counter easy hit

میں اس درد سے تھک چکا ہوں جو ہر دم کسی نئے افریقی امریکی کی موت کی خبر سے محسوس ہوتا ہے۔”سیاہ فام جارج فلائیڈ کا خون رنگ لے آیا، امریکہ میں پولیس کیخلاف کانگریس میں بل پرکام شروع

اسلام آباد(یس اردو نیوز)پولیس میں اصلاحات اور نسلی امتیاز کے خاتمے کے مطالبات کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے اور ریپبلکنز ہوں یا ڈیموکریٹس، دونوں کیلئے اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔امریکہ میں پولیس تحویل کے دوران سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد سے پولیس اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ مظاہرین کی جانب سے کیے جانے والے مطالبات کے پیشِ نظر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت بھی محکمۂ پولیس میں اصلاحات کے مسودے پر کام کر رہی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ پولیس کے محکمے میں اصلاحات کے مسودے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ البتہ وائٹ ہاؤس نے پولیس کو حاصل استثنیٰ کم کرنے یا محدود کرنے کے امکان کو مسترد کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے پریس سیکریٹری کیلی میکنینی نے کہا کہ مظاہرین کے پولیس سے متعلق خدشات کے حل کے لیے حکومت نے اپنا مسودہ تیار کر لیا ہے جو آخری مراحل میں ہے اور اس کی تفصیلات جلد بتائی جائیں گی۔ پریس سیکریٹری نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ 10 روز بڑی خاموشی اور عرق ریزی سے پولیس اصلاحات کے مسودے پر کام کرنے میں گزارے ہیں۔ تاکہ ان مسائل کو حل کیا جا سکے جن پر ملک بھر میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ ان حالات کے تناظر میں ڈیمو کریٹک پارٹی نے اصلاحات کا ایک بل کانگریس میں پیش کیا اور آج ریپبلکن پارٹی نے سینٹ میں اپنی تجاویز پیش کر دی ہیں۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ موجودہ احتجاجی مظاہروں کے دوران ریپبلکنز جس طرح بے نیازی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں، جس پر انہیں نکتہ چینی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، وہ سینیٹ میں اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس میں اصلاحات کا ڈیموکریٹک بل منظور نہیں ہونے دیں گے۔ احتجاجی مظاہروں میں جس طرح امریکی بلا تفریقِ رنگ و نسل اور کسی سیاسی وابستگی کے شریک ہوئے ہیں اس نے سیاستدانوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ عملی طور پر کچھ کر کے دکھائیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کی جانب سے اب پولیس کے نظام میں تبدیلی کی جو تجاویز پیش کی جارہی ہیں ان میں سے کچھ مشترک بھی ہیں جو کہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ پیر کو ڈیموکریٹس کی جانب سے پولیس اصلاحات کے معاملے پر ایک مجوزہ بل سامنے آیا تھا جسے ایوانِ نمائندگان میں پیش کر دیا گیا ہے۔ اس بل میں پولیس کو حاصل استثنیٰ محدود کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ ڈیموکریٹ ارکان کے مجوزہ بل میں ملزمان کی گردن گھٹنے سے دبانے پر پابندی اور ایک نیشنل ڈیٹابیس قائم کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے جس میں پولیس افسران کے مِس کنڈکٹ کا ریکارڈ رکھا جا سکے گا۔ اس بل پر آئندہ ہفتے ووٹنگ متوقع ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹ جماعت کی اکثریت ہے جب کہ امریکی سینیٹ میں ری پبلکن جماعت کے اراکین اکثریت میں ہیں۔

