counter easy hit

کرپشن کے خلاف لفظی مہم جوئی

Corruption

Corruption

تحریر : شبیر احمد لہڑی
کرپشن کے خلاف مہم زور شور سے جاری ہے، اس سلسلے میںروک تھام پرمامور ادارہ کی جانب سے لاکھوں روپوں کے بینرز، پمفلٹ اور اسٹیکر شائع ہوئے ،گزرے ہوئے مخصوص دن کے موقع پربڑی بڑی تقریبات منعقدہوئی ،جذباتی تقاریر اور بلندوبانگ دعوئے کئے گئے ،بلاشبہہ کرپشن ایک ناسورہے جو ترقی کے عمل کودیمک کی طرح چاٹ لیتاہے ،اورہمارے ملک کاسب سے سنگین مسئلہ اس وقت یہی موذی مرض ہے جس کے سبب ہم دن بدن معاشی بدحالی اورترقی سے تنزلی کی جانب بڑھ رہے ہیں،اس کے خلاف بحیثیت قوم اجتماعی طورپرہروقت ،ہرموقع پرجدوجہدکرنی ہوگی محض ایک مخصوص دن پراخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع کرنے یا مہنگے ہوٹلوں میں مہنگی تقریبات منعقدکرنے سے ہم بری الذمہ نہیں ہوسکتے اورنہ ہی مذکورہ اقدامات سے ہماری جان اس عفریت سے چھوٹ جائے گی ۔کرپشن مجموعی طورپرپورے ملک کامسئلہ ہے ،مگرقدرے پسماندہ صوبہ بلوچستان میں اس کی جڑیں کچھ زیادہ ہی مضبوط ہیں ،اس حوالے سے دیگرشعبوں پربحث کرکے وقت ضائع کرنے کے بجائے صوبے کے دیہی علاقوں کی حالت زار،وہاں کے مکینوں کی بدحالی کاجائزہ ہی کافی ہے کہ کئی ادوارگزرجانے کے باوجودابھی تک وہاں منتخب عوامی نمائندوں کی جانب سے کوئی اجتماعی ترقیاتی منصوبہ نظرنہیں آتا،حالانکہ ہربجٹ میں منتخب ارکان اسمبلی کے لیئے مختلف مدمیںفنڈزمختص کئے جاتے ہیں ،توپھران کانتیجہ نظرکیوں نہیں آتا؟

آج بلوچستان کے دورافتاددیہی علاقوں کی حالت زار، پسماندگی اوروہاں بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی ملک کے دیگرصوبوں کے نظراندازعلاقوں سے زیادہ قابل رحم ہے ،اب اسی صورتحال پریہاں کے عوامی حلقے حیران ہیں کہ یہ سلسلہ کوئی اکّادکّاواقعہ نہیںاورنہ ہی یہ کوئی پوشیدہ معاملہ ہے بلکہ روزاول سے اس صوبے میں جاری ہے توپھرکرپشن کے روک تھام پرمامورمتعلقہ ادارے اس جانب توجہ دینے یاکاروائی کرنے سے گریزاں کیوں ہیں؟ یقینا اس میں ان کی کوئی پالیسی یاحکمت عملی ہوگی جوآج تک کسی عوامی نمائندہ ،بیوروکریٹ یا کسی بوگس ٹھیکیدارکوقابل ذکرکاروائی کے تحت سزاء دی گئی ہو۔

اس حوالے سے مذکورہ پہلوپرہونے والے کرپشن کااندازبھی انوکھاہے ، منتخب نمائندوں کی جانب سے عوام کاجائزحق اوران کے ووٹوں کی بدولت حاصل ہونے والاقومی خزانہ اسی عوام کوبلیک میلنگ اورانہیں لالچ دینے کے لیئے احسان جتلانے کے اندازمیں ان پرغیرقانونی ومنفی طریقوں سے خرچ کیاجاتاہے جواس مہذ ب اورجمہوری دورمیں ایک المیہ سے کم نہیں۔بدقسمتی سے عوام کی لاعلمی اورشعورکے فقدان سے فائدہ اٹھانے والے اگرسیاسی رشوت کے طورپرقومی خزانے سے دوچنداسکیمات کے اعلان یاانفرادی مفادات کی تکمیل کرتے ہیں توسادہ لوح عوام جنہیںدانستہ ذہنی طورپراس قدراحساس کمتری میں مبتلا کی گئی ہے

