counter easy hit

بجٹ ڈرون حملہ یا ایٹمی دھماکہ

Budget

Budget

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
بالآخرمیائوں بلی تھیلے سے باہر آگئی ۔بجٹ مخصوص صنعتکارانہ عوام دشمنی کا پرتو،غریب عوام سے جینے کا حق چھیننے کی ظالمانہ کوشش ،لفاظی اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندا بیان کرکے ایک اور ڈرون حملہ ہی نہیں بلکہ ایٹمی دھماکہ کرڈالا ہے ۔95فیصد ٹیکس بالواسطہ لگا کر سراسر بے انصافی ،خود غرضی اور مفاد پرستی کی انتہا کرڈالی ہے۔مرغی کے گوشت کی قیمت بڑھا کر ساتھ ہی لن ترانیاں پیش خدمت کردیں کہ قیمت دو سو سے نہیں بڑھنے پائے گی۔یہ بالکل ایسا ہی احمقانہ و بیوقوفانہ نقارہ ہے کہ بلی کو دودھ کی رکھوالی بٹھا دیا ہے مگر وہ دودھ نہیں پئے گی۔جھوٹ اور منافقتوں کی لعنتوں کابوجھ اس وقت حکمرانوں نے اپنے سر پر خود ہی اٹھا لیا ہے جس وقت ان کا چل چلائو کا دور شروع ہو چکا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بدنام بھی ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔خزانہ سے آخری دائولگانے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ مال متال اور کالا دھن برآمد کرکے کسی اور ملک کی کمپنیوں میں انویسٹ کرڈالیں۔

تاکہ” مستقبل روشن”رہے حالانکہ کروڑوں ڈالر ز کالا دھن باہر بھجوا کر جوروسیاہی چار سو نامزدافراد بالخصوص شریفین ،زرداری،عمرانی اے ٹی ایم کارڈز و دیگر سیاستدانوں کے حصہ میں آئی ہے۔ وہ لاکھ قسم کے شیمپو اور صابنوں سے بھی کبھی نہیں دھل سکتی کہ داغدار کردار کسی حربے سے اجلے نہیں بن سکتے۔سیمنٹ کی قیمتیں بڑھا کر غریبوں کے لیے سر چھپانے کی جگہ خریدنایا تعمیر کرناجوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔اپنے وزرائ،مشیروں و دیگر ممبران اسمبلی کی تنخواہوں میں ساڑھے چار سو فیصد اضافہ پہلے ہی کر لیا گیا تھااور غریب ملازمین و پنشنرز کے لیے دس فیصداونٹ کے منہ میں زیرہ سے بھی کم ہے پہلے ہی مہنگائی کا جن بڑھتے پھیلتے دیو ہیکل ہو چکا مہنگائی درجنوں گنا بڑھ چکی مگر ملازموں کی تنخواہوں میں معمولی بڑھوتری مذاق بن کر خود کو تھپڑ مارنے کی طرح بڑا غریب دشمن عمل ہے صنعتکار حکمران ٹھہرے خالص مفاد پرست طبقات انھوں نے مخصوص عذر تراشیوںکے ذریعے اپنے لیے کروڑوںکی دیہاڑیاں اور عوام کے لیے نان جویں کے لیے ترسنے اور تڑپنے کا مقام عطا فرمایاہے غرباء کے بچے اپنے والدین سمیت خود کشیاں کرنے پر مجبور محض ہیں جب کہ ان کی تو ملیں بھی سال میںدو تین بچے جنتی ہیں۔معمولی لوہار سیپی دار سے کھرب پتی بننے اور بنک بیلنسوں کو سالانہ ہزاروں گنا بڑھانے کا فن کوئی ان سے سیکھے۔ادھر پان چھالیہ تک مہنگا کرکے غریبوں کے منہ کا مزہ کرِ کرِا کرڈال کران کی کمر ہی توڑ ڈالی ہے۔

بجٹ کے ذریعے غریبوں کا خون چوسنے کا کریہہ عمل ترتیب دیا گیا ۔سود خورصنعتکاروںکو شاید آخرت یا د نہیں۔85سال کی عمر کو پہنچنے والے پنشنرز کے لیے25فیصد اضافہ کرنا بھی عجیب و غریب مذاق ہے۔کوئی لاکھ میں سے ایک ہو گا جو 85سال کی عمر کو پہنچے یہ ڈاری ڈرامہ گیری بھی خوب رہی۔”کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہو نے تک “کرپٹ اور مفاد پسندوں کا بجٹ ایسا ہی ہونا تھااب رونے دھونے کا کیا فائدہ ابھی تو ہر تین ماہ بعد منی بجٹ آیا کریں گے جو پسماندہ طبقات کے غریب افراد کاآخری قطرہ خون بھی چوس کرمزید جان لیوا ،اور خود کشیوں کے علمبردار ہوں گے۔جب تک حکومت پر صنعتکاروں کا کنٹرول رہے گا کبھی عوامی مفاد کا بجٹ بن ہی نہیں سکتاہر طبقہ اپنے ساتھیوں کے ہی مفاد کا سو چتا ہے۔ہر طبقے کی اپنی اپنی انجمنیں ،تنظیمیں بنی اور باقاعدہ رجسٹرڈ ہوئی موجود ہیں ۔کسان مزدور دوکاندار وکلاء وغیرہ کی سبھی انجمنیں اپنے ہی ساتھیوں کے نفع و نقصان کی حصہ دار ہوتی ہیں۔سٹاک ایکسچینج والے سبھی منافعوں کے چکروں و گھن چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔بڑے بڑے سود در سود ،ڈھیروں منافعوں کے حصول کے لیے صنعتکاروں کی انجمنیںٹریڈرز چیمبرز بھی اپنے ہی مفاد کی تابع فرمان ہوتی ہیںاسی لیے تو صنعتکاروں کا بیرون ممالک مقتدر ہوجاناقطعی ناممکن ہوتا ہے۔

