counter easy hit

مرتو تم نے بھی جانا ہے……

واصف ناگی

آج کا کالم ہم انتہائی دکھ اور اذیت کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ امریکہ کے شہر ہوسٹن سے ایک دوست آئے انہوں نے کچھ سیاسی لیڈروں اور سابق وزرا کے بارے میں بتایا جو پاکستان سے مفرور ہو چکے ہیں اور یہاں پر موجیں مار رہے ہیں۔ کسی کے دس گیس اسٹیشن ہیں تو کسی کے بارہ فلیٹ ہیں۔ یہ بات تو ہم چند ان سابق وفاقی وزرا کی کر رہے ہیں جو پچھلے دور میں پاکستان کے غریب ترین عوام پر حکمرانی کا مزہ لوٹتے  رہے  اور ہر تقریر میں جذبہ حب الوطنی، غریب کے دکھ و درد کی باتیںکرتے رہے، کسی کارکن کو مار دیا جائے تو حکمران مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور بے چارے کارکن کے رشتہ دار ساری عمر ایک تصویر اس لیڈر کے ساتھ کھنچوانے کے بعد لوگوں کو دکھاتے رہتے ہیں کہ بلاول بھٹو ان کے گھر آیا تھا، نواز شریف آیا تھا، وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس کے گھر میں ساری عمر تک موت کا سناٹا اور بھوک کے ڈیرے پڑے رہتے ہیں اس کے رشتہ دار جب پارٹی کے لیڈر کو کبھی ملنے کی کوشش بھی کریں تو سیکورٹی والے ایسے دھکے دیتےہیں کہ ان کی دس پشتیں یاد رکھیں ۔ آج پاکستانی عوام اور کوئی ادارہ بیرون ممالک خصوصاً دبئی اور برطانیہ میں اربوں روپے کی جائیدادیں بنالینے والوں سے کچھ نہیں پوچھ سکتا۔ صرف سیاستدان ہی نہیں کچھ اور بھی ہیں جن کا نام لینا منع ہے۔آج اکثر بیوروکریٹس کے بچے بیرون ممالک زیر تعلیم ہیں، کبھی کسی نے پوچھا ہے؟۔
پاکستان سےاربوں روپے لوٹتے ہو، گرین پاسپورٹ پر امریکہ، یورپ پہنچتے ہو، پھر گرین پاسپورٹ کو اس ملک کے پاسپورٹ سے تبدیل کرلیتے ہو۔ پھر بڑے فخر سے کہتے ہو کہ ہم تو امریکی شہری ہیں ہم تو برطانوی شہری ہیں۔ غریب عوام کی کچی گلیوں، بازاروں، سیوریج اور پانی کی نالیاں لگانے کےلئے جو کروڑوں روپے کی گرانٹ ملتی ہے لوٹ کر چلے جاتے ہو۔ کتنے دکھ کی بات ہے عوام بھاری بھاری ٹیکس دیتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس سے ہر علاقے کا ایم این اے، ایم پی اے اور کونسلر اس علاقے کی کایا پلٹ دے گا۔ کبھی کسی حکومت نے میڈیا کو بتایا کہ ایک علاقے کی ترقی کے لئے ہر سال ایک ایم این اے، ایم پی اے اور کونسلر کو کتنے فنڈز ملتے ہیں۔
ہم اس مرتبہ کراچی کے انتہائی گندے اور لاہور کے مختلف علاقوں میں گھومتے رہے۔ کراچی کے علاقوں کی بات بعد میں کرتے ہیں پہلے کچھ ذکر لاہور کا کرلیں۔ چونکہ ہمارا تعلق امرتسر اور لاہور سے ہے اور لاہور سے خاص لگائو رکھتے ہیں۔ کراچی سے ایک دوست نے کہا کہ اندرون شہر کی خطائیاں بڑی مشہور ہیںاس دفعہ کراچی آتے ہوئے وہ ضرور لے کرآنا۔ ہم نے اپنے ڈرائیور کو بھیجنے کی بجائے خود چوہٹہ مفتی باقر جانے کا ارادہ کیا۔ پچاس برس قبل یہاں پر سائیں کے کباب، لال کھوہ کی مٹھائی، پاپا گڈی فروش کو ہم نے دیکھا تھا۔خیال تھا کہ اب یہ علاقے پہلے کی نسبت بہت صاف ستھرے اور خوبصورت ہو چکے ہوں گے چونکہ اب تو والڈسٹی والے بھی کام کر رہے ہیں۔ والڈ سٹی والوں کو کروڑوں روپے مل رہے ہیں مگر اندرون شہر کی حالت ویسی کی ویسی ہے۔ خدا شاہد ہے پچاس برس قبل بھاٹی، لوہاری، موچی، اکبری، دہلی، شیرانوالہ، موری دروازہ زیادہ صاف ستھرے تھے۔ تانگے بھی چلتے تھے اور موٹر گاڑیاںبھی۔ آج ان علاقوں اور بازاروں سے پیدل چلنا بھی مشکل۔ ترقی ہم نے یہ کی کہ چنگ چی آگئی جس نے ہر طرح کے ماحول کو خراب کردیا۔ شور کی آلودگی اور دھواں کی آلودگی پیدا کردی۔ ذرا دیر کو سوچیں پچھلے 70 برس سے ہر حکومت نے  ہر سال ایک کثیر رقم علاقے کی ترقی کے لئے دی۔ آخر وہ رقم کہاں جا رہی ہے؟ آج تک کوئی سیاست میں آکر غریب ہوا؟ ہمارے بڑے بھائی اور انتہائی پیارے دوست حسن نثار باتیں تو درست کرتے ہیں مگر کسی کان پر جوں تو رینگے۔ یقین کریں آج سے ستر برس قبل ملک کے سینکڑوں علاقوں کے حالات بہتر اور اچھے تھےان میں صفائی، ستھرائی اور لوگوں کی زندگیاں اور صحت ساٹھ ستر برس قبل اچھی تھیں آج واقعی بدتر ہیں۔ لاہور کی ہر انتہائی جدید بستی سے صرف دو تین کلو میٹر کے فاصلے پر واقع دیہات میں لوگ جس طرح زندگی بسر کرتے ہیں آپ کو اس کا یقین نہیں آئے گا۔ غریبوں کی بستیوں سے ووٹ لے کر جیتنے والو! کبھی سوچا ہے کہ تم اس دولت کے ذریعے کیا زندگی کا ایک سانس بھی بڑھالو گے؟
مرتو تم نے بھی جانا ہے مگر کچھ اچھا عمل تو کرلوکہ لوگ تم کو اچھے نام سے یاد کریں۔ اس قدر دولت لوٹی ہے کہ امریکہ ، یو کے اور دبئی میں محلات میں رہتے ہو، قیمتی گاڑیاں اولادوں کو لے کر دی ہیں، کبھی چنگ چی پر اپنی اولاد کو بھی سفر کرائو۔خدا کی قسم اگر میں آپ کو کراچی کے سرکاری اسپتالوں کے حالات اور مریضوں کے بارے میں بتائوں تو آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ نوجوان ڈاکٹروں نے تمام سرکاری اسپتالوں کے نظام کو تباہ و برباد کردیاہے پچھلے کئی روز سے وائی ڈی اے نے اسپتالوں میں ہڑتال کرا رکھی ہے۔ ارے سیاست کو عبادت کا درجہ دینے والو، کبھی عبادت کرکے بھی لوگ راتوں راتوں ارب پتی ہوتے ہیں؟ سیاست بقول آپ کے عبادت ہے، تو عبادت کاروبار نہیں، تم لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہو؟ارے دوستو! پاکستان صرف ڈی ایچ اے  لاہور، کراچی، اسلام آباد نہیں۔ پاکستان میں لالو کھیت بھی ہے، لیاری بھی ہے، کورنگی اور چورنگی بھی ہے، باغبانپورہ اور دھرم پورہ بھی۔ وہ گلیاں بھی جہاں پر پانی کا ایک گھونٹ پی کر ہمارے سیاست دانوں کے بچے کئی روز بسترسے نہ اٹھ سکیں۔
بلاول بھٹو تم کو عوام سے پیار ہے، تمہارے نانا کو عوام سے پیار تھا، پھر بلاول ہائوس کے سامنے کی پوری سڑک پر ناجائزقبضہ کرکے کیوں بند کردی ہے؟ اگر تم سیاست دان عوام میں گھل مل نہیںسکتے، تم قیمتی اے سی گاڑیوں کے بغیر سفر نہیں کرسکتے، کسی سول سرکاری اسپتال میں علاج نہیں کرا سکتے تو پھر تم کیا جانو غریب کی زندگی کتنی تلخ  ہے؟کبھی قیمتیں گھڑیاں اور قیمتی کپڑے پہن کر بھی غریب کی غربت کا احساس ہوتا ہے؟
حکمران اور ایلیٹ کلاس جو دودھ، مرغی، دیگر کھانے پینے کی اشیا استعمال کررہے ہیں، مرغابی اور ہرن کا گوشت کھاتےہیں جو عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اتنی قیمتی خوراک کھانے کےبعد مرپھر بھی جانا ہے۔ آپ یقین کریں کہ اندرون شہر میں جو بچے اور بڑے چیزیں کھا رہے ہیں اور جو رنگ ان چپس اور دیگر کھانے کی اشیا میں ڈالا جارہا ہے آپ اس کا تصور نہیں کرسکتے ان علاقوں کے ایم این اے، ایم پی اے حضرات کبھی اپنے حلقہ انتخاب کے کھانے اپنے بچوں کو تو کھلائو، پھر دیکھو کیا ہوتا ہے؟

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website