counter easy hit

جعلی مقابلے اور پولیس ٹریننگ

بچپن میں ایسی انڈین فلمیں دیکھی تھیں جن میں ہیرو کے بہن بھائی قتل ہو جاتے ہیں اور عدالت سے انصاف نہیں ملتا۔ اس کے بعد ہیرو خود ان مجرموں کو قتل کرنے لگتا ہے۔ آپ کو ہمارے ہاں ایسے حقیقی کردار بھی ملیں گے۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو قانون کے رکھوالے ہونے کے باوجود عدالتی انصاف پر یقین نہیں رکھتے۔ راؤ انوار کا نام اب کم و بیش سب جانتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہیں نوجوان نقیب اللہ کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان کے علاوہ بھی پاکستان پولیس میں آپ کو ایسے متعدد نام سننے کو ملیں گے جو اس طرح کے مقابلوں کو نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ انہیں سرانجام دینے میں بھی ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ علاقے میں ان کا بہت رعب و دبدبہ ہوتا ہے۔

ایسا ہی ایک کردار ذوالفقار چیمہ ہیں، جو پولیس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ وہ پولیس میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کو تربیت بھی دیتے رہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب “دو ٹوک” میں انہوں نے جعلی مقابلوں کا جواز پیش کیا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ان سے پوچھا گیا “آپ نے گوجرانوالا میں امن بحال کیا مگر یہ درست ہے کہ وہاں بھی کچھ مجرم پولیس کے ہاتھوں مارے گئے۔ آپ ان کا قانونی جواز کس طرح پیش کریں گے؟”

ذوالفقار چیمہ اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں “ٹرائیل وہ پراسس ہے جس میں ریاست۔ ۔ ۔ ۔ ملزم کو اطلاع دیتی ہے کہ فلاں تاریخ پہ آکر اپنی صفائی میں دلائل یا شہادتیں دے کر اپنی بے گناہی ثابت کر لو۔ پچانوے فیصد ملزمان یہ حق استعمال کرتے ہیں۔ مگر کچھ ملزمان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب انہیں بلاوے کا سمن بھیجتی ہے تو وہ عدالتی اہلکار کو گالیاں دے کر بھگا دیتے ہیں۔ سمن کے بعد عدالت کے حکم پر پولیس وارنٹ لے کر جاتی ہے تو ملزم کی طرف سے پولیس پر گولیوں کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، جس کا مطلب ہے جاؤ میں نہیں مانتا تمہاری عدالت کو۔ ۔ ۔ کرلو جو کرنا ہے۔ میں جو چاہوں گا کروں گا، ہمت ہے تو روک لو مجھے۔ عدالت میں ٹرائیل کا مطلب وہ بنیادی حق ہے جو ریاست ملزم کو اپنا دفاع کرنے کےلیے دیتی ہے، لیکن جو ملزمان یہ حق استعمال ہی نہ کرنا چاہیں، جو عدالت کو یا قانون کو تسلیم ہی نہ کریں اور ریاست کے باغی ہوجائیں اور ان کا ٹرائیل ممکن ہی نہ ہو تو ان کے بارے میں کیا حکمت عملی اختیار کی جائے؟ قانونی بات یہ ہے کہ عدالت کو تسلیم نہ کرنے والا ٹرائیل کے حق سے محروم ہو جاتا ہے”۔

ذوالفقار چیمہ نے اپنے دلائل کو جواز فراہم کرنے کے لیے کچھ انتہائی درد ناک اور دل سوز واقعات بیان کیے ہیں۔ ایک واقعے میں ڈاکو باپ بیٹا دونوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ ملزم گرفتار ہوتے ہیں، مگر وہ خاندان کو دھمکی آمیز خط بھیجتے ہیں کہ ان کے خلاف گواہی نہ دی جائے، جس کی وجہ سے ملزم کی شناخت نہیں ہو سکتی اور ملزم رہا ہو جاتے ہیں۔ مگر بقول ان کے اللہ تعالیٰ اس بیوہ ماں کی فریاد سن لیتا ہے اور رات کو پولیس آفیسر میٹنگ کر کے ایک فیصلہ کرتے ہیں۔ جس وقت ان مجرموں کو رہا ہونا ہوتا ہے، اس وقت پولیس رات کو علاقے کو کلیئر کرا دیتی ہے اور تینوں ڈاکو جیسے ہی جیل سے قدم باہر رکھتے ہیں، انہیں اٹھا کر گاڑی میں پھینکا جاتا ہے اور دوسرے دن اخبار میں خبر آتی ہے کہ تین ڈاکو جیل سے فرار ہونے کی کوشش میں مارے گئے۔

وہ دوسرا واقعہ بیان کرتے ہیں جس میں ڈاکو ایک شہری کے گھر میں گھس کر زیورات لوٹتے ہیں اور اس کی بیٹی کا ریپ کرتے ہیں۔ کچھ ماہ کے بعد وہ گروہ پکڑا جاتا ہے اور اعتراف جرم بھی کر لیتا ہے، مگر اس شخص کے خاندان والے گواہی کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ کمانڈر اپنے ساتھیوں سے پوچھتا ہے کہ اگر انہیں جیل بھیج دیں تو کیا انہیں سزا ملے گی؟ سب مل کر جواب دیتے ہیں نہیں۔ ان کے مطابق رزقِ حلال کھانے والے سارے پولیس والے مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ ایسے ڈاکوؤں اور لٹیروں کی سزا موت ہے۔ اور پھر دوسرے دن اخبار میں خبر آتی ہے کہ ڈاکو مقابلے میں مارے گئے۔