”میں اس درد سے تھک چکا ہوں جو ہر دم کسی نئے افریقی امریکی کی موت کی خبر سے محسوس ہوتا ہے۔” یہ الفاظ ہیں فلونیز فلائیڈ کے جو انہوں نے امریکی کانگریس کی جوڈیشیری کمیٹی کی بدھ کے روز ہونے والی سماعت کے دوران کہے۔
وہ بھائی ہیں اس سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کے جو امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر منیاپولس میں پولیس کی جانب سے گرفتار کرنے کی کارروائی میں ہلاک ہو گیا تھا۔ اس کی موت کی وڈیو منظرِعام پر آتے ہی پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے جن میں دیگر مطالبات کے ساتھ یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ پولیس کے رویے میں تبدیلی ضروری ہے۔ پولیس میں اصلاحات لازم ہیں۔ بعض مقامات پر پولیس کا بجٹ بند کر دینے جبکہ بعض جگہ پولیس کے محکمے ہی کو ختم کر دینے کے نعرے بھی بلند ہوئے، جس کی بعد منیاپولس کی سٹی کونسل نے اپنے شہر میں پولیس کا محکمہ ہی ختم کر دینے کی منظوری دی۔ اگرچہ ملک میں اس بارے میں مختلف خیالات پائے جاتے ہیں آیا پولیس کا بجٹ کم کیا جائے، مگر اکثریت چاہتی ہے کہ پولیس میں اصلاحات کی جائیں؛ اور ظاہر ہے ایسا قانون سازی کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔
مگر امریکہ میں یہ سال انتخابات کا سال ہے اور دونوں پارٹیوں میں سے کوئی بھی کسی سیاسی دھچکے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ طلعت رشید ایک عرصے سے ریپبلکن پارٹی سے وابستہ ہیں اور اس کی متعدد کمیٹیوں کے نہ صرف عہدیدار رہ چکے ہیں، بلکہ اس وقت شکاگو کی ول کاؤنٹی میں بولنگ بروکس کے پولیس کمشنر بھی ہیں۔ پولیس میں اصلاحات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں پارٹیوں کو مل کر کام کرنا ہو گا، کیونکہ دونوں کو احساس ہے کہ پولیس کا محکمہ مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ نہی پولیس کے بجٹ میں کمی کا فائدہ ہو گا، کیونکہ ان کے خیال میں، پولیس کی امریکہ میں جس قدر ضرورت ہے اور جتنے گوں نا گوں فرائض پولیس انجام دیتی ہے، ان کو دیکھتے ہوئے یہ ملک پولیس کی افرادی قوت یا اس کے وسائل میں کمی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
علی اکبر مرزا نیویارک میں ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ہیں اور سابق امیدوار بھی رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ریپبلکن بل کی تفصیلات ابھی سامنے آنا باقی ہے، تاہم سینیٹ میں ریبپلکنز کی اکثریت اور ایک ریپبلکن صدر کی موجودگی میں انہیں یہ توقع نہیں تھی کہ ڈیموکریٹس کا کوئی بل کامیاب ہو جائے گا۔ لیکن، وہ کہتے ہیں کہ اگر دونوں جانب سے کوششوں کی صورت میں عوام کی بہتری کا کوئی منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ اچھا ہو گا۔
پولیس کمشنر طلعت رشید کہتے ہیں کہ ریپبلکنز نے اپنی جو تجاویز تیار کی ہیں انہیں جسٹس ایکٹ کا نام دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریپبلکن پولیس کی ٹریننگ پر بہت زور دے رہے ہیں۔ اور کوالیفائیڈ امیونیٹی کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت پولیس کو فرائض کی انجام دہی کے دوران کسی بھی ناخوشگوار واقعے یا جرم کے خلاف استثنیٰ حاصل ہے۔
علی اکبر مرزا نے کہا کہ پولیس کو حاصل استثنیٰ کو ختم ہونا چاہئے، کیونکہ پولیس کی یونئینز اور استثنیٰ پولیس والوں کو ہر سزا سے بچا لیتے ہیں۔
علی اکبر مرزا نےکہا کہ اگرچہ عام طور پر کہا جا رہا ہے کہ پولیس نسل کی بنیاد پر امتیاز برتتی ہے، مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا اور بعض موقعوں پر تو سیاہ فام پولیس والے بھی ایسی کارروائی میں شامل دیکھے گئے ہیں، جیسا کہ جارج فلائیڈ کے معاملے میں ایک پولیس افسر سیاہ فام، ایک ایشین اور دو سفید فام تھے۔

تاہم ،انہوں نے کہا کہ پولیس کو کمیونیٹی کی نمائندگی کرنی چاہئے اور اس کا حصہ ہو نا چاہئے۔ پولیس میں ریشئیل پروفائلنگ یا نسل کی بنیاد پر امتیاز کے بارے میں ریپبلکن طلعت رشید نے کہا کہ یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ مگر اس کو ختم نہیں تو کم ضرور ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات ریشیئل پروفائلنگ کی شکایات غلط بھی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریپبلکن دو کمشن بنا رہے ہیں ایک جسٹس ڈیپارٹمنٹ اور ایک کمیونیٹی کے جائزے کیلئے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے علی اکبر مرزا نے کہا کہ پولیس میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ اس میں نفسیاتی اور معاشرتی ماہرین کی شمولیت کی بھی ضرورت ہے جو اسے ایک بہتر ادارہ بنا سکیں۔
علی اکبر مرزا کہتے ہیں کہ اب ریپبلکنز امریکی افریقیوں کو نظر انداز نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی ڈیمو کریٹس انہیں فارگرانٹڈ لیں گے۔
کانگریس کی عدالتی کمیٹی میں جارج فلائیڈ کے بھائی کے الفاظ اب بھی گونج رہے ہیں کہ میرے بھائی نے بار بار مدد کیلئے پکارا۔ اس نے بار بار کہا کہ اسے سانس نہیں آرہی۔ کسی نے اس کی بات نہیں سنی۔ اب وہ تو جان سے گیا۔ اب تو بلیک امیریکنز کی بات سن لیجئے۔

یاد رہے کہ 25 مئی کو جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد سے امریکہ بھر میں مظاہرے جاری ہیں اور مظاہرین پولیس اصلاحات اور پولیس کی فنڈنگ کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کے ڈیموکریٹ ارکان بھی انہی مطالبات کے پیشِ نظر پولیس اصلاحات کے مسودے پر کام کر رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب چوں کہ وائٹ ہاؤس میں بھی پولیس اصلاحات کے مسودے پر کام جاری ہے، لہٰذا ڈیموکریٹ جماعت کو اپنا بل سینیٹ سے منظور کرانے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔

دوسری جانب امریکہ کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ بدھ کو بھی جاری رہا۔ بوسٹن، آک لینڈ اور کئی دیگر شہروں میں لوگوں کی بڑی تعداد نے مارچ کیا اور محکمۂ پولیس کی فنڈنگ کم کرنے کا مطالبہ کیا۔

امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں بھی مظاہرین کی بڑی تعداد جمع ہوئی اور پرامن احتجاج کیا۔ اس سے قبل مظاہروں کے ابتدائی دنوں میں سیاٹل کے کئی علاقے پولیس اور مظاہرین میں جھڑپوں کی وجہ سے میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتے رہے تھے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو سیاٹل کے مظاہرین سے متعلق ایک ٹوئٹ کی اور انہیں مقامی دہشت گرد قرار دے دیا۔

Domestic Terrorists have taken over Seattle, run by Radical Left Democrats, of course. LAW & ORDER!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) June 11, 2020

صدر ٹرمپ نے شہر کی انتظامیہ پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین سے اپنا شہر واپس لیں۔ اگر آپ یہ نہیں کریں گے تو میں کروں گا۔ یہ کوئی کھیل نہیں ہے۔

Radical Left Governor @JayInslee and the Mayor of Seattle are being taunted and played at a level that our great Country has never seen before. Take back your city NOW. If you don’t do it, I will. This is not a game. These ugly Anarchists must be stooped IMMEDIATELY. MOVE FAST!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) June 11, 2020

جواباً سیاٹل کی میئر جینی ڈرکن نے بھی ٹوئٹ کی اور صدر ٹرمپ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں محفوظ رہنے دیں اور اپنے بنکر میں واپس چلے جائیں۔

Make us all safe. Go back to your bunker. #BlackLivesMatter https://t.co/H3TXduhlY4
— Mayor Jenny Durkan (@MayorJenny) June 11, 2020
یاد رہے کہ 25 مئی کو جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد سے امریکہ بھر میں مظاہرے جاری ہیں اور مظاہرین پولیس اصلاحات اور پولیس کی فنڈنگ کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

امریکی کانگریس کے ڈیموکریٹ ارکان بھی انہی مطالبات کے پیشِ نظر پولیس اصلاحات کے مسودے پر کام کر رہے ہیں۔

پیر کو ڈیموکریٹس کی جانب سے پولیس اصلاحات کے معاملے پر ایک مجوزہ بل سامنے آیا تھا جسے ایوانِ نمائندگان میں پیش کر دیا گیا ہے۔ اس بل میں پولیس کو حاصل استثنیٰ محدود کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔

ڈیموکریٹ ارکان کے مجوزہ بل میں ملزمان کی گردن گھٹنے سے دبانے پر پابندی اور ایک نیشنل ڈیٹابیس قائم کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے جس میں پولیس افسران کے مِس کنڈکٹ کا ریکارڈ رکھا جا سکے گا۔ اس بل پر آئندہ ہفتے ووٹنگ متوقع ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹ جماعت کی اکثریت ہے جب کہ امریکی سینیٹ میں ری پبلکن جماعت کے اراکین اکثریت میں ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب چوں کہ وائٹ ہاؤس میں بھی پولیس اصلاحات کے مسودے پر کام جاری ہے، لہٰذا ڈیموکریٹ جماعت کو اپنا بل سینیٹ سے منظور کرانے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔

دوسری جانب امریکہ کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ بدھ کو بھی جاری رہا۔ بوسٹن، آک لینڈ اور کئی دیگر شہروں میں لوگوں کی بڑی تعداد نے مارچ کیا اور محکمۂ پولیس کی فنڈنگ کم کرنے کا مطالبہ کیا۔

امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں بھی مظاہرین کی بڑی تعداد جمع ہوئی اور پرامن احتجاج کیا۔ اس سے قبل مظاہروں کے ابتدائی دنوں میں سیاٹل کے کئی علاقے پولیس اور مظاہرین میں جھڑپوں کی وجہ سے میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتے رہے تھے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو سیاٹل کے مظاہرین سے متعلق ایک ٹوئٹ کی اور انہیں مقامی دہشت گرد قرار دے دیا۔

Domestic Terrorists have taken over Seattle, run by Radical Left Democrats, of course. LAW & ORDER!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) June 11, 2020

صدر ٹرمپ نے شہر کی انتظامیہ پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین سے اپنا شہر واپس لیں۔ اگر آپ یہ نہیں کریں گے تو میں کروں گا۔ یہ کوئی کھیل نہیں ہے۔

Radical Left Governor @JayInslee and the Mayor of Seattle are being taunted and played at a level that our great Country has never seen before. Take back your city NOW. If you don’t do it, I will. This is not a game. These ugly Anarchists must be stooped IMMEDIATELY. MOVE FAST!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) June 11, 2020

جواباً سیاٹل کی میئر جینی ڈرکن نے بھی ٹوئٹ کی اور صدر ٹرمپ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں محفوظ رہنے دیں اور اپنے بنکر میں واپس چلے جائیں۔

Make us all safe. Go back to your bunker. #BlackLivesMatter https://t.co/H3TXduhlY4
— Mayo

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website