counter easy hit

بنگلے یا بھوت بنگلے

Home

Home

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس
دنیا میں ایسے بے شمار لوگ رہتے ہیں جو ساری عمر شدید جِدوجہد کے بعد بھی بمشکل دو وقت کی روٹی یا زندگی میں ایک مکان بنانے کی خواہش پورے کر سکے اور جب یہ مکان بنانے کی آرزو پوری بھی ہوتی ہے تو ان کا اپنا اس مکان سے دوسرے جہان جانے کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ یوں وہ درو دیوار پھر سے اولادوں میں اینٹ اینٹ کر کے یا تو بک جاتے ہیں یا پھر بانٹ دیئے جاتے ہیں۔ اور سفر وہیں سے شروع ہو جاتا ہے جہاں سے کبھی پہلے مکان بنانے والے نے شروع کیا تھا۔

لیکن دوسری جانب ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں کتنا بھی بڑا گھر کنال تو کیا ایکڑز میں بھی مل جائے تو بھی کم ہی لگتا ہے ۔ ہم نے اکثر ایسے گھر بلکہ مکان دیکھے ہیں جہاں کسی مکین کا سالہا سال تک کوئی گزر نہیں ہوتا۔ ایسے گھروں میں یا تو تالے لگے ہوتے ہیں یا ان میں ملازمین کی فوج آباد ہوتی ہے۔ اتنے بڑے مکان بنانے کی یہ وبا پہلے نمبر پر تو ہمارے نودولتیوں اور افسر شاہی اور وزراء میں پائی جاتی ہے اور دوسرے نمبر پر اس مرض کا شکار ہوتے ہیں بیرون ملک مقیم پاکستانی ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کے بچپن میں انہیں رہنے کو گھر نصیب ہی نہیں ہوئے۔

جن کا بچپن زیادہ تر دربدری میں گزرا ۔ چھوٹی عمر کی ان محرومیوں نے بڑے ہو کر صرف گھر اور بڑے سے بڑا گھر بنانے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ اولادیں ملک سے باہر تھیں جو کسی نہ کسی وجہ سے پاکستان میں جاتے بھی بہت کم ہیں لیکن گھر ہیں کہ بنائے ہی جا رہے ہیں۔ کبھی ان گھروں پر قبضہ مافیا کی موج ہوتی ہے ، تو کبھی ان گھروں پر رشتہ داروں کی اجارہ داری ہوتی ہے ۔ اس پہ طُرّہ یہ کہ ان گھروں کی دیکھ بھال کے نام پر ہر ماہ اچھی خاصی رقم بھی اینٹھ لی جاتی ہے ۔ فرمائشی کھاتے الگ سے کھلتے ہیں ۔ اور اگر کوئی بات ان سے پوچھ تاچھ میں کر بھی لی جائے تو باقاعدہ مفت میں رہنے والے کی جانب سے آپ کو یہ جتایا جائے گا کہ بھائی شکر کرو ایک تو ہم تمہارے گھر میں رہتے ہیں اوپر سے تم ہم سے سوال جواب بھی کرتے ہو۔ اگر ان گھروں کو بیچنے کی کوشش کی جائے تو بھی یہ ہی رشتہ دار اس میں سب سے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کی وجہ بنتے ہیں۔

یا ان گھروں کو اونے پونے ہتھیانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کی یہ وجہ تو ہے کہ ہمارے ملک میں مالک مکان کو کوئی بھی قانونی تحفظ حاصل ہی نہیں ہے۔ دوسری جانب ایسے بھی مکان دیکھے کہ ان میں دو یا تین افراد ہی رہتے ہیں۔ اتنے بڑے بڑے لانز بلکہ سچ پوچھیں تو ان لانز کے نام پر اتنی اتنی زمین ہوتی ہے کہ ان میں فصل کاشت کی جائے تو سینکڑوں لوگوں کا سال بھر کا غلّہ کاشت کیا جا سکتا ہے۔

