کے حوالے سے الزامات لگائے، جس کا جواب اگلے ہی روز پرویز مشرف کی جانب سے آگیا۔ گذشتہ سال جب زرداری نے جنرل پرویز مشرف کو دودھ پینے والا ‘بلا’ کہا تھا تو اُنکے عزیز ممتاز بھٹو نے کہا تھا کہ “جس پرویز مشرف کو زرداری ‘بلا’ کہہ رہا ہے

اس سے ہی بینظیر بھٹو نے معاہدہ کرکے این آر او پاس کروایا، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے لیڈر اور کارکنان سمیت بہت سے دیگر سیاستدانوں پر کرپشن اور قتل وغیرہ کے مقدمات معاف ہو گئے۔ اسکے بعد اُنہوں نے ہی اُسکو صدر منتخب کرکے کرسی پر بٹھائے رکھا۔ تب تو یہی ‘بلا’ بہت پیارا تھا اور اچھا بھی لگتا تھا لیکن اب اُسکے دودھ پینے پر بھی اعتراض ہے”۔ پاکستان پیپلز پارٹی 2008ء کے انتخابات کے بعد سکڑ کرسندھ تک محدود ہوگئی ہے اور اب آصف زرداری کے پاس صرف صوبہ سندھ کی حکومت رہ گئی ہے۔ 27 دسمبر 2007ء کو پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات کے حوالے سے بھی بہت ساری خبریں میڈیا میں موجود تھیں اور اب بھی ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اکتوبر میں کراچی کے جلسے میں خود بلاول نے کارکنوں کو مخاطب کرکے 30 نومبر کو لاہور میں پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں آپ بولینگے اور ہم سنیں گے لیکن 30نومبر تو کیا بلاول اپنی والدہ بینظیر بھٹو کی برسی پر بھی موجود نہیں تھے۔ عام افواہ یہ ہے کہ باپ بیٹے میں اختلاف چل رہے ہیں جسکی بہت ساری وجوہات ہیں۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے تھر میں قحط سالی اور وہاں بچوں کی اموات کے لئے مخدوم امین فہیم کے دو بیٹوں مخدوم جمیل الزمان وزیر برائے ریلیف اور مخدوم عقیل الزمان ڈپٹی کمشنر تھرپارکر کو ذمہ دارٹھہراکر اُن کی معطلی کے احکامات جاری کئے تھے۔ مخدوم امین فہیم اور سید قائم علی شاہ کے درمیان اُس وقت سے اختلافات چلے آرہے ہیں جبکہ لاہور میں پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر مخدوم امین فہیم نے پارٹی کے اندر گروہ بندی اور اختلافات کی موجودگی کی بات کی تو اُن کے ریمارکس پر آصف زرداری ناراض ہوگئے۔

پیپلز پارٹی کی مرحوم قائد بینظیربھٹو کی برسی سے پہلے مخدوم امین فہیم نے پیرپگارا اور پرویزمشرف سے ملاقات کی جسکی بازگشت برسی کے موقعہ پر بہت شدت سے ہورہی تھی ، اگرچہ اس موقعہ پر مخدوم امین فہیم نےاپنی مختصر تقریر میں کہا کہ میرا پیپلز پارٹی سے کوئی جھگڑا نہیں، یہ میری اپنی پارٹی ہے ہم نے اس کیلئے خون پسینہ بہایا ہے، پارٹی کے ساتھ رہیں گے۔ جبکہ آصف زرداری نے اپنی تقریر میں دو باتوں کی وضاحت کی، پہلی یہ کہ بعض لوگوں نے اُن کے اور بلاول زرداری کے درمیان اختلافات کے حوالے سے افواہیں پھیلائی ہیں اور دوسری وضاحت میں اُنکا کہنا تھا کہ مخدوم صاحب نے پارٹی سے کبھی غداری نہیں کی اور انہیں امید ہے کہ وہ کبھی غداری نہیں کریں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے

