counter easy hit

بہارِ پاکستان

Anwar Syham

Anwar Syham

تحریر: سیہام انور (الریاض)
وعدہ وفا نہ کریں تو ہم کیا کریں؟ پاکستان سے دور رہنے والے پاکستانی جو بہت سی مجبوریوں کے تحت اپنے وطن سے دور رہنے پر مجبو ر ہیں اپنے وطن کی مٹی سے وفا کے وعدے نبھاتے رہتے ہیں جیسا کہ اپنے وطن سے محبت کے وعدے، وطن کے لوگوں کی خدمت کے وعدے ، وطن کی مٹی کا قرض اتارنے کے وعدے مگر بہت سے مجبوریاں اور مسائل انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ مستقل بنیادوں پر پاکستان واپس جاسکیں کیونکہ اگر وہ سب چھوڑ چھاڑ کر پاکستان کا رخ کرتے ہیں تو وہاں جا کر انہیں ایسی نوکری نہیں مل سکتی جو ان کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو اور پھر وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اوردوسروں سے مددکے طلب گار بن جائیں۔

ان تمام مسائل کے باوجود پاکستانیوں کے دل اپنے وطن کے لیے دھڑکتے ہیں ، پردیس میں کوئی پاکستانی مل جائے ،پاکستان سے کسی کا ٹیلی فون آجائے، کسی کی اڑتی ہوئی خبر آئے ،کہیں ملی نغمے گونجتے ہوں ، گھروں کی بیٹھکوں میں سیاسی پارٹیوں پر بحث و مباحثہ چل رہا ہو، ملک کی موجودہ صورت حال پرگفت و شنید ہو، پاکستانی سفارت خانے یا کسی اور جگہ پاکستانی کمیونٹی کی کسی تقریب میں شرکت کرنی ہو، ہم جیسے محب الوطن پاکستانی بھرپور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پیش پیش رہتے ہیں ، وطن سے محبت کا یہ حال ہے کہ ٹیلی ویژن پر دکھائے جا نے والے افسوس ناک واقعات اور خبروں پر ہماری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور ہمارے احساسات و جذبات نئے سرے سے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔

سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں موجود پاکستانی سفارت خانے میں اکثر و بیشترپاکستانی کمیونٹی مختلف تقریبات کا اہتمام کرتی رہتی ہے جن میں پاکستانی ثقافت کی بھرپور عکاسی کی جاتی ہے ، پاکستان کے صوبوں کے رہن سہن اور ثقافت کو مختلف انداز میں دکھایا جاتا ہے ،کبھی پنجاب کا حسن جلوہ گر ہوتا ہے تو کبھی صوبہ سندھ کی ثقافت رونقوں میں اضافہ کرتی نظر آتی ہے اسی طرح کبھی صوبہ بلوچستان تو کبھی صوبہ خیبر پختونخواہ کی ثقافت اور علاقائی رقص پیش کیے جاتے ہیں، ایسی محفلوں میں ریاض کی مخیر شخصیات کے علاوہ عام افراد بھی بہت ذوق وشوق سے شرکت کرتے ہیں ، اسی طرح کی ایک تقریب کا اہتمام پاکستانی سفارت خانے میں ’’نیڈز اینڈ سٹائل‘‘ کی جانب سے کیا گیا

جس کی چیئر پر سن ساجدہ چوہدری نے بہترین پروگرام پیش کر کے مہمانوں کے دل جیت لیے، مہمانان گرامی میں قائم مقام سفیرِ پاکستان خیام اکبر صاحب، بہت سی مخیر حضرات، شاعر حضرات اور بہت سی تعداد میں پاکستانی شریک تھے،’’ بہارِ پاکستان‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جانے والا پروگرام اپنے اندر بہت سی ورائٹی لیے ہوئے تھا،پروگرام کا آغاز ربِ ذوالجلال کے بابرکت نام سے کیا گیا اس کے بعد بچوں نے رنگ برنگے ملبوسات زیبِ تن کر کے ٹیبلوز پیش کیے، مختلف انداز میں پاکستا ن سے محبت کا اظہار کیا گیا، شعراء نے اپنی شاعری کے ذریعے اورنوجوان گلوکاروں نے ملی نغموں سے محفل کو چار چاند لگائے ،کئی خاکے پیش کیے گئے

جن میں دکھایا گیا کہ کیسے ملک دشمن عناصر پاکستان میں امن و سکون کا خاتمہ کررہے ہیں ،کیسے ہنستے بستے گھر موت کی نظر ہوجاتے ہیں اور کیسے پاکستان کی ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہو پارہا، تعلیم کا حصول جو ہر مرد عورت پر فرض ہے مگر پاکستان کیوں اس سے محروم ہے ، اس کے علاوہ مختلف صوبوں کی ثقافت کو بہترین انداز میں پیش کیاگیا جس نے ناظرین کے دل جیت لیے، پروگرام کا اختتام قومی ترانے پر ہوا جس میں تمام حاضرین نے ایک دوسرے کی آواز سے آواز ملا کر حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر قومی ترانے پڑھا۔

سعودی عرب میں ایسے بہت سے خاندان آباد ہیں جن کے بچے یہیں پیدا ہوئے ، تعلیم حاصل کی اور وہ خاندان یہیں کے ہوکر رہ گئے ، وہ بچے اپنے اصل وطن پاکستان ، وہاں کی ثقافت ،ماحول سے کوسوں دور ہیں ، وہ نہیں جانتے کہ ان کا وطن پاکستان کتنا خوبصورت ہے، وہا ں کے لوگ کتنے پر خلوص اور زندہ دل ہیں، وہ نہیں جانتے کہ پاکستان کا ہر ایک صوبہ قدرتی وسائل سے کس قدر مالا مال ہے، ایسی تقریبات کا انعقاد نہ صرف بڑوں کے لیے بلکہ نوجوان نسل کے لیے بہت فائدہ مند ہے ، ایسی محفلوں میں ہمیں ایک دوسرے سے ملاقات کا موقع ملتا ہے

اورہم جب اپنے ہم وطن پاکستانیوں سے ملتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کن کن اہم عہدوں پر فائز ہیں اور ان کی اس وطن یعنی سعودی عرب میں بھی ایک پہچان ہے تو دل فخر سے بلند ہوجاتا ہے ، اس طرح کی محفلوں سے نہ صرف اپنی زبان اردو کو فروغ ملتا ہے بلکہ نوجوانوں کو بھی اپنے وطن کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے، ان میں حب الوطنی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ وہ یہاں سے اپنے وطن پاکستان کی کیسے خدمت کرسکتے ہیں ، ایسا وطن جو ہمارے آباؤ اجداد کے خون سے حاصل کیا گیا مگر آج دہشت گردی اور بہت سے ملک دشمن عناصر کی بدولت خون کے آنسو رو رہا ہے ۔

تحریر: سیہام انور (الریاض)