counter easy hit

”مسیحی بھائیوں سے اظہار ہمدردی”

Lahore Victim

Lahore Victim

تحریر : مجید احمد جائی
گزشتہ دنوں لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں میں خود کش دھماکوں نے پھر سے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اسی طرح پشاورمیں بھی دل خراش واقعہ ہوا تھا۔دہشت گرد مسیحی بھائیوں پر حملے کرکے پاکستان کی بقا کوتو نقصان ہی پہنچا رہے ہیں۔اس کے علاوہ مسیحی برادری میں خوف و ہراس پھیلا کر مسلمانوں اورمسیحی برادری کے درمیان فاصلے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔دہشت گرد ،مسیحی بھائیوں پر حملے کرکے ان میں نفرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔حالانکہ پاکستان کے مسلمان سادہ دل اور محبت کرنے والے ہیں۔مسیحی بھائیوں اور مسلمانوں کا خدا تو ایک ہی ہے۔عقیدہ توحید پر دونوں کا ایمان ہے۔مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا نبی مانتے ہیں اوربائبل پر ایمان بھی رکھتے ہیں۔مسلمان کا چاروں الہامی کتابوں پر ایمان ہے۔ تاریخ شاہد ہے جب کفار مکہ نے ظلم کی انتہا کر دی تومسلمانوں کا پہلا وفد مکہ سے باہر گیا۔اور حبشہ کے امیر نجاشی کے پاس پہنچا۔جو مسیحی مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔انہوںنے نہ صرف مسلمانوں کو پناہ دی بلکہ کفار مکہ کے سفیر کی گفتگو سن کر ان کو جھٹلایاتھااور مسلمانوں کو اپنی سر زمین پر خوش آمدید کہا۔

مسلمان اور مسیحی ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہو سکتے۔یہ کوئی اور ہے جو شر پھیلا رہا ہے۔پاکستان کی سرزمین پر مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی آباد ہیں۔پاکستانی حکومت ان کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے لیکن بد قسمتی سے اس وقت پاکستان حالت جنگ میں ہے۔دشمن کی شازشیں کامیاب ہو رہی ہیں۔جب تک ہم میں میر جعفر،میر صادق موجود ہیں بیرونی طاقتیں فائدہ اٹھاتی رہے گی۔بیرونی طاقتیں پاکستان کا بکھیڑا چاہتی ہیں۔پروسی ملک تاق لگائے بیٹھا ہے۔مشرقی پاکستان ہم سے چھین کر بھی بے قرار ہے اور اپنے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آتا۔وادی کشمیر پر جابرانہ تسلط قائم کئے ہوئے ہے امریکہ بھی چھپے ڈھکے پاکستان کے مخالفوں کا ساتھ دے رہا ہے۔ورنہ صدیوں سے مسیحی اور مسلمان ایک ساتھ رہتے ہیں۔

پاکستان امن پسند ملک ہے اور دین اسلام امن کا درس دیتا ہے۔دہشت گرد مسلمان نہیں ہو سکتے،اور نہ مسلمان ایسی گھٹیا حرکت کر سکتا ہے۔میرے مسیحی بھائیوں مسلمان تمھارے دوست ہیں دشمن نہیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جو گرجا گھروں میں خود کش دھماکہ ہوا ہے۔اس سے پہلے بھی ہوئے ہیں۔ گرجا گھروں سے کہیں بڑھ کر مساجد،امام بارگاہوں ،بازاروں میں خودکش دھماکے ہوئے ہیں ہزاروں لوگ جان گنوا بیٹھے ہیں۔مگر یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔

قانون ہاتھ میں لے لیں ۔خود ہی فیصلے کرنے لگ جائیں۔شک کی بنا کر لوگوں کو زندہ جلا دیا جائے۔جس ملک میں رہتے ہیں،جو ملک تمھیں آزادی کی زندگی جینے کی ضمانت دیتا ہے۔تم اس ملک کے پرچم نذر آتش کر دو۔کیا مسیحی مذہب یہی درس دیتا ہے۔؟دنیا کا کوئی قانون شک کی بنا کر انسانوں کو زندہ جلانے کا حکم نہیں دیتا۔یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جائے،گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی جائے۔سبزی فروشوں کی سبزی لوٹ لی جائے۔پھر آپ میں اور دہشت گردوں میں کیا فرق رہ گیا۔اس طرح تم بھی دہشت گر د ٹھہرے۔میرے بھائی صبر ،تحمل،برداشت بھی کسی چڑیا کا نام ہے۔صبر سے کا م لیتے،قانون کا سہارا لیتے،عدالتیں کس لئے ہیں۔آپ کو انصاف نہ ملتا پھر کہتے۔

پاکستان کا ہر شہری،ہر فرد دہشت گردوں کے خلاف ہے۔لیکن یہ نہیں کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنوں کے گلے کاٹ دئیے جائیں۔ہم گرجاگھروں میں خود کش حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ڈراھی رکھنا گناہ نہیں ہے اور نہ ہی ہر ڈراھی والا دہشت گرد ہے۔اب تو یہ بھی خبر آئی ہے کہ خود کش حملہ آوار کلین شیو تھے۔پھر تم نے نعیم جو قرآن مجید کا حافظ تھا۔اسے کس بنیاد پر زندہ جلا دیا۔میرے بھائیوں یہ وقت غصے کا نہیں ہے نہ قانون کی ڈھجیاں اڑانے کا وقت ہے۔یہ وقت ہے صبرو تحمل اور برداشت کا ۔ہمیں اس کا کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔ہمیں مل بیٹھ کر غوروفکر کرنا ہوگا۔بیرونی طاقتوں کی شازشوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔آپس میں لڑنے مرنے کی بجائے دشمن کو ڈھونڈ نکالنا ہوگا۔

کیونکہ ہم امن کے رکھوالے ہیں۔ہماری دھرتی امن کا گہوراہ تھی۔دشمن کے ناپاک ارادوں نے ہمارے ملک کے امن کو دہشت گردی میں بدل دیا ہے۔ہمیں یک جان ہوکر ان کو کیفرکردار تک پہنچانا ہوگا۔حکومت بھی ہرممکن کوشش کر رہی ہے۔ہماری افواج جان جوکھوں پر ڈال کر دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ہو سکتا ہے دہشت گردنئی چال چل رہے ہوں۔ہمیں ان کی چالیوں کا مقابلہ کر نا ہوگا۔یہ وقت لڑنے کا نہیں غور وفکر کرنے کا ہے۔وطن کے امن کو بحال کرنے کا ہے۔افراتفری،نفرت کی آگ کو بجھانے کا وقت ہے۔ایک دوسرے کو الزام دینے کی بجائے دشمنوں کو کیفرکردار پہنچانے کا وقت ہے۔آئیں شازشوں کوبے نقاب کریں اور ملک میں امن قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Abdul Majeed wafa

Abdul Majeed wafa

تحریر : مجید احمد جائی
0301-7472712
majeed.ahmed2011@gmail.com