اتنے بڑے گھر کا کیا فائدہ کہ اس میں انسان ڈر ڈر کر اور گھٹ گھٹ کر مر جائے۔ اپنے ہی گھر کے باہر شام ہوتے ہی جاتے ہوئے انسان گھبرانے لگے تو اس گھر سے باہر والی زمین کی ملکیت کا کیا فائدہ۔ جہاں کسی کو کسی گھر والے کا نہ آتے ہوئے چہرہ نظر آئے نہ ہی جاتے ہوئے پتہ چلے۔ جہاں اپنے ہی گھر والوں سے ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی ہفتوں بعد اتفاق سے ہی ملاقات ہوتی ہو ۔ایسے گھر کی دیکھ بھال کرنا بھی گویا سفید ہاتھی رکھنے کے برابر ہی ہو تا ہے ۔ جہاں پر گھر کو سنبھالنے کے لیئے گھر کے افراد سے زیادہ گھر کے ملازمین کی تعداد ہوتی ہے۔

ایکڑز پر پھیلے یہ گھر ، گھر کے مالک کو انہیں سنبھالنے کے لیئے ہر حرام ،حلال ،جائز ،ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ان گھروں کو شام کے بعد دیکھنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے انسان کسی قبرستان سے گزر رہا ہو۔ ویسے سچ ہی تو ہے اتنے بڑے گھروں اور قبرستان میں ایک ہی قدر تو مشترک ہوتی ہے، وہاں کی ویرانی اور سناٹا۔ انسان چاہے امیر شہر ہو یا فقیر شہر دونوں کی آخری منزل بھی ایک سی ہوتی ہے اور آخری لباس بھی ایک سا ہی ہوتا ہے ۔ پھر اتنا بڑا گھر بنانا بھی کیا کوئی نفسیاتی مرض نہیں ہے کہ جس میں جن گھر والوں کا نام لیکر تعمیرات ہوتی ہیں انہیں کو دیکھنے کے لیئے آنکھیں ترس جاتی ہوں ۔ دیواریں بھی ہمیں حسرت سے دیکھتی اور پوچھتی نظر آتی ہیں کہ

مکان پوچھتے ہیں کہ تیرے مکیں ہیں کہاں

سچی بات تو یہ ہی ہے کہ گھر اینٹوں سے نہیں گھر والوں اور گھر والوں کی محبت سے بنتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے انہوں نے بڑے بڑے گھروں کی بیماری کا جھنجھٹ پالا ہی نہیں۔ یہاں بہت بڑے سٹارز بڑے گھر لیتے ہیں تو انہیں سنبھالنے اور شوق پورا ہونے کے بعد وہ بھی انہیں بیچ کر جان چھڑاتے ہیں۔ چھوٹے مکانوں میں اور فلیٹس نے یہاں کی زندگی کو بہت ساری پریشانیوں سے نجات دی ہے۔ کیونکہ گھر جتنا بڑا ہو گا اس کے اخراجات بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ یہاں پر زیادہ بڑے لانز کا بھی کوئی رواج نہیں ہے۔ یہاں گھروں کا کام خود کرنے کی وجہ سے بھی بڑے بڑے گھروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

سچ پوچھیں تو پاکستان میں بھی گھروں کا کام خود کرنا پڑ جائے تو ہمیں پورا یقین ہے کہ وہاں بھی گھروں کے سائز خود بخود چھوٹے ہو جائیں گے۔ اور ہاں ان نفسیاتی مریضوں کا تو ہم نے ابھی ذکر کیا ہی نہیں جنہیں ملک کے ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر شہر میں ایک گھر بنانے کا مرض ہوتا ہے۔ اسے ہم ہوموفوبیا کہیں گے۔ جو ساری عمر اسی جنون میں گزار دیتے ہیں لیکن انہیں گھر تو کیا اپنے ہی گھر والوں کیساتھ رہنا بھی کبھی نصیب نہیں ہوتا۔ ان کے لیئے ہم سب مل کر اجتماعی دعا کرتے ہیں شاعر سے معذرت کیسا تھ کہ

میرے خدا انہیں اتنا تو معتبر کر دے
یہ جس مکان میں رہتے ہیں اسکو گھر کر دے آمین۔۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس