counter easy hit

لگاتے جاؤ صحرا میں شجر اور

Tree In Desert

Tree In Desert

تحریر: نوشین الیاس
میرا نام نوشین الیاس ہے ٬میرا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے ہے۔ میرا تعلق آراہیں فیملی سے ہے٬ میرے تمام اباواجدا لاہور سے ہی ہیں۔ ہم 6 بہن بھائی ہیں اور میرا تیسرا نمبر ہے۔ بڑے دونوں بھائی شادی شدہ ہیں۔ اپنی فیملی کی میں شروع سے ہی بہت لاڈلی بچی رہی ہوں اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے ددھیال میں مسلسل لڑکوں کی پیداءش کے بعد پیدا ہونے والی میں پہلی لڑکی تھی اس وجہ سع شروع سے ہی میری ہر بات کو بہت اہمیت دیتی جاتی رہی۔ پونے تین سال کی عمر میں جب میں نے سکول میں ایڈمیشن لیا اور میری امی کی گھر میں کروای گی تیاری سے مجھے پونے تین سال کی عمر میں دوسری جماعت میں داخلہ ملا۔میں نے ابتدای تعلیم علاوالدین اکیڈمی انگلش میڈیم باغبانپورہ سے حاصل کی میرا سکول کوایجوکیشن سکول تھا ۔اورہر سال اچھی کارکردگی پیش کرتی رہی۔ میں نے جب اپنے سکول میں نویں جماعت کے سالانہ امتحان دینے کے بعد فرسٹ پوزیشن حاصل کی میرے سکول میں سالانہ امتحان دسمبر میں ہوتے تھے میری اچھی پوزیشن دیکھ کر میرے انکل نے دسویں جماعت کے بورڈ کے امتحان کے لے پراویٹ امیداوار نام بھیج دیا۔مجھے ابھی دسویں جماعت میں آے دو ماد ہی ہوئے کہ بورڈ کے امتحانات کے لے میرا انتخاب ہو گیا اس وقت میں نے ایک وقت میں بہت سے کام کرنے کا طریقہ سیکھا۔صبح سکول سکول کے بعد پھر بورڈ کا متحان اور پھر اکیڈمی جانا،بنا اپنے سکول اور اکیڈمی کو بتاے ایک ٹرای کے طورپر امتحان دے اور کیونکہ عزت دینے والی ذات اللہ کی ہے میں نے 640 مارکس لے کر فرسٹ ڈویزن حاصل کی۔اس طرح میں نےاپنی پڑھائی کے سالوں کو بہت اچھے طریقے سے بچایا۔

اسکے بعد میں نے گورنمنٹ اسلامیہ کالج کوپر روڈ میں ایڈمیشن لیا ابھی تھوڑا عرصہ ہوا کالج جاتے کہ اٹلی کے لے بھی میرا بلاوا آ گیا۔اور مجھے اٹلی آنا پڑا گیا اپنے والد کے پاس اپنے دونوں بڑے بھاءیوں کے ساتھ میں اٹلی آ گی میری والدہ اور چھوٹے بہن بھاءی پاکستان ہی تھے مجھے اٹلی میں رہتے ہوئے دس سال ہو گئے ہیں۔ اٹلی میں رہنے کے بعد بھی میں نے اپنی پاکستان میں اور اٹلی میں تعلیم جاری رکھی یہاں رہتے ہوئے مجھے امتحانات پاکسستان میں جا کر دینے پڑتے رہے ۔اس طرح سے میں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی ہے اور اٹلی میں بھی ہائی سکول تک تعلیم حاصل کی ٬اٹلی کی سر ذمین پر قدم رکھتے اس بات کا احساس ہو گیا کہ یہاں بہت کام بِہت مخنت کرنی پڑے گی ۔کیونکہ روم ائیر پورٹ پر ہر کوی جانے کون سی زبان بولتا نظر آیا جس سے انگلش میں بات کرو اس کو ہی ہماری سمجھ نہ آئے۔بعد میں پتہ چلا کہ یہ اطالوی زبان بولتے ہیں٬ جس کے ایک بھی لفظ سے نہ میں واقف تھی نہ ہی میرے بھائی۔روم آنے کے بعد پتہ چلا کہ جہاں ہماری رہائش ہو گی وہ جگہ یہاں سے کم و بیش 400 کلومیٹر ہے۔اٹلی کے صوبہ مودنہ کے شہر کارپی میں میری رہاءش تھی اور آج تک یہں ہے۔ اتنا سفر کر کے جب ہم گھر آءے تو آس پاس کے لوگوں نے دیکھ کے ھال احوال پوچھ ایک لفظ بھی نہ آیا کہ انکو کچح کہ سکوں ابو ہی پتہ نہیں کیا کیا بول رہے ہیں۔گھر آتے ابو نے کہا کہ یہاں کی زبان الگ ہے اور سکھنی پڑے گی۔ اگلے دن مییرے والد نے میرا داخلہ زبان سیکھنے والے سکول میں کروایا۔ تب میں نے اٹالین سیکھنا شروع کی۔کیونکہ یہاں سکول کے بعد کویی اور کام ہوتا نہیں تھا گھر کا کام بھی نہیں ہوتا تھا ابو اور بھائی کافی مدد کر دیتے تھے۔ اور اٹالین سکول بھی ساتھ ساتھ. میری والدہ اور باقی بہین بھای بھی اٹلی آگے ایف اے میںمیں نے اردو ادب پڑھا اس لے لکھنے کا شوق تھا تھوڑا عرصہ کو میں کالج گئ اس وقت میں نے کالج کے ایک مشاعرے میں حصہ لیا اور اپنی ایک غزل پیش کی جس پر امجد اسلام امجد صاحب سے انعام بھی وصول کیا۔

