counter easy hit

ترقی یافتہ ملکوں کی عوام اور ان کے سربراہوں کا چال چلن بمقابلہ پسماندہ اورترقی پذیر ملکوں کے عوام اور ان کے سربراہوں کا چال چلن

ترقی یافتہ ملکوں کی عوام اور ان کے سربراہوں کا چال چلن بمقابلہ
پسماندہ اورترقی پذیر ملکوں کے عوام اور ان کے سربراہوں کا چال چلن

تحریر ایس ایم حسنین، ایڈیٹر یس اردو نیوز

حالیہ چین اورامریکہ کی تجارتی جنگ میں پیش رفت ہوئی اس کا اگر ایک خاص طریقے سے جائزہ لیا جائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ترقی یافتہ ملکوں کے کاروباری ادارے، عوام اور سربراہوں میں کس قدر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یہ انڈرسٹینڈنگ یاہم آہنگی ہی دراصل ان کے مسلسل ترقی کے عمل جوجاری رکھنے کی بنیاد ہے۔
امریکی صدر جب سے اقتدار میں آئے ہیں ان کی توجہ ہمیشہ سے امریکہ کے حریف ممالک کو کاروباری، فوجی اورعالمی معاملات میں یکسر پچھاڑنے یا امریکی بالادستی کے تابع لانے کی طرف مرکوز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نیٹو کےرکن ممالک کی بااثر ترین شخصیات کو تو وہ جھاڑ پلانے سے بھی باز نہیں آتے ۔ دنیا کی بااثر ترین خواتین میں سے ایک جرمن چانسلر انجیلا مرکل ہیں جن سے ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ نے ہاتھ تک ملانے اور روائتی وضع داری سے انکار کردیا۔ یہ بات یہیں ختم نہیں ہوئی صدر ٹرمپ نے کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈ کے بارے میں بہت ہی غیر مناسب الفاظ بھی استعمال کیے۔
چونکہ امریکہ چائنہ، روس اورمسلم ممالک کو اپناسب سے بڑا حریف اورامریکی قوم کے مستقبل کیلئے سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا خطرہ گردانتا ہے چنانچہ امریکی صدر نے اپنے آغاز سے آج تک بہت سے ایسی پالیسیوں پر کام کیا جن سے وہ تمام حریفوں کو سخت گیر پیغامات بھجواتے رہے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر چائینہ کے تیزی سے معاشی اورفوجی اثرورسوخ کوروکنے کی فکر میں ہیں ۔ انہوں نے ایک غیر علانیہ معاشی جنگ شروع کی۔ اس کیلئے انہوں نے امریکہ میں چائینیز مصنوعات کی آمد روکنے کیلئے طویل غوروخوص کے بعد ایک حکمت عملی طے کی اور چائینیز ٹیلی کام مصنوعات بنانے والی کمپنی ہواوے پر پابندی عائد کردی۔
چنانچہ اس عمل کے رد عمل میں چائینیزکمپنی نے تو حالات کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کی ہی ساتھ ہی چائینیز حکومت نے اپنے ملک کی بہترین ٹیلی کام کمپنی کے دفاع کا بھی ارادہ کرلیا۔ اس طرح امریکہ نے فوری طور پر ہواوے کو بند کرنے کاارادہ ترک کیا اورکل کے اخبارات میں پابندی کو تین ماہ کیلئے ملتوی کرنے کی خبریں شائع بھی ہوگئیں۔ قصہ مختصر چائینہ حکومت کے فوری ایکشن نے ایک چائینی کاروباری ادارے کو نقصان سے بھی بچا لیا اور امریکی صدر کو بھی ان کے ارادوں سے باز رکھا۔ چنانچہ امریکی صدر نے بھی اپنی گوگل وغیرہ جیسی عالمی کپنیوں کو کچھ وقت دے دیا اور وہ بھی فوری نئی پابندی سے ہونے والے نقصان سے بچ گئیں۔
چنانچہ اوپر جس ہم آہنگی    کا ذکر ہم نے کیا یہ وہی لائحہ عمل ہے جس سے امریکی اورچائینیز صدور نے اپنی اپی کمپنیوں کا خیال رکھتے ہوئے اپنے احکامات جاری کیے پابندیاں بھی لگیں اور اٹھا بھی لی گئیں۔
آج تازہ ترین جو خبر تمام موقر روزناموں میں شائع ہوئی ہے کہ چین نے امریکی کو قیمتی دھاتوں کی سپلائی روکنے کی دھمکی دیدی ہے ۔
چین کے اس عمل سے امریکی کمپنیوں کو قیمتی دھاتوں کی سپلائی رک جائے گی اور نتیجے کے طور پر امریکہ میں ان دھاتوں سے مستفید ہونے والے کاروباری اداری نقصان میں چلے جائیں گے اور اس کے نتیجے میں بیروزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا اور فوری طور پر امریکہ اگر ان دھاتوں کا متبادل کا بندوبست نہ کرسکا تو کاروباری بحران کی صورتحال بھی پیدا ہوگی۔