ان دونوں وضاحتوں کی ضرورت کیوں پیش آئی اُسکی وجوہات یہ ہیں کہ زرداری پارٹی کے کارکنوں کو اس بات پر مطمئن کرنا چاہتے تھے کہ اُنکے اور بلاول کے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں، جبکہ اب یہ بات سامنے آچکی ہے کہ باپ بیٹے کے اختلافات خاندانی بھی ہیں اور سیاسی بھی۔ مخدوم امین فہیم کی مختصر سی تقریر میں بھی کئی سوالات موجود تھے، لیکن جو وضاحت آصف زرداری نے کی شاید اُسکی ضرورت نہیں تھی کیونکہ زرداری نے پلٹ کر وہی الفاظ استمال کیئے جو امین فہیم نے اپنی تقریر میں کہے تھے۔

آصف زرداری کی گڑھی خدا بخش میں کی گئی تقریر کو سیاسی حلقوں نے کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ صاف طور کہا گیا کہ آصف زرداری کے پاس کہنے کےلیے کچھ تھا ہی نہیں، لہذا بینظیر بھٹو کی برسی کے اگلے روز آصف زرداری نے سابق صدر پرویزمشرف پرایک نیا الزام یہ لگایا کہ وہ کچھ عناصرکے ساتھ ملکرسندھ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔پرویز مشرف پر آصف زرداری کے اس الزام کو بھی کسی نے اہمیت نہیں دی، اسلیے کہ سابق جنرل پرویزمشرف پر آئین سے غداری کے علاوہ اور بھی بہت سے الزامات ہیں مگر آصف زرداری کی طرح ایک بھی کرپشن کا الزام نہیں ہے۔

آیئے گذشتہ ساڑھے چھ سال سے سندھ پر حکمرانی کرنے والی پیپلز پارٹی کے کچھ کارناموں کا ذکر ہوجائے۔ گذشتہ پانچ سال 2008ء سے 2013ء ہوں یاحالیہ ڈیڑھ سال پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے مرکز اور سندھ میں سوائے کرپشن اور بیڈگورنس کے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ہے، 2013ء میں مرکز سے تو پیپلز پارٹی کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن ابھی صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار باقی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بزرگ آدمی ہیں ، ایک طویل زندگی شاہ صاحب نے پیپلز پارٹی کی خدمت میں گذاری ہے، اپنی اُن خدمات کا معاوضہ قائم علی شاہ گذشتہ ساڑھے چھ سال سے سندھ کے عوام سے وصول کررہے ہیں۔2008ء سے 2013ء تک مرکز اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران سپریم کورٹ نےسندھ کی قائم علی شاہ حکومت کو نا اہل قرار دیاتھا، اگر مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہ ہوتی تو شاید سندھ میں گورنر راج آجاتا۔ بدنصیبی سے سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی پانچ سالہ بری کارگردگی کے باوجود سندھ میں دوبارہ برسراقتدار ہے اورقائم علی شاہ ہی وزیراعلی ہیں۔ قائم علی شاہ کی گذشتہ ساڑھے چھ سال میں جو کارکردگی رہی ہے

وہ سب کو معلوم ہے۔ کسی چھوٹے سے شہر کےلیے بھی کچھ نہیں کیا، صرف لوٹ مار اور اقرباپروری میں مصروف قائم علی شاہ کی حکومت ہر شعبہ میں ناکام رہی ہے۔ امن و امان کی صورتحال بدترین ہے، اسٹریٹ کرائم، ٹارگٹ کِلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور کرپشن عام ہے۔ رشوت لے کر نوکریاں دی جاتی ہیں ، لہذا کارکردگی صفر ہے، مگر سندھ کے لوگوں کی بدنصیبی کہ ابھی تک ذوالفقارعلی بھٹو اوربینظیر بھٹو کے نام پر نام نہاد پیپلز پارٹی نے پورئے سندھ کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔

قائم علی شاہ کے ساڑھےچھ سالہ دور میں صرف کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگیٹ کلنگ سے آٹھ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، سرکاری اور فوجی املاک پر حملے ، فرقہ وارانہ نفرت ، بے روز گاری اور مہنگائی کی ذمہ دار پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، سندھ کی ترقی کےلیے کچھ نہیں کیا ، کراچی تو چھوڑیں اُنہوں نے تو لاڑکانہ، نواب شاہ یا خیرپور میں بھی عوامی بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا۔

آصف زرداری پرویز مشرف پر الزام لگارہے کہ وہ سندھ حکومت ختم کرنے کی سازش کررہے ہیں جبکہ اگر صرف تھر میں مصنوئی قحط سالی کے باعث خوراک اور صاف پانی کی کمی کی وجہ سے بیمار ہوکر موت کی آغوش میں چلے جانے والے بچوں پر تحقیقات کی جائے تو کسی مشرف کو سندھ حکومت کے خلاف سازش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یکم فروری سے آٹھ فروری 2014ء تک سندھ کلچرل فیسٹول منایا گیا جس میں سندھ حکومت نے کڑوڑوں روپےخرچ کیے۔ آٹھ دن دن تک سندھ کلچرل فیسٹول کے نام پر بلاول زرداری کے دوستوں کی مہمان نوازی کی جاتی رہی جس پر کڑوڑوں روپے خرچ کیے گئے۔

ٹھیک اُس وقت صحرائے تھر کے باشندئے موت کی آغوش میں چلے جانے والےاپنے بچوں کو دفنانے میں مصروف تھے اور ابھی تک ہیں۔ سپریم کورٹ میں قحط کے اوپر “ازخود نوٹس” کی سماعت کے دوران ایک جج صاحب نے بھی اٹارنی جنرل سے یہ سوال کیا تھا کہ “کتنے بچے مرینگے توآپکی حکومت حرکت میں آئے گی؟”۔ سندھ فیسٹیول کے نام پر ثقافت کا جشن منانے اورکروڑوں روپے اڑانے والی سندھ حکومت کو نہ ہی بلکتے بچوں کی صدائیں سنائی دیں اورنہ ہی ماوٴں کے بہتے ہوئے آنسوں کا اُن پر اثر ہوا۔تھر میں آج بھی بچے مررہے ہیں، لیکن سندھ کے حکمراں اندھے اور بیرئے ہوچکے ہیں۔ سندھ حکومت کی بدترین کارکردگی کے بارئے میں تو اب بیرون ملک بھی بہت باتیں ہورہی ہیں ۔

سندھ میں رہنے والا عام آدی نہیں جانتا کہ بلاول اور زرداری کے کیا اختلافات ہیں، اور نہ اُس کو اس بات میں کوئی دلچسپی ہے کہ مخدوم امین فہیم پیپلز پارٹی میں رہنگے یا نہیں ، اُسکو تو اپنے بچوں کےلیے خوراک ، تعلیم اور صحت کی فکر ہے۔ آصف زرداری یا کوئی اور مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج کی پیپلز پارٹی اپنی بدترین کارکردگی اور حد سے زیادہ کرپشن کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھوچکی ہے۔

مرکز کی حکومت ختم ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے اپنی لوٹ مار ختم نہیں کی، سندھ کے وزرا کے بدعنوانی کے قصے عام ہیں۔ بیڈگورنس کی وجہ سے اٹھارہ مہینے میں صرف کراچی میں لسانی، مذہبی اور سیاسی دہشتگردی میں ہزاروں افراد زندگی سے محروم ہوگئے، حال ہی میں کراچی کی ٹیمبر مارکیٹ جلتی رہی لیکن وزرا سوتے رہے۔ سندھ حکومت کی بدترین کارکردگی اور لوٹ مار کے بعد بھی آصف زرداری کا پرویز مشرف کو ْبلاْ کہنا یا اُن پر جھوٹے الزام لگانا صرف اپنی ناکامی اور بدعنوانی کو چھپانے کی ایک کوشش ہے۔

تحریر: سید انور محمود