counter easy hit

فیصلہ آ گیا

Judicial Commission

Judicial Commission

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
آج ہم بہت پریشان ہیں اور حیران بھی۔ کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے نہ پینے کو البتہ رونے کو کہ ہمارے ساتھ یہ کیا ”ہَتھ” ہو گیا۔ جمعرات کی شب الیکٹرانک میڈیا پر شور مچا کہ تحقیقاتی کمیشن نے اپنی سربمہر رپورٹ وزارتِ قانون کو بھجوا دی ہے اور حکومتی ذرائع کے مطابق نواز لیگ ”کلین سویپ” کر چکی ہے لیکن ہم نے ہر گز اعتبار نہیں کیا۔

وجہ یہ کہ ہم بے پَرکی اُڑانے والے” شَرپسند” الیکٹرانک میڈیاکو خوب جانتے ہیں۔ ویسے بھی ہماری بے یقینی کی کئی وجوہات تھیں ،پہلی یہ کہ بقول ایک سینئرلکھاری ”کپتان جھوٹ نہیں بولتا”اور کپتان صاحب ”بقلم خود”تحقیقاتی کمیشن کے 84 دنوںکے دوران ہم جیسے سونامیوںکو 370 سے زائدمرتبہ یہ یقین دلاچکے تھے کہ اُنہوں نے تحقیقاتی کمیشن میںایسے ناقابلِ تردیدثبوت جمع کروائے ہیںجنہیں دیکھتے ہی تحقیقاتی کمیشن نوازلیگیوں کو”پھڑکا” کے رکھ دے گا۔ تحقیقاتی کمیشن کی ہرکارروائی کے بعدوہ یہ اعلان کرتے رہے کہ فیصلہ تحریکِ انصاف کے حق میں ”آوے ای آوے”کیونکہ ایک لاکھ چوبیس ہزارناقابلِ تردیدثبوت تحقیقاتی کمیشن میںجمع ہوچکے۔ ویسے ”رَولاشولا” تونوازلیگ کی ”طوطیاںاور طوطے”بہت ڈالتے رہے لیکن ہم نے اُن کے کہے کوکبھی” لفٹ” نہیںکروائی کیونکہ ہم جانتے تھے کہ ”سچ” صرف تحریکِ انصاف کی دوکان سے ملتاہے ۔ہماری یقین نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم شاہراہِ دستورپر 126 روزہ دھرنادے کر گینزبُک آف ورلڈریکارڈ میںسنہری حروف میںلکھوا چکے تھے۔

ہم چاہتے تواُس وقت بھی حکومت پرقبضہ کرلیتے لیکن ہم ٹھہرے”جمہوری لوگ”اِس لیے قبضے کا صرف ”ٹریلر” چلانے پرہی اکتفاکرتے ہوئے پہلے پارلیمنٹ ہاؤس اورپھر ptv پرقبضہ کیااور پھرخود ہی پیچھے ہٹ گئے۔ہم وزیرِاعظم ہاؤس پربھی بڑی آسانی سے قبضہ کرلیتے لیکن وہاںبھی ایک توہماری جمہوریت پسندی آڑے آئی اوردوسرے وزیرِاعظم ہاؤس کے سامنے قطاراندر قطارکھڑے فوجی جوان۔ اُن دنوںچونکہ ہمیںافواجِ پاکستان سے بہت پیارتھا اورہم کسی کی ”انگلی”کھڑی ہونے کے منتظربھی تھے اِس لیے قبضہ کیے بغیرہی پلٹ آئے ۔جب ہماری کاوشوںسے چینی صدرکا دَورہ ملتوی ہوا توہونا تویہ چاہیے تھاکہ میاں صاحب حب الوطنی کاثبوت دیتے ہوئے وزیرِاعظم ہاؤس اُس کے” اصلی حقدار” کے سپردکرکے خوداللہ اللہ کرنے سعودی عرب چلے جاتے لیکن اُنہوں نے تواُس”جعلی پارلیمنٹ” میںپناہ لے لی جہاںسارے جعلی اراکینِ پارلیمنٹ ”اکٹھ”کیے بیٹھے تھے۔