میرے لکھنے کے شوق سے میرے والد واقف تھے اس لے انہوں نے مجھے کہا کہ تم یہاں ایک اردو اخبار ہے اس میں لکھنا شروع کر دو۔میرے والد کو یہ مشورہ اٹلی کے نامور صحافی وسیم رضا بلزانو نے دیا اور ان کے کہنے پر میں نے آزاد اخبار میں لکھنا شروع کر دیا یہ میرا صحافت کی طرف پہلا قدم تھا اٹلی کی پہلی پاکتسانی لڑکی جس نے اخبار میں کام شروع کیا۔ مجھے میرے گھر سے کافی سپورٹ ملتی رہی۔ میں نے آہستہ آہستہ سوشل کاموں میں حصہ لینا شروع کیا ۔اٹلی میں خواتین میں اس چیز کا رجحان نہیں تھا ۔میں نے جس سکول سے زبان سیکھی اسی میں باقاعدہ ترجمان اپنے ہم وطن لوگوں کی مدد شروع کر دی۔ اٹالین زبان پڑھنا شروع کر دی۔اور اس ترجمانی کے کام میں بحی میں پہلی ہی تھی جس کا گورنمبٹ کے اس ادارے نے کنڑءکٹ بھی کیا۔اس طرح میں نے ترجمانی کا کام شروع کر دیا اور 2004 میں کارپی کے سٹی ہال میں حقوق یکسانیت کی کمیٹی کی ممبر بنی اور میں اس کمیٹی کی سب سے کم عمر ممبر تھی ۔یہ کمیٹی 40 سال سے سٹی ہال میں کام کرتی تحی اور میرے لے یہ بات قابل فخر تھی کہ اس میں میں پہلی پاکستانی ہی نہیں پہلی غیر ملکی تھی جو اس کمیٹی کا حصہ بنی اور مسلسل 2009 تک اس سےجڑی رہی۔ میں ایک صحافی،ایک شوسل ورکر ایک عدالتی ترجمان کا کام شروع کر چکی تھی۔ترجمانی کے لے مجھے سکول اور اسپتال میں بھی جانا پڑتا رہا۔یہ سلسلہ چلنا شروٰع ہوگیا۔ میں نے آزاد کے علاوہ آن لاءین اخبار گجرات لنک میں کام شروع کر دیا اور اس وقت میں نے اس چیز کو نوٹ کیا کہ اٹلی ہی نہیں پورے پورپ میں ہماری پاکستانی خواتین ابھی متحرک نظر نہیں آئیں۔اور جو ہیں وہ منظر عام پر نہیں ہیں۔ 2005 میں نےپاکستان کے لئے دوسراسفر کیا۔اس وقت میں نے ایک بات کی کمی بہت محسوس کی اور وہ تھی یہاں پلنے والے بچوں میں اپنی اردو زبان کی کمی،کیونکہ ایک طرف تو میں اس طرف مصروف تھی کہ ہماری خواتین اٹالین زبان سیکھیں اور اپنے بچوں کو سکول ہوم ورک یا ڈاکٹر کے پاس لے جانے میں مدد کروں لیکن دوسری جانب یہاں سکول میں پڑھنے والے بچے تو اپنی زبان جانتے ہی نہیں۔میں نے اءیر پورٹ پر دیکھا یہ منظر کہ بچے یا تو اٹالین بول سکتے تھے یا اپنی اپنی پنجابی ،مجھے اس وقت اس بات کا احساس ہوا کہ ان بچوں کے لے بھی کچھ کیا جاءے اپنی واپسی کے بعد میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ ان بچوں کو اردو اسلامیات اور انگلش کی بنیادی تعلیم دلوانے کےلئےضرور کوشش کروں گی۔

2006 میں میں نے ایک اٹالین اسوسی ایشن کے ساتھ مل کر پاکستانی بچوں کے لئے سمر کمپ کا اتنظام کیا جو کہ اٹلی میں پہلی دفعہ پاکستانی بچوں کے لئے لگایا گیا جس میں کھیلوں کے علاوہ بچوں کو اردو انگلش اسلامیات کی تعلیم دی جانے لگی۔ پاکستان سے میڑک تک کا سلیبس منگوایا اور مختلف عمر کے بچوں کو پڑھایا جانے لگا۔اوراس وقت میں نے اٹلی کی تاریخ میں پہلی بار جشن آذادی کو منانے کا نمونہ پیش کیا۔کمپ میں بچوں کو ٹیبلو تیار کرواءے۔ نغمے پاکستانی کے ھوالے سع معلومات اور بہت کچھ ۔اٹلی کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسا پروگرام اٹلی میں پہلی بار ہوا جس میں کھلے آسمان تلے پہلی بار پاکستانی ایمبسی سے ہٹ کر اٹلی کی کھلی فضا میں پاکیستانی پرچم کی پرچم کشائی کی گئ۔ اس 14 اگست 2006 کے بعد اٹلی کے مختلف علاقوں میں جشن آزادی کے پروگرامز ہونے لگے مجھے خوشی ہوئی کہ میرا مقصد پورا ہونے لگا۔ اس پروگرام کے فورا بعد میں نے اپنی اخراجات پر باقاعدہ پاکستانی سکول کا آغاذ کیا۔ اور میرا یہ سکول 3سال تک چلتا رہا لیکن فنڈ کی کمی کی وجہ سے اور میرے خلاف ہونے والے علاقہ پرستی کے پروپوگنڈا کی وجہ سے مجھے اس کو بند کرنا پڑا۔مجھے آج بھی افسوس ہے کہ میری قوم میں علاقہ پرستی اس حد تک رچی ہے۔ مسلہ یہ کہ ہر کام میں لاہور کی لڑکی نوشین ہی کیوں آگے۔کارپی میں ایمبسی کے وزٹ کو پہلے کبھی نہ ہوءے وہ بھی لاہورکہ نوشین ہی کیوں۔ اٹلی میں پہلی بار عیدملن پارٹی پروگرام کا آغاز بھی میں نے ہی کیا۔اب مسلہ یہ تھا کہ مجھے اپنی کمونٹی کے لءے جو جو کمی لگتی اس پر بیٹھ کر بحث کرنے کی بجاءے میں عمل میں لاتی۔میری کمونٹی کی ان خدمات کی وجہ سے مجھے کمونٹی کی طرف سے گولڈ میڈل نوازا گیا۔

کارپی ہسپتال میں جب میں نے دیکھا کہ عورتوں کو ڈیلیوری کے وقت اٹالین مرد ٹریٹ کرتے ہیں تب میں نے اپنے علاقے کے سٹی ہال میں اس بات کو رکھا کہ یہ ہم مسلم کے لےغلط ہے تب کوءی مقامی مذہنبی اسوسی ایشن نے یہ نقطہ نہیں اٹھایا۔ میری اس بات کو سٹی پال میں اہمیت دی گیء۔اور اور باقاعدہ ایک پروجیکٹ بنایا گیا جس میں یہ سہولت ملنی شروع ہوءی کہ مسلم عورتوں کو صرف عورتیں ہی ٹرٹ کریں گءی مرد ڈاکٹر اس وقت آ سکتا ہے جب جان کا خطرہ ہو۔ میرے اس عبور کے دور کے بعد ایک وقت ایسا آیا جب میں نے ہمت ہار دی پر میری فیملی اور انکا اعتماد میرے لءے میری طاقت ثابت ہوا۔ میں نے ایک انشورنش کپمنی کے ساتھ کام شروع کیا تھا اور اپنا الگ سے ایک دفتر کھولا جہاں انشورنش کے علاوہ فری اپنی کمونٹی کی مدد کرتی۔کسی کو ڈاکومنٹ کا مسلہ ہے تو اس کی مدد کی کسی کو کوءی بھی مسلہ ہےچبے کر سکول کا ڈاکٹر کا یا کوئی بھی تو میں اس کی مدد کرتی۔ ایک دن مجھےاپنے اآفس کے دروازے پر ایک خط ملا جس میں دحکمیان وصول ہوءی اور اس قدر گھٹیا زبان کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی۔لکھا گیا کہ اگر اپنے یہ سارے کام نہ چھوڑے تو میرا گلہ اور زبان کاٹ دیجاءے گی۔ میں دھمکی سے نہیں ڈری پر اس فھش زبان نے میرا خوصلہ کم کیا۔کیونکہ میں نے جو کچھ بھی کیا رضاکارانہ کیا اور اس کا انعام مجھے یہ ملیے۔میں نے سوچ لیا کہ اب کچھ نہیں کرنا۔میں نے آزاد اخبار کے ایڈیٹڑ اعجاز احمد کو کال کی اور کہا کہ میں آپ کا اخبار چھوڑتی ہوں انہوں نے مجھے سمجھاہا کہ یہ بیوقوفی ہے جیت ہے غلط لوگوں کی۔میرے گھر والوں نے بھی سمحھایا حوصلہ دیا خط کے علاوہ میرے بڑے بھاءیی کو تششدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اٹلی کے مشہور اخبار میں میرا کام میری کارکردگی اور ان دھمکیوں کا ذکر ہوا۔سارے اٹلی کی ہمدردی میرے ساتھ تھی۔سب سے بڑھ کر میرے والدین اور بہین بحاءی کی۔ اگر وہ میری طاقت نہ بنتے تو شاید آج میں نہ ہوتی۔دوبارہ سے اپنے ملک کی خدمت کے لے مجھے اٹالین میڈیا میں ایک مقام ملا۔اٹالین ٹی وی پر بہت سی نشریات میں میں نے حصہ لیا جہاں جہاں پاکستانی کلچر کو تنگ نظر کہا جاتا اس اس ٹی وی پروگرام میں میں نے اپنی مثال پیش کر کے بتاہا کہ ہم پاکستانی خواتین کسی سے کم نہی اور نہ ہی تسری دنیا کی مخلوق ہیں ہمیں ہمارا ہر ھق ملتا ہے اور ہم ذہنی ماڈرن اور زمانے کے ساتھ چلنے والی ہیں۔

میرا تعلق پاکستانی صحافت سے کچھ کم ہو گیا کیونکہ میں نے ایک اٹالین اخبار جوائن کر لیا اور باقاعدہ اردو اور اٹالین میں لکھنا شروع کر دیا۔ اٹلی میں اپنے ملک کی مثبت مثال پہش کرنے کے لءے ایسا کوئی کام نہں جو میں نے نہ کیا ہو۔میں نے اٹالین سیاسی پارٹی جوائن کی سیاسی پروگرام میں مہمان کے طور پر اپنے ملک کوپیش کیا۔ اٹلی کے سابقہ وزرا کے سامنے اپنی کمیونٹی کے مسئلے پیش کیے۔ 2007 میں میں نے اپنا چھوٹا سا امپورٹ ایکسپورٹ کا کام شروع کیا جوآج تک کر رہی ہوں ۔اور اس 2008 میں ایک سوشل پروموشن اسوسی ایشن کا آغاز کیا۔لبیک اسوسی ایسشن کی چیر پرسن کی حثیت سے آج بھی کام کر رہی ہو۔ لبیک ایسوسی ایسشن اٹلی کی وہ پہلی ایسوسی ایشن ہے جس نے کمیونَٹی میں اس بات کو اجاگر کیا کہ یہاں ہر ایک مسلم قبرستان ہونا چایے اور ہماری نوجوان نسل کے لیے ایک کرکٹ کا گرواءنڈ اس سلسلے میں علاقے کے میر کا جواب مثبت تھا یہاں تک کہ میں نےایک کمپین چلائی جس میں اٹالین کمیونٹی نے دستخط کر کے اس بات پر میرے ساتھ متفق ہونے کا اعلان کیا۔ کہ واقعی یہاں بسنے والے پاکستانیوں کے لئے ایک قبرستان اور گرواونڈ ہونا ضروری ہے۔ یہ پروجیکٹ ابھی کامیابی کی طرف رواں دواں تھا کہ کمیونٹی کے شر پسند عناصر یہ برداشت نہیں کر سکے اور ان کی میں میں نے اس کا م کو رکوا دیا۔اآج میری یہ بہت بڑی خواہش ہے کہ اٹلی کے کسی علاقے میں بھی یہ کام ہو تاکہ میرا یہ خواب پورا ہو سکے۔میں رہوں یا نہ رہوں پر میری کمیونٹی کے لوگ یہ کام کرنے میں کامیاب ہو جائین تو اقبال کی طرح میرا بھی خواب پورا ہو جاءے گا۔

اٹلی میں پاکستانی فیڈریشن کی ممبر بھی ہوں اٹلی میں میں ایک سیاسی پارٹی سے بھی جڑی ہوں اور اس میں بھی ابھی تک واحد پاکستانی لڑکی ہوں ابھی تک اور خواتین پاکستانی نظر نہیں آئیں اٹلی میں پاکستانی سیاست میں حصہ لینے والی بھی میں پہلی لڑکی ہوں۔ ندیم یوسف صاحب کے اصرار پر میں نے تحریک انصاف جوائن کی اور ہر کام کی طرح اس میں بھی میں پہلی ہی تھی مجھے تحریک انصاف اٹلی کی وویمن ونگ کی صدر اور انفارمیشن سکریڑی تحریک انصاف کے عہدوں سے نوازا گیا جس کی میں نے لاج رکھی اٹلی کی تاریخ میں کامیاب اور اصلی انصافیز کے سونامی جیسے جلسے میں نے کروائے اتنی بڑی تعداد میں آج تک ابھی اس جیسا کام کوئی نہیں کر سکا۔اس کی زندہ مثالیں آج بھی موجود ہیں میں نے تحریک انصاف اس وقت جوائن کی جب لوگوں کا رحجان بھی نہیں تھا۔آج مجھے کوآرڈینٹر تحریک انصاف کا عہدہ ملا ہے پر اس عہدے پر نہ تو میں نے خود کو پروموٹ کیا ہے نہ ہی فوٹوشوٹ کی قائل ہوں میں ان دنوں اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے ابھی پارٹی کو اتنا ٹائم نہیں دے پا رہی جتنا ماضی میں دیا اس کو وجہ کچھ پارٹی کے انٹرنل معاملات بھی ہیں اور میری مصروفیات بھی۔ میں جانتی ہوں کہ میں اوورسیز میں متحرک تحریک انصاف میں پہلی خاتون کوواڈینیٹر ہوں لیکن اس بات کو میں اپنے کام سے متعارف کروانا چاہتی ہوں میرے کام کے بدلے میں مجھے بہت بڑی ذمہ داری دی گئ ہے اور میں خلوص نیت سے اس کو نبھاؤں گی۔ اس وقت میں اپنے علاقے کے سٹی ہال میں باقاعدہ الیکشن کے ذریعے تشکیل دی جانے والی غیرملکیوں کی کمیٹی میں ایک کونسلر کی حثیت سے ہوں یہاں بھی ابھی تک واحد ہی ہوں۔دو پاکستانی مرد بھی اس کا حصہ ہیں۔ پر خواتین کی نمائندگی میں ہی کر رہی ہوں انٹیگریشن اور کلچرل کمشن کی کورڈینٹر ہوں۔