Inflation

Inflation

لائیو سٹاک ،پولٹری ،مچھلی ،کپڑا ،چمڑا مہنگا کرکے یہ صنعتکار کس کی بھلائی کرنے چلے ہیں۔یہ تو غریب مزدور کسانو ں کی جھگیوں میں ڈاکہ زنی اور سراسر جیب تراشی کے مترادف ہے۔حکمرانی ریت کی بوری میں سوراخ ہو گیا ہے تو ساری ریت نکل کر ہی رہے گی کہ حکمرانی تو ہوتی ہی ریتلی دیوار ہے جسے اچھی ٹھو کر لگ جائے تو زمیں بوس ہو جاتی ہے۔اسی طرح جب بیورو کریسی کو اس بات کی بھنک پڑ جائے کہ اقتدار اب بھیگی بلی بنا ہوا ہے اور اسے جلد ختم ہو جانا ہے تووہ بھی آنکھ مچولی کھیلنے لگتی ہے اور احکامات تو کیا گزارشات پر بھی عمل درآمد کرتے ہوئے سو حیلے بہانے تراشنے لگ جاتی ہے پاکستانی عوام کو تو اس وقت سخت افسوس ہو گا جب ان کے شروع کردہ منصوبے رقوم کی عدم فراہمی کی وجہ سے مکمل نہ ہو سکے اور دھرے کے دھرے رہ گئے۔ حکومتی مالیتوںسے زیادہ کرنسی نوٹ بار بار چھاپنے سے پاکستانی روپیہ کا وقار ختم ہو چکا ہے کہ اس طرح کے حالات میں حکمرانوں کو کوئی ایڈ تو کیا قرضہ بھی نہیں دیا کرتا اسی لیے تو کہتے ہیںکہ یہ دنیا ہے چل چلائو کا ۔رستہ سنبھل کے چل۔نئے حکمران تو اپنا سکہ چلانے اورجمانے کی کوشش کیا کرتے ہیں وہ کیوں آپکے سوچ بچار سے عاری طریقے سے شروع کیے گئے منصوبوں کو رقوم فراہم کریں گے؟نیا نوکر شیر مارے کے مصداق نئے حکمران پہلے تو بہت اچھل کود دکھائیں گے مگر بعد میں وہ بھی ٹیں ٹیں فش ہو کر رہ جائیں گے۔

صنعتکاروں کو اسی لیے دنیا بھر میں نا اہل ترین افراد سمجھا جاتا ہے کہ وہ تو ہر دم اپنی صنعتوں کی ترقی اور پراڈکٹس پر زیادہ منافع وصولی کے لیے سوچتے رہتے ہیں انھیں دیگر طبقات کی بھلائی کے لیے سوچنے کی فرصت کہاں۔پانامہ لیکس کے انکشافات نے ہر جگہ پر حکمرانوں کی توجہ اس سے بچنے بچانے پر مرکوز کردی ہے۔بجٹ پر کسی کا دھیان نہ تھالندن میں بائی پاس تو کروانے چلے گئے خدا سلامت رکھے مگر بے عزتی کتنی ہے کہ اس کا تصور کرنا بھی محال ہے کہ ہم ایٹمی پاکستان کے باسیوں کا اپنے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں پر قطعاً اعتماد نہ ہے بیرون ممالک ڈاکٹروں کو ہی آسمانی مخلوق سمجھ کر ان کے در پر علاج کے سوالی بن گئے۔اور اسی دوران بجٹ کے ذریعے سارا بوجھ غرباء پر لاد دیا گیا۔پٹرول کی قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ کے ریٹ سے چار گنا وصول کرنا بے انصافیوں کی انتہا ہے اس میں کئی وزرا ء و بیورو کریٹ اپنی دانش اور عقل سے نہیں بلکہ دھوکہ دہی سے کروڑوں کمارہے ہیںسچ ہے کہ کوئی بولتا ہی نہیں۔

عوام کی بولتی بند نہیں ہوئی لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ کسی حکمران کو دفع دور کریں گے تو اس سے بڑی بلا سے پالا پڑ جائے گا حکمرانوں کوپتا ہی ہے کہ وڈیرے اور نو دولتیے جو ابھی تک ان کے ہاں براجمان ہیں وقت پر اڑان کرکے کسی اورآشیانہ میں جا بیٹھیں گے۔سیاست پر بے پیندا لوٹوں کا قبضہ ہے اور دودھ جو شیر خوار بچوں کی اشد اور ضروری غذا ہے اس پر ٹیکس بڑھا دیکھ کر خواتین جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہی ہیں۔ٹیکسوں کے ذریعے ہر گھر میں ڈکیتی تو کرلی مگر بچوں کے منہ سے دودھ کا گھونٹ چھیننے پر غربا ء کی چیخیں آسمانوں سے ٹکرا کر خدائے ذوالجلال تک پہنچ رہی ہیں فیصلہ وہیں سے آئے گااور اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے بے کس افراد تحریک کی صور ت میں نکلیں گے اور سب کچھ بذریعہ انتخابات تہس نہس ہو جائے گااور خدا کی زمین پر خدا کی حکومت قائم ہو کر رہے گی۔

Dr Ihsan Bari

Dr Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری