counter easy hit

نکاح اور بچوں کے بارے میں دل سوز بیان !!

عورت اور مرد کو جب تک اطمینان نہ ہوجائے کہ ان کے وکیل نے صیغہ پڑھ دیا ہے اس وقت تک وہ ایک دوسرے کو محرمانہ نظروں سے نہیں دیکھ سکتے اور اس بات کا گمان کہ وکیل نے صیغہ پڑھ دیا ہے کافی نہیں ہے بلکہ اگر وکیل کہہ دے کہ میں نے صیغہ پڑھدیا ہے لیکن اس کی بات پر اطمینان نہ ہو تو اس کی بات پر بھروسہ کرنا محل اشکال ہے۔۲۳۷۵۔ اگر کوئی عورت کسی کو وکیل مقرر کرے اور کہے کہ تم میرا نکاح دس دن کے لئے فلاں شخص کے ساتھ پڑھ دو اور دس دن کی ابتدا کو معین نہ کرے تو وہ (نکاح خوان) وکیل جن دس دنوں کے لئے چاہے اسے اس مرد کے نکاح میں دے سکتا ہے لیکن اگر وکیل کو معلوم ہو کہ عورت کا مقصد کسی خاصدن یا گھنٹے کا ہے تو پھر اسے چاہئے کہ عورت کے قصد کے مطابق صیغہ پڑھے۔۲۳۷۶۔ عقد دائمی یا عقد غیر دائمی کا صیغہ پڑھنے کے لئے ایک شخص دو اشخاص کی طرف سے وکیل بن سکتا ہے اور انسان یہ بھی کرسکتا ہے کہ عورت کی طرف سے وکیل بن جائے اور اس سے خود دائمی یا غیر دائمی نکاح کرلے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ نکاح دو اشخاص پڑھیں۔نکاح پڑھنے کا طریقہ۲۳۷۷۔ اگر عورت اور مرد خود اپنے دائمی نکاح کا صیغہ پڑھیں تو مہر معین کرنےکے بعد پہلے عورت کہے “زَوَّجتُکَ نَفسِی عَلَی الصِّدَاقِ المَعلُومِ” یعنی میں نے اس مہر پر جو معین ہوچکا ہے اپنے آپ کو تمہاری بیوی بنایا اور اس کے لمحہ بھی بعد مرد کہے “قَبِلتُ التَّزوِیجَ” یعنی میں نے ازدواج کو قبول کیا تو نکاح صحیح ہے اور اگر وہ کسی دوسرے کو وکیل مقرر کریں کہ ان کی طرف سے صیغہ نکاح پڑھ دے تو اگر مثال کے طور پر مرد کا نام احمد اور عورت کا نام فاطمہ ہو اور عورت کا وکیل کہے “زَوَّجتُ مُوِکِّلَکَ اَحمَدَ مُوَکِّلَتیِ فَاطِمَۃَ عَلَی الصِّدَاقِ المَعلُومِ” اور اس کے لمحہ بھر بعد مرد کا وکیل کہے ” قَبِلتُ التَّزوِیجَ لِمُوَکِّلِی اَحمَدَ عَلَی الصِّدَاقِ المَعلُومِ” تو نکاح صحیح ہوگا اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مرد جو لفظ کہے وہ عورت کے کہے جانے والے لفظ کے مطابق ہو مثلاً اگر عورت “زَوَّجتُ” کہے تو مرد بھی “قَبِلتُ التَّزوِیجَ” کہے اور قَبِلتُ النِّکَاحَ نہ کہے۔۲۳۷۸۔اگر خود عورت اور مرد چاہیں تو غیر دائمی نکاح کا صیغہ نکاح کی مدت اور مہر معین کرنے کے بعد پڑھ سکتے ہیں۔ لہذا اگر عورت کہے “زَوَّجتُکَ نَفسِی فِی المُدَّۃِ المَعلُومَۃِ عَلَی المَھرِ المَعلُومِ” اور اس کے لمحہ بھر بعد مرد کہے “قَبِلتُ” تو نکاح صحیح ہے اور اگر وہ کسی اور شخص کو وکیل بنائیں اور پہلے عورت کا وکیل مرد کے وکیل سے کہے “زَوَّجتُکَ مُوَکِّلَتِی مُوَکِّلَکَ فِی المُدَّۃِ المَعلُومَۃِ عَلَی المَھرِ المَعلُومِ” اور اس کے بعد مرد کا وکیل توقّف کے بعد کہے۔ “قَبِلتُ التَّزوِیجَ لِمُوَکِّلِی ھٰکَذَا” تو نکاح صحیح ہوگا