counter easy hit

شجاع کی شجاعت کو سلام

Shuja Hanzada

Shuja Hanzada

تحریر : مجید احمد جائی
اتوار کی صبح ایک اور دل خراش سانحہ ہوا۔زمین ایک بار پھر لرز گئی،آسمان دیکھتا رہا۔فضا پھر سے آلودہ ہوئی اور خون نے دھرتی ماںکے سینے کو رنگین کر دیا۔پھر سے ماتم،سہاگ اجڑے گئے،سہاگنیں لٹ گئیں،بچے یتیم ہوئے،بیٹوں کے سر سے شفیق باپ کے سائے اُٹھ گئے۔کسی کا بھائی چلا گیا تو کسی کا باپ،کسی کا شوہر تو بہنوئی،ہر طرف چیخ و پکار،آہیں،سسکیاں،آنسوئوں کی برسات،ماتم،اُف میرے اللہ!کیا ہو گیا ہے میرے وطن کو،کس کی نظر گھا گئی۔موت کا مزہ ہر ذی شے نے چکھنا ہے،رب رحمان نے اپنے پاک کلام میں بیان فرما دیا ۔اِس دنیا میں جو روح زمین پر آئی ہے اُسے واپس ضرور پلٹنا ہے۔مرنا تو ہر کسی نے ہے،ہر چیز نے فنا ہونا ہے رہے گا نام ”اللہ”کا۔کسی کی موت پر زندہ رہنے والوں کے سینے فخر سے تن جاتے ہیں اور کسی کی موت پر کوئی ماتم کناں نہیں ہوتا،کوئی آنسو بہانے والا نہیں ہوتا۔ایسی موت پر زندہ رہنے والے لعنت ہی تو بھیجتے ہیں جو دوسروں کی زندگی کا چراغ گل کر دیتے ہیں،افراتفری پھیلاتے ہیں،خوف وہراس کی فضا پیدا کرتے ہیں،دہشت پھیلاتے ہیں۔اپنے ناپاک مقاصدکو پانے کے لئے دوسروں کو راستے سے ہٹاتے ہیں،جو ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان دہشت گردی کی لیپٹ میں ہے۔نجانے دہشت گردی کا ناسور کہاں سے پیدا ہوگیا۔؟امن والی دھرتی پر چپے چپے پر خود کش دھماکے ہو رہے ہیں۔ہر طرف خوف وہراس پھیلا ہوا ہے۔چہرے اُداسی کا لبادے پھرتے ہیں۔بازار سنسان،مسجدیں ویران نظر آتی ہیں۔انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔سٹرکیں خون سے رنگین ہو رہی ہیں،فضا میں باردو کی بُو آتی ہے۔ٹارگٹ گلنگ،دھماکے،خود کش حملے،فائرنگ،تشدد ،لوریاں سناتی ہوائیں نفرتوں میں تبدیل ہو گئیں ہیں۔روز نئی صبح نیا زخم لئے وارد ہوتی ہے۔ابھی ہم بے نظیرکو نہیں بھولے تھے کہ سینے زخموں سے چھلنی چھلنی ہو گیا۔لیاقت علی خاں سے اب تک کتنی عظیم سے عظیم تر شخصیات سے محرو م ہو گئے ہیں۔ابھی ایک زخم مندمل ہوتا نہیں کہ دوسرا مل جاتا ہے۔

سانحہ پشاور کو بھولے نہیں تھے،کہ اٹک میں وزیر داخلہ،شجاع خانزادہ خود کش حملے میں شہید ہوگئے،ان کے ساتھ کئی اور جانیں قربان ہو گئیں۔دُنیا اچھے انسان کو جینے ہی کہاں دیتی ہے۔سیانے کہتے ہیں سچے اور کھرے انسان کے دشمن بھی زیادہ ہوتے ہیں۔بہادر،نڈر،دلیر شخص شجاع خانزادہ کو بھی دھمکیاں مل رہی تھیں۔مگر وہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح سینہ تانے کھڑے رہے ۔چٹان کی طرح انکے سامنے کھڑے ہو گئے۔ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے میدان سے راہ فرار اختیار نہیں کی اور دشمنوں نے اپنی اصیلت دیکھا دی۔بالاآخردشمن کالی گہری ضرب لگا ہی گیا۔ہم نے ایک اور بہادر،شیر دل ،دلیر شخص کو کھو دیا۔دشمن پھر شیخیاں مار رہا ہے اور ہم بے بس کی طرح صرف آنسو بہا رہے ہیں۔