وہ خوشی اورشادمانی سے نہال ہوکردیوانہ واراپنے ان ”محسنوں”پرقر بان ہونے کوتیارنظرآجاتی ہیں ،جنہوںنے کمال سخاوت کامظاہرہ کرتے ہوئے قومی خزانے سے اربوں ہتھیانے کے بعدانہیں چندلاکھ روپے کے ترقیاتی منصوبے پرٹرخادیا۔اگربالفرض بلوچستان کے ستم رسیدہ لوگ برسراقتدارطبقہ یاحکومتی اداروں کی اس تسلی پراطمینان کرلیں کہ یہاں کرپشن نہیں ہورہی یااس کاسدباب کیاگیاہے توپھریہ سوال تشنہ تکمیل ہی رہے گاکہ ماضی سے لیکرموجودہ منتخب ارکان اسمبلی کے مالی استحکام کی صورتحال اورسرمایہ کی کثرت ہے ،یہ کہاں سے عنایت ہوئی؟اگریہ اس ماہانہ تنخواہ کی برکت ہے جوبمشکل لاکھوں میں ہوگی توپھرسالہاسال سے مذکورہ تناسب کے برابر تنخواہ لینے والے ایک لیکچراربے چارہ ابھی تک برکت کے اس رازسے کیوں محروم ہے؟ بلوچستان میں مذکورہ ناانصافی پرمبنی عمل صرف عوام کی بدحالی کاسبب نہیں بن رہابلکہ اگرتخت اقتدار پربراجمان طبقہ خلوص اورایمانداری سے اس پہلوپرغور کرنے کی زحمت کریں توصوبے میں پھیلی بے چینی اوربغاوت کی محرک بھی یہی بدبخت کرپشن ہے

جس کی وجہ سے لوگوں کومحروم رکھ کران کے حقوق اقتدارمیں آنے والامخصوص طبقہ ہڑپ کرتاگیا اورانہیں محکومی کاتاثردے کرزیردست کرنے کی کوشش کی گئی ،نتیجتاًاحساس محرومی نے مایوس لوگوں کوبغاوت پرمجبورکردیااورپھرستم بالائے ستم یہ کہ مقتدرقوتیں الزام غیروںپرلگاکرحقیقی عوامل سے اب بھی چشم پوشی کی روایت پرعمل پیراہیں،ہوناتویہ چاہئے تھاکہ مایوسی کے ہاتھوں مجبورآوازوں کوطاقت کے بل بوتے پردبانے کے بجائے انہیں اس راہ پرلانے پربرانگیختہ کرنے والے عمل میں ملوث افرادکے گریبانوں پرہاتھ ڈالے جاتے جومقتدرہ قوتوں کی آشیربادسے اقتدارپرپہنچ کرلوگوں کے حقوق سلب کرگئے اورپھردوبارہ انہی محروموں کے نام کانعرہ لگاکربااختیارقوتوں کوبے وقوف بناکراقتدارکے حصول میں مگن ہوتے رہے۔

صوبے کاسالانہ بجٹ کئی اربوںمیں ہوتاہے ،اگریہاں کی آبای کے اعتبارسے اس کاموازنہ کیاجائیں توکسی حدتک مناسب اورکافی محسوس ہوتاہے لیکن کاش کہ یہ محض کاغذی کاروائیوں تک محدودنہ رکھاجاتاتوکسی حدتک یہاں کی پسماندگی دورہوسکتی اورعوام کودرپیش مسائل کاازالہ ہوجاتا،جبکہ مرکزسے ملنے والے خصوصی فنڈزاورمیگاپروجیکٹس کے نام پرملنے والی رقوم اس کے علاوہ ہیں ،یہی صورتحال ممبران قومی اسمبلی اورسینیٹرزکے فنڈزکی ہوتی ہے ۔آج ہم وسطی بلوچستان کے دیہی علاقوں بلخصو ص بلوچ بیلٹ کے وسیع اضلاع کے دورافتادعلاقوں کاجائزہ لیں توایک بھیانک صورتحال سامنے آجائے گی ،مذکورہ علاقوں کے باسی اس جدیددورمیں بھی زندگی کی تمام تربنیادی سہولیات سے محروم ایک اذیت ناک زندگی گزاررہے ہیں آب نوشی ،صحت ،تعلیم ،بجلی سمیت آمدورفت کی سہولیات ناپیدہیں لوگ اپنے روزمرہ ضروریات کے لیئے آٹھ سے دس کلومیٹرکی مسافت سے پانی لانے پرمجبورہیں

