counter easy hit

بی بی شہید کی قربانی نے جمہوریت کو دوام بخشا، ان کا قائم کیا ہوا میثاق جمہوریت ان کے قاتلوں کے خلاف بڑے آپریشن کروانے میں مدددگار ثابت ہوا

BE NAZIR, BHUTTO SHAHEED'S,, SACRIFICE, WORKED, FOR,, THE, DEMOCRACY, OF, THE, COUNTRY

BE NAZIR, BHUTTO SHAHEED

’’تم کتنے بھٹو ما رو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا؛ کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے؛ جئے بھٹو صدا جئے،‘‘ یہ تما م نعرے صرف نعرے ہیں یا پھر کوئی حقیقت یا فلسفہ؟ یہ جاننے کےلیے میں تا ریخ کے اوراق میں گم ہوگیا۔ جیسے ہی میں نے شہداء کی تاریخ کا پہلا ورق پلٹا، مجھے سقراط، منصور، سرمد، میکو، الانڈے، چی گویرا، سی کا رنو، جما ل عبدالنا صر اور عمر مختار کے نام کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کا نام بھی جگمگاتا نظر آیا۔ یہ سب بڑے لو گ تھے جنہوں نے اپنے اصولوں اور مظلوموں لا چا روں کےلیے سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے کو ترجیح دی او ر ہمیشہ کےلیے امر ہوگئے۔ مگر جہاں تک بھٹو خاندان کی بات ہے تو یہاں تنہا ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی ہی نہیں بلکہ ایک پورے خاندان کی شہادت شامل ہے۔

جہاں 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی میں جام شہادت نوش کیا وہیں محترمہ بینظیربھٹو 27 دسمبر 2007 کو شہید کی گئیں۔ اس سے قبل ایک طرف 18 جولائی 1985 کو شاہنواز بھٹو کو زہر دے کر قتل کیا گیا تو دوسری طرف میر مرتضیٰ بھٹو کو 20 ستمبر 1996 کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو جو صدمات جھیل جھیل کر بے حال ہو چکی تھیں، انہوں نے 23 اکتوبر 2011 میں دبئی کے ایک اسپتال میں زندگی کی بازی ہار دی۔

بھٹو خاندان کے ان تمام شہیدوں کی داستانیں الگ ہیں، مگر ایک داستان جسے ہم جمہوریت کی داستان کہتے ہیں وہ ان سب میں قدرے مشترک ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں اگر ذوالفقار علی بھٹو کی تاریخ کا جائزہ لیا جا ئے تو انہوں نے اصولوں کی خاطر سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے کو ترجیح دے کر پھانسی کا پھندا چوما۔ اس کے ٹھیک 38 سال بعد ان کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو جنہیں پاکستان میں انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ حکومت کے منع کرنے اور دھمکیاں ملنے کے باوجود نہ صرف پاکستان آئیں بلکہ عوام کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیا۔ 27 دسمبر 2017 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا جسے تاحیات فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔

اس روز بینظیر بھٹو جو کہ ایک معتبر سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ وہ 1988 سے 1990اور 1993 سے 1996 تک وزیر اعظم رہیں اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کےلیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ جیسے ہی جلسہ گاہ سے باہر آئیں اور ظالم قوتوں کا نشانہ بن گئیں۔ اس دن جیسے کے ملک کے اندر ایک زلزلہ برپا ہو گیا ہو۔ چاروں صوبوں میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جانے لگی جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اب پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے، مگر جب سابق صدر آصف علی زرداری اپنے بچوں بلاول بھٹو زرداری، بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کے ساتھ پاکستان پہنچے تو انہوں نے اپنا غم بھلا کر عوام کا غم باٹنا شروع کر دیا۔ ایسے میں آصف علی زرداری نے ٹوٹتے پاکستان کو بچانے کےلیے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ملک کو بچالیا جس کے بعد ملک کے اندر جمہوریت بحال ہوئی۔ آصف علی زرداری نے صدارتی منصب سنبھال کر آئینی مدت پورا کر نے والے پہلے صدرِ پاکستان کا اعزاز حاصل کیا، لیکن ان کا یہ اعزاز اور ملک میں جمہوریت کی بحالی بینظیر بھٹو کی قربانی کے مرحون منت تھی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی معصومیت ان کے دشمنوں اور قاتلوں کو لے بیٹھی ،ان کا کیس اب بھی عدالت میں چل رہا ہے مگر قدرت نے انصاف کردیا ہے ۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجی آپریشن میثاق جمہوریت کی تحت پارلیمنٹ نے منظور کیا اور وہ کامیاب رہا وہی سوات آپریشن جسے کرنے میں مشرف کی طاقتور حکومت ہچکچاتی رہی وہی سوات آپریشن جنرل کیانی جیسے مصلحت پسند آرمی چیف نے حکومت اور پارلیمنٹ کی مدد سے نہائت کامیابی سے انجام دیا اور پھر بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو وزیرستان جیسے مشکل ترین محاذ پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارا گیا۔ ایبٹ آباد آپریشن میں محترمہ شہید کے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ مگر اسامہ بن لادن کی موت آج تک ایک معمہ ہے ۔ اگر محترمہ شہید کے قاتلوں کا تعیین نہیں کیا گیا تو بھی ان کے نام نہاد دشمن بھی تاریک راہوں میں مارے جاچکے ہیں اور پاکستان میں امن قائم ہوچکا ہے اور جمہوریت کے دشمن خوف کا شکار ہیں اور جمہوریت کی پتلی حالت کے باوجود سسٹم کو درہم برہم کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ یہی بی بی شہید چاہتی تھیں اور یہی آج پاکستان میں ان کی قربانی کے صدقے اور جمہوریت پنپ رہی ہے۔ ان کے شوہر پر خفیہ طاقتیں الزامات عائد کرتی آئی ہیں مگر محلاتی سازشوں کی طرح یہ بھی ایک حقائق سے توجہ ہٹانے کی سازش ہے جو اس ملک میں کامیابی کے ساتھ اپنے راستے پر جاری ہےمگر یہ بات طے ہے کہ ناحق خون اپنا رنگ دکھا کر رہتا ہے اور مظلوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے اور وہ اپنی بے آواز لاٹھی کے ذریعے مظلوموں کے دشمنوں کو ایسے ہی سزا دیتا ہے

اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں مفاہمتی سیاست اور جمہوریت کے ٹریک پر چلتے رہنے کیلئے سب سے بڑا کام محترمہ کے شوہر جناب آصف علی زرداری نے انجام دیا ہے اور وہی اپنی اہلیہ اور محترمہ شہید کے میثاق جمہوریت کو صحیح معنوں میں نافذ کرنے کیلئے اپنی عزت نفس تک کو قربان کر تے آرہے ہیں اور ہمیشہ مفاہمت کے ذریعے جمہوری قوتوں کو ایک کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھmoarifatkazmi@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website