Hospital

Hospital

اٹلی کی بہے سی خدمت خلق کی ایسوسی ایشن کی ممبر ہوں۔ جو پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کر رہی ہیں بلکہ ہر قسم کی مدد کرنے میں مصروف ہوں۔ اٹالین صحافت میں اچھی کارکردگی پر مجھے اٹلی کے شہر آقیلا کے سٹی ہال میں چاندی کے قلم اور ڈائری سے نوازا گیا۔ اس وقت میرے ساتھ پاکستان سے آءی ہوءی وہ خواتین بھی تھیں جن پر تیزاب پھنک کر اس کو دنیا سے الگ کر دیا جاتا ہے پر مجھے خوشی ہے کہ مسرت مصباح کے سمال اگین والے پروجیکٹ کا میں بھی حصہ بنی۔ اس وقت میں اٹلی کی بیت نامور اسوسی ایشن کے ساتھ رضاکارانہ جڑی ہوں جو کہ خدمت خلق میں مصروف ہیں۔کارپی میں پاکستانی خواتین کے لئے الگ سکول بنوانے میں بھی میں پیش پیش رہی ہوں اور آج وہ سکول چل رہا ہے جہاں اپنے بچوں کے ہمراہ خواتین آتی ہیں اور اٹالین زبان سیکھتی ہیں ۔اس وقت میں نے پاٹنرشم پر ایک جرسیوں کی استری اور سلائی کی فیکٹری چلا رہی ہوں جو میرا زریعہ معاش ہے اوراپنا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس بھی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک سولیسٹر کمپنی میں کام کر رہی ہوں جہاں اپنی کمیونٹی کی خدمت رضاکارانہ کر رہی ہوں۔ مختصرا اٹلی میں میں نے ایسا کوئی کام نہیں چھوڑا جو نہ کیا ہو ہر شعبہ میں ہر جگہ ہر مقام ہر اپنے ملک کا نام روشن کیا ہے اور کرتی رہوں گی۔میرا مقصد صرف یہ ہی ہے کہ یہاں ہر بسنے والی پاکستانی کمونٹی کوہر وہ سہولت دلوا سکوں جو انکا حق ہے اور جیہاں جیہاں میرے ملک کے بارے میں میرے ملک کی خواتین اور میرے اسلام کے بارے میں غلط بات کی جاتی میں میں اس کی اصلاح کر سکوں جہاں تک میں کر ساکتی ہوں۔ اس وقت لیبک اسوسی ایشن کے پلٹ فارم پر میں اٹلی کی ایکس منسٹر اور حالیہ پورپی پارلمینٹ کی ممبر کے ساتھ مصروف ہوں اور اسی کی بنائی گئی ایک کمیٹی وویمن ان پروگرس میں ایشیا کی نمائندگی کر رہی ہوں۔میں رکی نہیں نہ میں نے رکنا ہے میں نے ہر تنقید کا بہت صبر سے مقابلہ کیا ہے۔ میرا خواب تھا کہ اٹلی میں خواتین اپنے ملک کا نام روشن کریں آج مجھے خوشی ہے کہ خواتین کو میں اپنے نقش قدم پر چلتے دیکھ رہی ہوں۔ میں نے اپنے ملک کے لیے جتنا بھی کام کیا ہے رضاکارانہ کیا ہے اپنے کام کو اپنے شوق ہی بنایا پیشہ نہیں اور اس معاملے میں میں اپنے والدین کی بہت بہت بہت شکرگزار ہوں کہ اس سلسلے میں میری ہر قسم کی مدد کی میری مالی مدد میری اخلاقی مدد۔میرے بہن بحاءی میری فیملی ہی میری طاقت ہے میں نے میرے بھائی پر پونے والی مار پیٹ اور دھمکی آمیز خط والے کیس کو میں اس لئے واپس لیا کہ میں اپنے ملک کا نام بدنام نہیں کرنا چاہتی۔میں نے معاف کرنا مناسب سمجھا کیونکہ اگر ملک کے لئے کچھ کرنا ہے تو ذاتیات کو پہلے ختم کرنا ہے۔میں کارپی میں رہتی ہوں جو کہ بریشاکے بعد پاکستانیوں کی تعداد میں دوسرے نمبر پر آتا ہے یہاں اپنا آپ منوانا بہت ہی مشکل کام تھا جی ہاں سب اور علاقوں کے لوگ بستے ہیں اور لاہور کے اکا دکا ہی بسنتے ہیں میں نے ہر طوفان کا مقابلہ کیا ہے۔ میں دس سالوں سے اپنے پاکستانی لباس کو ہی اپنائے ہوئے ہوں جس کا مقصد ایک تو اپنے لباس اپنے رنگوں اپنی تہذب سے پیار ہے ٬ یہ کہ اٹلی کے ہر شعبہ میں سیاست صحافت سوشل ورک، ٹی وی پروگرامز ہر جگہ میں نے حصہ لیا پر اپنے پہنوءے سے اپنے ملک کی خواتیں پر ہونے والے سوالات کاجواب دیا کہ ہم کوئی پسماندہ ذہین کی خواتین نہیں ہیں ہر میدان میں سب سے آگے ہیں میرا لباس دیکھ کر ہر کوئی مجھ سے یہ پوچھتا ہے کہ تم کہاں سے ہو اور مجھے خوشی ہوتی ہے یہ بتاتے کہ میری شناخت پاکستان ہے۔ ہم ذہنی ماڈرن خواتین ہیں
کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند کیوں نہ عاجزی پے اپنی ناز کرے

تحریر: نوشین الیاس