اصلی اراکین توصرف وہی تھے جنہوںنے جعلی پارلیمنٹ میں جانے کی بجائے مستعفی ہوناپسند کیا۔یہ الگ بات ہے کہ جب کئی مہینے گزرنے کے باوجودہمارے استعفے منظورنہ ہوئے توہمیں مجبوراََ پارلیمنٹ میںواپس جاناپڑاجہاں خواجہ آصف سیالکوٹی نے ”کچھ شرم ہوتی ہے ،کچھ حیاہوتی ہے”جیسے” دِلپذیر” جملوںسے ہمارااستقبال کیا۔ کسرتو خیرکسی بھی سیاسی جماعت نے نہیںچھوڑی لیکن خواجہ سیالکوٹی کے استقبالی جملے ”بَلے بَلے”۔ بے یقینی کی تیسری بڑی وجہ یہ کہ ہم نے نیاپاکستان بنانے کی خاطرجلسے ،جلوسوںاور دھرنوں میں ایساانداز اختیارکیاجسے بے تحاشہ پذیرائی ملی۔جونہی ہمارا ”پروگرام”شروع ہوتا نسلِ نَو خودبخود کھنچی چلی آتی ۔یہ بجاکہ ہمیں اِس اندازِ سیاست کواپناتے ہوئے کروڑوں اربوںخرچ کرنے پڑے اورصرف ڈی جے بٹ نے ہی ہم سے کئی کروڑ ”ہتھیا”لیے لیکن کچھ پانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کھونا ہی پڑتا ہے۔

Election

Election

حاسدین الزام دھرتے رہے کہ سونامیے اورسونامیاں تو میوزیکل کنسرٹ دیکھنے آتے ہیں ،نیاپاکستان بنانے نہیں لیکن ہم نے کبھی پلٹ کرجواب دینابھی گوارانہیں کیاکہ ”حاسدحسد کی آگ میںخود ہی جلاکرے”۔ ہم نے نیاپاکستان بنانے کی خاطر کئی جانوںکی قربانی بھی دی لیکن یہ سوچ کرصبر شکرکر لیاکہ ”خونِ صدہزار انجم سے ہوتی ہے سحرپیدا”۔انہی اوردیگر کئی وجوہات کی بناپر ہمیںیقین تھاکہ فیصلہ ہمارے حق میںہی آئے گالیکن جمعے کی صبح پتہ چلاکہ” ہونی” توہو چکی اور”ہونی” کوتو ہوکر ہی رہناہوتاہے۔ ۔۔۔ تحقیقاتی کمیشن کا فیصلہ آگیاکہ 2013ء کے انتخابات صاف اورشفاف تھے ،دھاندلی کاشائبہ تک نہ تھا اورمنظم دھاندلی کاتو سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔تحقیقاتی کمیشن نے الیکشن کمیشن کو”رگڑا” بھی دیااور ہماری اشک شوئی کی خاطر اپنی رپورٹ میںیہ بھی لکھ دیاکہ تحریکِ انصاف کا تحقیقاتی کمیشن کے قیام کامطالبہ کچھ ایساغلط بھی نہیںتھا لیکن ہمارے دِلی دردکوچیف جسٹس محترم ناصرالملک سمجھ سکے نہ جسٹس امیر ہانی مسلم اورنہ ہی جسٹس اعجاز افضل۔ ہم تویہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ اب وزیرِاعظم ہاؤس سونامیوںکا ہوگا لیکن ہمارے خواب چکناچور ہوگئے اسی لیے اب سارے سونامیے مِل کرتواترکے ساتھ یہ گا رہے ہیں

دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے
ہم بھری دنیا میں تنہا رہ گئے

تنہا توخیر ہم پہلے بھی تھے کہ پاکستان کی ساری ”دونمبر ” سیاسی جماعتوںسے ہماراکوئی تعلق ہی نہیںتھالیکن اب تویہ تنہائی کاٹ کھانے کودوڑتی ہے کیونکہ اب ”دھوم دھڑکے ”والاڈی جے بَٹ بھی پرایاہو گیا،ٹینٹ سروس والوںنے بھی بائیکاٹ کررکھا ہے اوردھرنے کے دنوںکے لاکھوںروپے کے بِل پکڑے جلوس نکال رہے ہیں۔ ہمارے ”لوٹے”بھی سب کھوٹے نکلے ۔یہ سب کیادھرا انہی لوٹوںکا ہے جنہوںنے ”ایویںخواہ مخوا”ہمارے کپتان صاحب کوگمراہ کرکے تحقیقاتی کمیشن بنوایا جس نے بیچ چوراہے بھانڈاپھوڑ دیا۔ اگربات تحقیقاتی کمیشن تک نہ پہنچتی توہم آج بھی منظم دھاندلی کاڈھنڈوراپیٹ رہے ہوتے اور نوازلیگ آج بھی ”نُکرے”لگی ہوتی لیکن اِس تحقیقاتی کمیشن نے توہمارے پلّے ”کَکھ” نہیںچھوڑا۔ اب ہمارے کپتان صاحب کے پاس کہنے کو کچھ باقی نہیںبچا۔ نہ پائے رفتن ،نہ جائے ماندن کے مصداق اگرتحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کوتسلیم نہیںکرتے تونہ صرف توہینِ عدالت کاخطرہ بلکہ ساری سیاسی جماعتیںاورمیڈیا ہمارے پیچھے لَٹھ لے کردَوڑ پڑے گا اورتسلیم کرنے کی صورت میںمیدانِ سیاست ہمارے لیے اُتناہی دورہو جائے گاجتنا مریخ۔ اب تحریکِ انصاف کی کورکمیٹی سَرجوڑ ے بیٹھی ہے، وکیلوںسے مشورے ہورہے ہیں۔حیرت مگریہ کہ مشورے بھی (جعلی ڈاکٹر )بابراعوان سے لیے جارہے ہیں۔ کیاتحریکِ انصاف میںاتناہی قحط الرجال ہے کہ اُسے کوئی ڈھنگ کاوکیل بھی میسر نہیں؟۔

ہمارے بھولے بھالے کپتان صاحب نے ”نامعقول” مشیروںکے مشورے پرحکومت پردباؤ ڈال کر تحقیقاتی کمیشن پہلے بنوایااوردھاندلی کے ناقابلِ تردید ثبوت اکٹھے کرنے کی باری بعدمیںآئی۔ اب تحریکِ انصاف کے بزرجمہروںنے ساراالزام شیخ رشید پر دھردیا۔سوال مگریہ کہ شیخ رشیدکا توتحریکِ انصاف سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔اُسے توجب کہیںجائے اماںنہ ملی توکپتان صاحب نے گلے لگالیا۔ جب وہ خاںصاحب کوغلط مشورے دے رہے تھے تویہ بزرجمہرکہاں سوئے ہوئے تھے؟۔ویسے تحریکِ انصاف کے شبلی فراز ایک ٹاک شومیں کہہ رہے تھے کہ منظم دھاندلی توہوئی اِس لیے قوم سے معافی کاسوال ہی پیدانہیں ہوتاالبتہ ہم تحقیقاتی کمیشن کے فیصلے کوتسلیم کرتے ہیں۔اُنکے اِس بیان سے ہمیںکچھ حوصلہ ملالیکن ہمارے چودھری سرورنے توکمال ہی کردیا۔ اُن کایہ بیان توسونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ عدالتوںمیں 90 فیصدمجرم عدم ثبوت کی بناپر بری ہوجاتے ہیں۔ اب ہم بھی نوازلیگیوں کوکہہ سکتے ہیں کہ ہم کل بھی سچّے تھے اورآج بھی سچّے ہیںالبتہ ہم اپناکیس صحیح طریقے سے پیش نہیں کر سکے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر