counter easy hit

۔،۔خرید و فروخت کا مینا بازار ۔،۔

Imran Khan

Imran Khan

تحریر: طارق حسین بٹ
خلا محال ہے قدرت کے کارخانے میں ایک ایسی سچائی ہے جس سے کسی کو بھی مفر ممکن نہیں ہے۔ کوئی بھی شخصیت چاہے جتنی بھی اہم ہو ناگزیر نہیں ہوا کرتی بلکہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اسے بھی اس جہانِ فانی سے رخت سفر باندھنا پڑتا ہے کیونکہ اسے جس مقصد کیلئے چنا گیا ہوتا ہے وہ مقصد پورا ہو چکا ہوتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض شخصیتیں اتنے اعلی اوصاف کی حامل ہوتی ہیں کہ ان کا نعم البدل ملناممکن نہیں ہوتا لیکن ایک وقتِ معینہ پر رخصتی سے وہ بھی مستثناء نہیں ہو تے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح تخلیقِ پاکستان کے بعد ایک ہی سال کے اند ر رخصت ہو گئے۔ ان کی کمی تو کوئی بھی پورا نہیں کر سکتا لیکن جس معرکے تک انھیں بیماری کے باوجود روکا گیا تھاوہ پورا ہو چکا تھا اور ایک نئی قوم دنیا کے نقشے پر ظاہر ہو چکی تھی جس کی قیادت کی ذمہ داریاںاب آنے والی قیاد ت کے ہاتھوں میں آنی تھیں اور پھر ہم نے دیکھا کہ وقت کے بطن سے ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی شخصیات نمودار ہوئیں جھنوں نے عوامی راج کیلئے اپنی زند نگیوں کو وقف کر دیا۔ان کے نظریات کی روح جب عوامی اذہان میں رچ بس گئی تو انھیں بھی اٹھا لیا گیا۔

حالیہ چند سالوں میں پاکستانی معاشرہ جب کرپشن کی دلدل میں مکمل د ھنس چکا ہے تو معاشرے میں پھیلے ہوئے اس گند اور کرپشن کے خاتمے کیلئے ایک نئی آواز عمران خان کی صوت میں عوام کے سامنے ابھری جس نے کرپشن کے خا تمے اور عدل و انصا ف کو یقینی بنانا نے کا نعرہ بلند کیا۔اس بات سے تو کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف عوامی امنگوں کی ترجما ن بنی ہوئی ہے اور حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ خردید و فروخت کے موجودہ کلچر میں عمران خا ن نے عوام کے اذہان میں جو شفاف اور غیر کرپٹ نظام کی امیدیں پیداکی ہوئی ہیں اسے عوام میں بڑی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے ۔ایک وقت تھا کہ عمران خان نے موجودہ حکومت کے خلاف دھرنا دیا ہو اتھااور عوام میاں نواز شریف کی حکومت کی تبدیلی کے خوا ب دیکھ رہے تھے۔

ایسے لگتا تھا جیسے پورا پاکستان ذہنی طور پر اس دھرنے میں موجود ہے جسے عمران خان نے اسلام آباد میں دیا ہوا تھا ۔ تبدیلی کی خوا ہش نے عوام کے اذہان کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا کیونکہ موجودہ نظام نے ان کا جینا حرام کر رکھا تھا۔تبدیلی کی اس خواہش کو اس وقت سخت دھچکہ لگا جب دھشت گردوں نے ١٦ دسمبر کو پشاور سکول پر حملے کرکے ڈیڑھ سو کے قریب معصوم بچوں کو تہہ تیغ کر دیا۔ان کی شہادت قومی سا نحہ تھا جس کی وجہ سے عمران خان کو اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرنا پڑا اور یوں وہ تحریک جس کی دھڑکنیں ہر پاکستانی کے دل میں تحرک پیدا کر رہی تھیں کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔عمران خان کے اس فعل پر مسلم لیگ (ن) نے جس طرح اطیمنان کا سانس لیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔مسلم لیگ (ن)کو تو ایسے لگا کہ کسی نے اس کی شہ رگ سے اپنا انگوٹھا پیچھے ہٹا لیا ہے۔اس دھرنے کے بعد وفاقی وزرا کی انانیت اور غرورو تمکنت ایک دفعہ پھر لوٹ آئی حالانکہ دھرنے کے وقت ان کی حالت بڑی پتلی تھی۔میں تو اسے سیاست دانوں کی ٹریڈ یونین کہنا ہوں جہاں ہر جرم پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور عوام جب بھی صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو انھیں نئی سازشوں او مسائل میں الجھا دیا جاتا ہے اور پھر ایک نیا طبقہ عوام کے حقو ق کے نام پر دوبارہ عوام پر مسلط ہو جا تا ہے لیکن اپنے سے پہلے والوں کی زیادتیوں کا ان سے کوئی حساب نہیں لیتا۔پی پی پی اور مسلم لیگ میں پچھلی کئی دہائیوں سے یہی مشق جاری ہے۔

