counter easy hit

برطانوی شہریت: پاکستانی کرکٹ میں عامر کا مستقبل خطرے میں ہے؟

پاکستان کی کرکٹ ہو اور تنازعات سے دور رہے، یہ کیسے ممکن ہے؟ ایسے ہی ایک تنازعے نے اس وقت جنم لیا جب گزشتہ دنوں محمد عامر نے اپنی برطانوی بیگم کے توسط سے برطانوی شہریت کے لیے درخواست دی۔

سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ  برطانوی شہریت حاصل کرنے کے بعد محمد عامر نے اگر پاکستانی کرکٹ کو الوداع کہ دیا تو تمام تر تنقید کے باوجود سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بدنام زمانہ کردار کی پاکستانی ٹیم میں واپسی کے فیصلے کو تاریخ کن لفظوں میں یاد رکھے گی؟ کیا اس صورت میں محمد عامر پاکستانی کرکٹ کو سپاٹ فکسنگ سکینڈل جتنا ہی اخلاقی زخم نہیں لگا دے گا؟

اگر محمد عامر نے برطانوی شہریت کے حصول کے بعد پاکستانی کرکٹ کو خیر آباد کہہ دیا تو اصولی طور پر یہ ایک انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہو گی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اس سے پہلے دنیائے کرکٹ میں کرکٹرز نے ایک ملک سے کرکٹ کھیلنے کے بعد کبھی دوسری ٹیم جوائن ہی نہیں کی۔ کیون پیٹرسن، ایون مورگن، ڈرک نینس، لیوک رونکی اور بہت سی دوسری مثالیں موجود ہیں لیکن ان کے پس منظر یکسر مختلف اور اخلاقی طور پر درست  فیصلے تھے۔ مثال کے طور پر کیون پیٹرسن نے اس وقت انگلینڈ ٹیم جوائن کی جب جنوبی افریقن بورڈ نے واضح طور پر کیون پیٹرسن کو ٹیم میں شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایون مورگن نے انگلینڈ ٹیم کا راستہ اس لئے پکڑا کہ آئیر لینڈ کی ٹیم بہت کم انٹرنیشنل میچز کھیلتی تھی جس سے مورگن جیسے بڑے کھلاڑی کا کیریئر ضائع ہو رہا تھا۔ اگر فواد عالم اب کسی اور ملک کی شہریت حاصل کر لے تو اس پر اخلاقیات کا سوال ہرگز نہیں اٹھ سکتا مگر محمد عامر کا معاملہ دوسرا ہے۔

یہ بجا کہ محمد عامر نے اپنے مختصر سے انٹرنیشنل کرکٹ کیرئر میں جہاں سپاٹ فکسنگ کا زخم دیا وہیں پاکستان کو بڑے اہم مواقعوں پر میچز بھی جتوائے۔ 2009 کے ٹی ٹونٹی ورلڈکپ فائنل میں مین آف دی ٹورنامنٹ تلکارتنے دلشان کی وکٹ، چیمپینز ٹرافی 2017 کے آخری لیگ میچ میں سری لنکا کے خلاف انتہائی مشکل وقت پر ناٹ آئوٹ 28 رنز کی انڈر پریشر اننگز اورفائنل میں بھارت کے خلاف یادگار سپیل کون بھول سکتا ہے، مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ محمد عامر وہ واحد پاکستانی خوش قسمت ترین کرکٹرز ہے جس کو اس وقت آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیموں کے خلاف پاکستان کی وجہ سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا موقع ملا جب اس کی عمر کے لوگ انڈر 19 کے ٹرائلز دینے کے لئے قطاروں میں لگے ہوئے تھے۔ پھر سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد دنیائے کرکٹ کے کتنے کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کا موقع ملا؟ میرے ناقص علم کے مطابق محمد عامر اس کی اکلوتی مثال ہے۔ انٹر نیشنل کرکٹ میں واپسی کے بعد محمد عامر پر کارکردگی کے لحاظ سے بعض اوقات برا وقت بھی آیا مگر اسے پاکستانی ٹیم سے کبھی ڈراپ نہیں کیا گیا۔ اس سب کے بعد بھی اگر عامر ایسا قدم اٹھاتا ہے تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ

تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں

ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں

لیکن یہ ساری بحث اس سازشی تھیوری کی بنیاد پر ہی ممکن ہے کہ محمد عامر پاکستانی کرکٹ چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے یا اس کے لیے عملی طور پر یہ ممکن ہے مگر آئی سی سی قوانین، محمد عامر کا سوشل میڈیا پر اس تھیوری کے متعلق اظہارخیال اور حالات و واقعات بالکل مختلف تصویر پیش کر رہے ہیں۔ محمد عامر کی انگلینڈ کرکٹ ٹیم میں جگہ بن پاتی ہے یا نہیں ، اس سے بھی قطع نظر آئی سی سی کے تازہ قوانین کے مطابق کوئی بھی کرکٹر کسی ایک ملک کی طرف سے کوئی بھی انٹرنیشنل میچ کھیلنے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ سے چار سال کا وقفہ کئے بغیر دوسری ٹیم کی طرف سے انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیل سکتا۔ اور یہ تو محمد عامر کیا شائد کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ اس وقت چار سال تک انٹر نیشنل کرکٹ سے دور رہے جب وہ مکمل فٹ اور انفارم ہو۔ محمد عامر پی سی بی کنٹریکٹ کی اے کیٹیگری میں شامل ہے۔ پی ایس ایل میں کراچی کنگز کی طرف سے تین مہنگے ترین کھلاڑیوں میں بھی عامر کا نام ہے۔ ایسے میں منطقی طور پر اس بات کے امکانات نہ ہونے کےبرابر ہیں کہ عامر پاکستانی کرکٹ کو چھوڑ دے۔

جہاں تک محمد عامر کے بطور بائولر رتبے کا سوال ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ عامر آہستہ آہستہ بلے بازوں کے نظر میں وہی جگہ بناتا جا رہا ہے جو کبھی وسیم اکرم، گلین میگراتھ اور شان پولاک کی ہوا کرتی تھی۔ پچھلے دو سال میں ٹی ٹونٹی کرکٹ کے پاور پلے میں سب سے اچھا اکانمی ریٹ محمد عامر کا رہا ہے۔ یہ عامر کے پہلے سپیل کا پریشر ہی ہے جس وجہ سے دوسرے پاکستانی بائولرز تیز رنز بنانے کی کوشش میں بلے بازوں کو آئوٹ کرتے رہے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں البتہ عامر اس طرح کی کارکردگی نہیں دکھا پایا جس کی اس سے توقع تھی (حالانکہ اس میں بھی ایک بڑا کردار عامر کی گیندوں پر ڈراپ کیچز کا تھا)۔ دورہ انگلینڈ عامر کے لئے سنہری موقع ہے کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی دوبارہ سے اپنا نام بنا سکے۔