انسان بھی کتنا پاگل وارد ہوا ہے۔ٹھوکر پہ ٹھوکر کھائے جاتا ہے مگر عبرت نہیں پکڑتا،عمل درآمد نہیں کرتا۔68سال یہی ٹھوکریں ہی تو کھا رہے ہیں،نہ غربت پہ کنٹرول ہوا،نہ دہشت گردی،کسی بھی سانحہ پر زیادہ سے زیادہ تین دن کا سوگ منا کر پھر سے خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔آنکھوں پر دولت کی سیاہ پٹی بندھ جاتی ہے۔۔پھر اپنا نظر آتا نہ پرایا۔کانوں میں روئی ٹھوس لیتے ہیںاور کسی مست گھوڑے کی طرح اپنی مستی میں ڈوڑے چلے جاتے ہیں۔ٹی ،وی چینلز چیخ چیخ کر خبریں دے رہے ہوتے ہیں،بریکنگ نیوزچل رہی ہوتی ہے،اینکر چیخ چیخ کر سوالات کر رہے ہوتے ہیں،لفظوں کے انبار لگ جاتے ہیں،خوفناک مناظر بار بار دکھائے جا رہے ہوتے ہیں،(اسی طرح دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں)ایک طرح سے یہ بھی دہشت گرد ہوئے۔ کیا یہ بیرون ملکوں میں پاکستان کا امیج خراب نہیں کر رہے؟یہ بھی ایک طرح کی سازش ہی تو ہے۔

میں حیرت زدہ ہوتا ہوں،ادھر کوئی سانحہ ہوا اُدھر سیاستدانوں،حکمرانوں کے بیانات جا ری ہو جا تے ہیں، دکھ کی اس گھڑی میں فلاں،فلاں ،فلاں نے گہرے دکھ و رنج کا اظہار کیا ہے۔ہم اس سانحے پر مذامت کرتے ہیں،ہم قوم سے شرمند ہ ہیں،دہشت گردوں کا آخری ٹھکانہ تباہ کرنے تک چین سے نہیں بیٹھے گے،ملک میں امن کی فضا قائم ضرو ر ہو گی،دہشت گردوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے ،وغیر ہ وغیرہ۔مگر افسو س کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان بیانات سے آگے کچھ بھی نہیں ہوتا،خالی ،کھوکھلے بیانات 68سالوں سے قوم سن رہی ہے۔آج تک عمل نہیں ہو سکا۔کیوں؟دشمن کہاں سے آتا ہے؟اس کی ماسٹر کہاں بیٹھا ہے؟

کیا ہماری سیکورٹی ناکام ہو چکی ہے؟ہمیشہ خود کش حملے کے بعد ہی ہماری آنکھیں کیوں کھلتی ہیں؟کیا خود کش بمباروں کے پا س اللہ دین کا چراغ ہے جو آسانی سے اپنے ہدف تک پہنچ جاتے ہیں؟کیا ہم کبوتر کی طرح بلی کو دیکھتے ہی آنکھیں بند کر لیتے ہیں؟یا پھر ہمیں ریموٹ کی طرح استعمال کر رہا ہے؟پاک دھرتی کب تک آخر کب تک خون سے رنگین ہو تی رہے گی؟ایسے بہت سے سوال ہر شخص کے لبوں پر گردش کرتے رہتے ہیں اور وہ ان سوالوں کے جواب چاہتے ہیں۔ہم شجاع خانزدا کی شجاعت کو سلام پیش کرتے ہیں،ہمیں فخر ہے کہ اس بہادر ،نڈر ،دلیر شخص نے دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور قوم کا سر بلند کر دیا،دھرتی ماں پر قربان ہو گئے۔دھرتی ماں کے اس سپوت کو سلوٹ پیش کرتے ہیں۔یہ وطن قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا ہے ،جب تک ہے جاں ہم اس وطن کی حفاظت کرتے رہے،گے۔!

Abdul Majeed wafa

Abdul Majeed wafa

تحریر : مجید احمد جائی
0301-7472712