counter easy hit

بجٹ کیا رنگ لائے گا؟

Budget

Budget

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ

اچھا بجٹ وہ ہوتاہے جس میں آمدن اور اخراجات میں توازن ہوں۔عوام کی معاشی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے آپ کو اپنی آمدن اور اخراجات کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی عوام کی موجودہ معاشی حالت ایسی نہیں ہے کہ حکومت ا ±ن پر ٹیکس لگا کر اپنی آمدن بڑھائے اچھا بجٹ ان حالات میں یہی ہوتا کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرتی مگر ایسا اس بجٹ میں نظر نہیں آیا ۔مگر حکومتی اخراجات کا تخمینہ 31 کھرب 51 ارب روپے ہے۔اس اخراجات میں سے تقریباً ایک رکن قومی اسمبلی پرایک ارب روپے سالانہ خرچ کیا جائے گا۔کیونکہ اسمبلی کے ارکان کو بہت سی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ اسمبلی میں کی ہوئی بات پر ان کے خلاف عدالتی چارہ جوئی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس کی اسمبلی کی بات پر مقدمہ ہوسکتا ہے۔

ارکان اسمبلی کو اپنے خیالات کے اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ ہر رکن کو مقررہ تنخواہ اور دیگر الاو ¿نس ملتے ہیں۔ اسمبلی کی کارروائی کے دوران ارکان کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر گرفتار کرنا ضروری ہو تو اسپیکر سے اجازت لینا ضروری ہے۔اس طرح سالانہ صرف قومی اسمبلی کے ممبران پر3کھرب 42ارب خرچ کیاجاتے ہیں۔ اور وفاقی سیکرٹریوں کے علاوہ دیگر ملازمین پر 10کھرب روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔اسی حساب سے صرف وفاق کے ممبران اور سٹاف ” یعنی کہ 5ہزار کے قریب افراد“پر تقریباً14 کھرب روپے سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں۔ جوکہ پاکستان کے دفاعی اخراجات سے بھی کہی زیادہ ہے۔

اس حوالے سے ایک جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ قومی اسمبلی پاکستان کی پارلیمان کا ایوان زیریں ہے۔ جس کی صدارت اسپیکر کرتا ہے جو صدر اور ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین کی عدم موجودگی میں ملک کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دیتا ہے۔ عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کا سربراہ عموماً وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے جو قائد ایوان بھی ہوتا ہے۔آئین پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں سے 272 نشستوں پر اراکین براہ راست انتخاب کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں مذہبی اقلیتوں کے لیے 10 اور خواتین کے لیے 60 نشستیں بھی مخصوص ہیں، جنہیں 5 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کے درمیان نمائندگی کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔

National Assembly

National Assembly

قومی اسمبلی میں خواتین کی موجودہ تعداد 72 ہے۔قومی اسمبلی کے اراکین کثیر الجماعتی انتخابات کے ذریعے عوام کی جانب سے منتخب کیے جاتے ہیں جو پانچ سال میں منعقد ہوتے ہیں۔ آئین کے تحت قومی اسمبلی کی نشست کے لیے مقابلہ کرنے والے امیدواروں کا پاکستانی شہری ہونا 18 سال سے زائد العمر ہونا ضروری ہے۔اگر بات کی جائے بجٹ کے حوالے سے ہونے والی تقریر کی تو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز پاکستان کا مالی سال 2015 تا 2016 کا بجٹ موجودہ حکومت کا تیسرابجٹ پیش کر دیا ہے، جس کا مجموعی حجم 43 کھرب 13 ارب ہے جو رواں مالی سال کے مقابلے میں نو فیصد زائد ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاع کے لیے سات کھرب 80 ارب روپے مختص کیے ہیں جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 11 فیصد کا اضافہ ہے۔رواں مالی سال کے دوران دفاعی اخراجات کی مد میں سات کھرب روپے مختص کیے گئے تھے۔وفاقی ترقیاتی بجٹ میں 29 فیصد اضافہ کر کے سات کھرب روپے کر دیا گیا ہے۔مجموعی اخراجات کا تخمینہ 40 کھرب 89 ارب روپے لگایا ہے جبکہ حکومتی اخراجات کا تخمینہ 31 کھرب 51 ارب روپے ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ’سنہ 2014 میں پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی

لیکن اب معیشت کی ڈوبتی کشتی سنبھل گئی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران خسارہ ملکی خام پیداوار کا پانچ فیصد تک رہنے کی توقع ہے، جبکہ آئندہ مالی سال میں بجٹ کے خسارے کو مزید کم کر کے 4.3 فیصد تک لایا جائے گا۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں ساڑھے سات فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے، اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کے میڈیکل الاو ¿نس میں بھی 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن سے متاثر ہونے والے افراد کی واپسی اور بحالی کے لیے جامع منصوبہ بنایا گیا ہے اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اس مد میں ایک کھرب 16 ارب مختص کیے گئے ہیں۔ جس میں سے 80 ارب روپے خصوصی ٹیکس کے ذریعے اکٹھے کیے جائیں گے۔

Tax

Tax

50 کروڑ سالانہ منافع سے زیادہ کمانے والی کمپنیاں دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے اپنی آمدن کا تین فیصد ٹیکس دیں گی جو صرف ایک مرتبہ دینا ہو گا۔توانائی کے منصوبوں کے لیے دو کھرب 48 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ دسمبر 2017 تک ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کر دی جائے۔ایل این جی سے 3800 میگا واٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔ ترقیاتی بجٹ میں پانی کے ذخائر کے منصوبوں کے لیے 31 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔دیہی کے علاقوں کے طلبہ کو وظائف دینے کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔

پانی وبجلی کے منصوبوں کے لیے آئندہ مالی سال میں ایک کھرب 42 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے۔ یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے 71 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ریلوے کے لیے 78 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور 170 نئے انجن خریدے جائیں گے۔ بجٹ میں ریلوے سٹیشنوں کو بہتر بنانے کے لیے فنڈ مختص کیے گئے ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ چندماہ قبل امریکی صدر بارک اوباما نے مالی سال 2016ءکیلئے 40کھرب ڈالر کے خسارے کا بجٹ تجویز کیاتھا،

لیکن بجٹ میں عوام کی توقع اور عوام کو تمام بنیادی سہولیات کو مد نظررکھاگیا۔ جس سے عوام خوش رہے۔ مسلم لیگ نواز کو پانچ سال پورے کرنے کیلئے اپنے وزیروں ،مشیروں کے اخراجات اور موجودصورتحال کے پیش نظر اپنے فیصلوں اور بجٹ پر نظرثانی کرنی پڑے گی ۔ اس بجٹ سے ملکی معیشت کی ڈوبتی کشتی نہیںسنبھلی بلکہ چندلوگوں کو خوش کیا گیاہے۔ جس سے عوام سٹرکوں پر آگئی اور ملک دشمن عناصر بھی متحرک ہوں گے۔