چنانچہ چین نے اپنے ساتھ رقابت رکھنے والے امریکہ کو یہ واضح پیغام بھی دیا ہے کہ اگر اس نے چین کے کاروباری اداروں کو پابندی کا شکار بنا کر دیوالہ کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں امریکی کاروباری اداروں کو بھی مالی دھچکے برداشت کرنا پڑیں گے۔
اس طرح دونوں ملکوں نے فوری طور پر تجارتی جنگ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اور خیر مہر سکھ سانگ
تو جناب اب آتے ہیں ترقی پذیر یاپسماندہ ممالک کی طرف۔ یہ ترقی پذیر اورپسماندہ ممالک ہوتے ہی وہ ہیں جن میں اداروں، حکمرانوں اور عوام میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہوتی ۔ ریاست کے تمام ستوں اپنی اپنی بالادستی کی فکر میں رہتے ہیں چنانچہ کبھی ایک ادارہ اپنی ہی ریاست کے کسی دوسرے ستون کو تہہ تیغ کر کے اپنی طاقت منوانے میں کامیاب ہوتا ہے اور کبھی دوسراستون اپنے ہتھیار آزماتا ہے چنانچہ پسماندہ یا ترقی پذیر ملکوں کے حکمران اورادارے اور عوام آپس میں بے یقینی کا شکار ہوکر لڑتے رہتے ہیں چنانچہ ایسی ریاستیں پسماندہ یا ترقی پذیر ہی رہتی ہیں۔
اب آپ اسی تناظر میں حکومت پاکستان کو دیکھیں ۔ ہماری حکومت نے آتے ہی جوفیصلے کیے اس کے نتیجے میں ملک میں پہلے تو میڈیااداروں کا بحران آیا جن کی ادائیگیوں کا توازن خراب کر کے منافع میں چلتے ہوئے کاروباری اداروں کو دیوالیہ کردینے کی بھرپور کوشش کی گئی چنانچہ لاکھوں کی تعداد میں میڈیا ورکرز بے روزگار ہوئے اور اس طرح ریاست کے ایک ستوں نے دوسرے ستون کے غریب کارکنوں کو شکار کرلیا۔
گو کہ بعد میں حکومت کو احساس ہوا اور اس نے صحافتی اداروں کے واجبات ادا کرنے کی حامی ضرور بھر لی ہے مگر اس سعی لاحاصل نے ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ کرنے اور اس کو پسماندہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے
اسی طرح میڈیا کے بعد تجاوزات کیخلاف آپریشن کے نام پر غریب ریڑھی بانوں اور دکانداروں کے کاروبارٹھپ ہوئے اور اس آپریشن کے نتیجے میں حکومت کو تو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا مگر تاجروں یا چھوٹے دکانداروں کو نقصان اٹھانا پڑا۔ اوراس طرح ریاست کے ایک ستون نے عوام کو ہی کچل ڈالا۔ اس طرح ملک پیچھے کی طرف تیزی سے آیا اور ریاست اور اس کے عوام مشترکہ طور پر پسماندہ ہوئے کیونکہ  ہم آہنگی پیدا کیے بغیر اور ان اقدامات کے متبادل سوچے سمجھے بغیر حکومت نے ایسے ظالمانہ اقدامات اٹھالئے اور پھر ان پر یوٹرن لے لیا ۔ اور ایک مرتبہ پھر سعی لاحاصل کے نتیجے میں غربت اور پسماندگی مٰں اضافہ ہوا۔
حکومت کے ایسے غیر سنجیدہ رویوں کے نتیجے میں ملک میں معاشی اداروں کا اعتماد کم ہوتا گیا اور سٹاک ایکسچینج نیچے گرنا شروع ہوگئی۔ ریاست کے ستونوں کے درمیان اعتماد اورہم آہنگی کا فقدان معاشی بحران کی صورت میں رنگ لے آیا۔
چنانچہ اس غوروخوض کے بعد ہم یہ جان سکتے ہیں کہ حکومت کو اس ملک کے نجی اداروں کی بھی سرپرستی کرنا چاہیے اور ان کے نقصان کو اپنا نقصان سمجھتے ہوئے حکمت عملی تیار کرنی چاہیے جیسا کہ ہم نے آپ کو چین اورامریکہ کی مثال دی ہے کہ یہ ترقی یافتہ ممالک اپنے نجی کاروباری اداروں کے مفادات کی خاطر اپنے فیصلے تک تبدیل کرلیتے ہیں اور اپنی عالمی سرد جنگ میں بھی اپنی سبکی کو خاطر میں نیں لاتے ۔مگر ہمارے ملک میں تو تبدیلی کے نام پر اوراصلاحات کے نام پر وہ کیا جارہا ہے جس کا کوئی سر ہے نہ ہی کوئی پیر۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے حال پررحم فرمائیں اور حکمران ہوش کے ناخن لیں تاکہ ملک میں ترقی کا عمل کچھ شروع ہوسکے اور غریب عوام کو ریلیف ملے

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website