سرکاری اسکولز،ہسپتال اوردیگرادارے یاتوسرے سے موجودنہیں اگرکہیں سرکارمہربان ہوئی ہے توسیاسی رہنمائوں کی مہربانی اورمداخلت سے عملہ ہی غائب ہے ،مخض عمار ت کے نام پرکوئی کھنڈرماتم کناں نظرآتاہے ،ان علاقوں سے منتخب ہونے والے ممبران صوبائی وقومی اسمبلی کوہرسال ان کے حلقوں کے نام پر مختص فنڈزباقاعدگی سے مل بھی جاتے ہیںاورایک منظم طریقے سے بیوروکریسی کی باہمی ملی بھگت سے آسانی سے ٹھکانے لگایاجاتاہے ،مگرمجال کہ کوئی بازپرس یاانکوائری ہوئی ہو۔گزشتہ دوادوارمیں توصوبائی حکومت کے وارے نیارے ہوگئے ،ایک بھاری بھرکم بجٹ کے علاوہ وفاق سے مختلف مدمیں اربوں روپے اضافی دی گئیں،ارکان صوبائی اسمبلی کی موجیں ہوئی ، انہیں مختلف شعبوںکے نام پرکروڑوں ریلیزکئے گئے،اورپھرانہیں ہضم کرنے کابھی آسان طریقہ اختیارکیاگیا،

کسی بھی اسکیم کے لیئے نہ ٹینڈرکی زحمت اورنہ ہی کسی باقاعدہ رجسٹرڈٹھیکیدارکوتکلیف دی گئی ،کہیں شاہی فرمان کی طرح مخصوص منظورنظرافرادکوترقیاتی منْصوبوں کے مدمیں نقدنوازاگیاتوکہیں ایک ہی فردواحدکومختلف شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر ٹھیکے دیکرطے شدہ پلان کے تحت پیسے واپس ذاتی اکائونٹوں میں منتقل کئے گئے ،مزے کی بات تویہ تھی کہ کئی علاقوںمیں وہاں کاکوئی ایکسیئن درجے کاسرکاری ملازم بیک وقت بیورکریسی ،ممبراسمبلی کانمائندہ ،سیاسی سیکریٹری اورمنصوبوں پرکام کرنے والاٹھیکیداربن کرفرائض سرانجام دے رہاہوتاتھا۔

لیکن احسان صوبے کے عوام پرکہ انہیں ان کی اوقات سے زیادہ نوازاجارہاہے! مذکورہ صورتحال میں ضرورت اس امرکی ہے کہ اگرحکومت اورمامورادارے واقعی کرپشن کے خاتمے کے لیئے مخلص اورسنجیدہ ہیں توانہیں مذکورہ بالارجحان کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی ،زمہ داران کے خلاف حقیقی اورعملی معنوںمیں اقدامات کرنے ہوںگے ،سالانہ کروڑں روپے کے فندزعوام کے فلاح وبہبودکے نام پرمنتخب نمائندوں کومل رہی ہیں ان کے خرچ کرنے کے طریقے کاجائزہ لیناہوگا،وگرنہ کرپشن کے خاتمے کے لیئے صرف ایک دن مخصوص کرکے مہنگی تقریبات کاانعقاد،لاکھوں روپے تشہیرکے مدمیں پھونکنے کے زریعے پہلے سے محروم طبقہ کوکرپشن سے بچنے کی ترغیب دینے کایہ عمل درحقیقت ان کی جذبات کے ساتھ مذاق اورکرپشن میں لتھڑے طبقات کوتحفظ دینے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔

Shabir Ahmad Kotla

Shabir Ahmad Kotla

تحریر : شبیر احمد لہڑی
shabirlehri@gmail.com
03343631637