ایک آتا ہے تو دوسرا جاتا ہے لیکن آپس میں مک مکائو کی وجہ سے کسی کو بالکل چھیڑا نہیں جاتا بلکہ آنے والی حکومت اپنے سے پہلے والوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے تا کہ بعد میں آنے والے بھی انھیں تحفظ فراہم کریں (تو بگو حاجی مرا۔۔من بگوئم حاجی ترا) والی کیفیت ہوتی ہے مجبور عوام حیرت کی تصویربن جاتے ہیں کہ پاک وطن میں لٹیروں سے کرپشن کا حسا ب لینے والا کب آئیگا تا کہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ عمران خان ایک امید کی کرن بن کر سامنے آئے تھے لیکن لگتا ہے وہ بھی پٹری سے اتر رہے ہیں کیونکہ وہ بھی حکومتی سازش کا شکار ہو رہے ہیں ۔حکومت انھیں دام میں پھنسانے کے جتن کر رہی ہے۔کبھی آل پارٹیز کانفرنس اور کبھی آئینی ترمیم کے نام پر انھیں حکومتی کیمپ میں دھکیلا جا رہا ہے۔عوام عمران خان کو موجودہ حکومت سے علیحدہ دیکھنا چاہتے ہیںکیونکہ جو کوئی نمک کی کان میں جاتا ہے خود نمک ہو جا تا ہے۔ عوام کی ترجیح موجودہ نظام سے گلو خلاصی ہے جو حکومت کی رخصتی سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔دھرنے سے قبل کئی گروہ پہلے ہی لوٹ مار میں مشغول تھے لیکن دھرنا اٹھنے کے بعد انھیں لوٹ مار کا لائسنس مل گیا ہے کیونکہ حکومت پر سے اپوزیشن کا دبائو اٹھ گیا ہے ۔ وزیروں کی باہمی آویزش اور اور بیان بازیاں صرف دکھاوے کیلئے ہوتی ہیںجن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ ان کی باہمی لڑائیاں بھی ان کے ذا تی مفا دات کا شا خسانہ ہوتی ہیں ۔اپنے مخصوص گروہ اور ٹولے کا وہ حتساب بھی نہیں کرتے بلکہ ان کی چھری غریب عوام کے گلے پر چلتی ہے۔سب لوٹ مار میں مشغول ہو جاتے ہیں اور عوام کو باہمی محاصمت کا تاثر دیتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔ان کا واحد مقصد قومی خزانے کو لوٹنا ہوتا ہے لہذا عمران خان کے علاوہ کوئی ایسی آواز نہیں جو حکومت کو ملکی خزانے کی لوٹ مار پر مضطرب و بے چین ہو اور اس کا خاتمہ چاہے۔،۔

میاں برادران کے بعد اب ان کے سمدھی اسحاق ڈار کی ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کی کہانیاں منظرِ عام پر آ رہی ہیں ۔ ان کے اربوں ڈا الر کے ٹاور،پلازے اور کوٹھیاں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں اور حکومتی موقف یہ ہے کہ یہ سب الزام تراشی ہے ۔کیا کبھی ایسا وقت بھی آئیگا کہ ملکی خزانہ لوٹنے والوں کو سرِ عام سزا دی جائیگی تا کہ وہ معاشرے کیلئے عبرٹ کا نشان بنیں ۔پاکستان چند خاندانوںکی لوٹ مار کا نام ہے ۔ جسکی وجہ سے بحران پر بحران امڈتا چلا آتا ہے لیکن حکمران خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہوتے۔ انھیں اقتدار کی شان و شوکت سے دلچسپی ہے۔ انھیں عوام ااور ان کے مسائل سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ایک منڈی ی ہے جو کہ سجی ہوئی ہے اور اہلِ اقتدار طبقہ اس میںننگا نہا رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آصف علی زدراری نے انتہائی چابکدستی سے پانچ سالہ اقتدار پورا کیا تھا لیکن پی پی پی کی قیادت پر کرپشن کے جو الزامات لگے تھے وہ اس سے خود کو دور نہ رکھ سکی اور شفافیت کی جو اعلی مثال ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے قائم کی تھی اس کا پالن نہ کر سکی ۔ ذولفقار علی بھٹو کے بارے میں تو ضرب المثل مشہور ہے کہ جب ان کے خلاف کرپشن کے الزامات قائم نہ کئے جا سکے تو انھیں قتل کے جھوٹے مقدمے میں ملوث کر کے راستے سے ہٹا یا گیا ۔ذولفقار علی بھٹو کی یہی بے گناہی پی پی پی کی مقبولیت کی بنیاد بنی لیکن بقول ذولفقار مرزا پی پی پی کی اعلی قیادت کرپشن میں دھنستی چلی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی پی پی کا پورے ملک سے صفایا ہو گیا اور یہ پارٹی صرف سندھ تک محدودہو کر رہ گئی۔پی پی پی کی حکومت کے بعد میاں نواز شریف عوامی امیدوں کا مرکز بنے لیکن عوامی امیدوں کا جس بے رحمی سے اس حکومت میں قتلِ عام ہو اور جس بری طرح سے امیدیں ٹوٹیں اس پر پی پی پی کے سب سے بڑے ناقد عمران خان کو بھی کہنا پڑا کہ میاں نواز شریف کی حکومت تو آصف علی زرداری کی حکومت سے بھی گئی گزری ہے۔

آج کل سینیٹ کے انتخا بات ہونے والے ہیںجس میں ووٹو ں کی خریدو فروخت کا مینا بازار سجا ہوا ہے جس نے ہر شخص کو حیران کر دیاہے۔کھلے عام ووٹوں کی بولی اور سرِ عام اس کا اقرار اس بات کا غماز ہے کہ قوم اخلاقی بنیادیں کھوتی جا رہی ہے ۔اس کیلئے دولت کا حصول اور اس کا ارتکاز اس کی پہلی ترجیح ہے جس میں قدروں کا کہیں نام و نشان نہیں ہے ۔ معاشرے میں جب انسان کے مقام کا تعین دولت سے ہوتا ہو تو پھر دولت ہی سکہ رائج الوقت ٹھہرتی ہے ۔حکومت نے کوشش کی تھی کہ سینیٹ انتخا بات سے قبل کوئی آئینی ترمیم لائی جاتی اور اس طرح خریدو فروخت کے موجودہ کلچر کو کسی حد تک لگام دی جاتی لیکن حکومت کی کو ششیں بار آور ثابت نہ ہو سکیں کیونکہ ممبرانِ اسمبلی اس میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔وہ بھی تو چاہتے ہیں کہ گلشن کا کاروبار یوںہی چلتا رہا ہے اور ان کی مٹھی بھی گرم ہوتی رہے۔اگر حکمران شفافیت قائم نہیں رکھیں گئے تو پھر ممبرانِ اسمبلی پر کون سا اخلاقی دبا ئو ہو گا کہ وہ کرپشن سے تائب رہیں ؟۔،۔

Tariq Butt

Tariq Butt

تحریر: طارق حسین بٹ
(چیرمین پیپلز ادبی فورم )