اسی طر ح وہ تیسرا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بچے کا اغوا اور قتل ہوجاتا ہے۔ اس میں بھی اغوا کرنے والے گرفتار کئے جاتے ہیں اور ایک جعلی مقابلے میں مارے جاتے ہیں، اور ایک ماں کو انصاف مل جاتا ہے۔

ذوالفقار چیمہ آگے لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک ٹریننگ اکیڈمی میں نوجوان افسران کو یہی واقعات سنائے اور ان سے پوچھا کہ اگر فواد (اوپر بیان کیے گئے واقعے میں قتل ہونے والا لڑکا) آپ کا بھائی ہوتا اور میر صاحب کی بیٹی (جس لڑکی کا ریپ کیا گیا) آپ کی بہن ہوتی اور وہ معصوم علی آپ کا بیٹا یا بھائی ہوتا اور آپ سے پوچھا جاتا ان درندوں کو فوری سزا ملے یا ٹرائیل کے لیے ان کا چالان بھیجا جائے، دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں اگر آپ میں سے کوئی ایک بھی ہاتھ کھڑا کر کے کہہ دے کہ انہیں فوری سزا نہ ملے بلکہ عدالت میں ان کا ٹرائیل ہو تو میں آپ کے نقطہ نظر سے اتفاق کر لوں گا میں کئی منٹ انتظار کرتا رہا، ہال میں ایک بھی ہاتھ کھڑا نہ ہوا۔

ذوالفقار چیمہ کی باتوں سے اتفاق کر لیا جائے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ قانون کے رکھوالے عدالتوں میں انصاف نہ ملنے کو جواز بنا کر قانون توڑنا شروع کر دیں تو پھر عام آدمی ان عدالتوں پر یقین کیوں کر کرے؟ اگر ہر انسان اسی طرح سوچے تو پھر وہ پولیس آفیسر کا انتظار کیوں کرے؟ کیوں نہ اپنے بھائی کے قاتل کو خود مار دے؟ اس پر تو کوئی مقدمہ بھی نہیں چلنا چاہئیے کیونکہ ایسے “درندوں” کو مارنا جرم نہیں! مگر کیا پتا یہ ڈاکو اور “درندے” تبھی بنے ہوں جب ان کا کوئی اپنا ایسے ہی قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں جعلی مقابلے میں مارا گیا ہو۔

چیمہ صاحب! اگر آپ نے مجرم گرفتار کر لیے مگر ان کا ٹرائیل نہیں ہونے دیا تو سوچیں کہ ان مجرموں کے بچوں اور خاندان کے ذہنوں پر کیا اثر پڑا ہو گا۔ کیا وہ جانتے تھے کہ ان کے بھائی، بچے یا باپ مجرم تھے، اس لیے مارے گئے؟ کیا ان پر جرم ثابت ہوگیا تھا؟ شاید وہ آخر تک یہی سوچتے ہوں کہ ان کے بھائی یا باپ کو بے گناہ مارا گیا۔ ہمارے سامنے ایسے بہت سے واقعات ہیں جہاں جعلی مقابلوں میں مارے جانے والوں کے خاندان احتجاج کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ یہ عام سننے میں آتا ہے کہ تشدد کے سبب اعتراف جرم کرنے والے بھی جعلی پولیس مقابلوں میں مار دیے جاتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پولیس کی وردی آپ کو اختیار دیتی ہے کہ آپ قانون توڑیں؟ ہو سکتا ہے وہ بے گناہ ہوں۔ اس صورت میں ان کے قتل کا مقدمہ کس پر چلنا چاہئیے؟ اگر دوران تربیت ایسے واقعات سنا کر جعلی مقابلوں کا جواز پیش کرنا ہے اور افسران میں اس سوچ کا بیج بونا ہے کہ عدالتیں اور قانون ناقص ہیں، تو پھر آپ پولیس کی ودری ہی کیوں پہنتے ہیں؟

حال ہی میں سندھ میں “ہاف فرائی” اور “فل فرائی” کے لیے مشہور ایک افسر نے بھی اپنے انٹرویو میں وہی باتیں دہرائیں جو ذوالفقار چیمہ نے اپنی کتاب میں لکھی ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جعلی مقابلوں کا جواز پیش کرنے والے اپنی سوچ اگلی نسلوں کو منتقل کر چکے ہیں۔ اگر آپ کے جھوٹے مقابلوں کے پیچھے دردناک کہانیاں ہیں تو آپ کو ان ڈاکوؤں کے ڈاکو بننے کے پیچھے پولیس کے مظالم اور ناانصافیوں کی کہانیاں بھی ملیں گی۔ کیا مہذب ملکوں میں امن ایسے قائم کیا جاتا ہے؟

کچھ عرصہ قبل نقیب اللہ محسود اور ایک نوجوان انتظار احمد مبینہ طور پر پولیس کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ انتظار احمد ماں باپ کا اکلوتا بچہ تھا جس کا مبینہ “جرم” ایک پولیس آفیسر کی بھتیجی سے دوستی تھا۔ اگر وہ زندہ ہوتے اور ان کا ٹرائیل ہوتا تو غالب امکان تھا کہ وہ بچ جاتے۔ لوگوں کو “لاپتہ” کرنے کے پیچھے بھی اسی قسم کی سوچ کارفرما ہے مگر اس عمل سے مزید افراد کو باغی بنا دیا جاتا۔

جرم کو جرم سے نہیں روکا جا سکتا اور ظلم کو ظلم سے نہیں روکا جا سکتا۔ اگر پولیس افسران ہی نے جعلی مقابلوں کا جواز پیش کرنا ہے تو پھر قانون کی یہ کتابیں جلا ڈالیں۔