counter easy hit

بانو آپا

بیٹی روشین عاقب کے نئے گھر کی مبارکباد دینے کے لیے میں اور میری بیگم اسلام آباد میں تھے سہ پہر کے وقت فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف سے خاور نعیم ہاشمی پوچھ رہے تھے کہ بانو آپا کے بارے میں جو خبر ملی ہے اس کی تصدیق کہاں سے ہو سکتی ہے۔ میں نے انھیں آپا کے گھر کا فون نمبر تو دے دیا لیکن کتنی دیر تک وقت جیسے ٹھہر گیا اور دماغ سن سا ہو گیا۔

بیماری میں شدت کے باعث گزشتہ چند دنوں سے وہ اسپتال میں تھیں لیکن قریبی لوگ جانتے ہیں کہ تقریباً دو برس سے ان کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی اور ان کی گفتگو اور خیالات میں سے وہ روانی اور یکسوئی بھی مسلسل روبہ زوال تھی جو ان کی زندگی اور محبت سے بھرپور شخصیت کے نمایاں ترین پہلو تھے کچھ ہی دیر بعد مختلف ٹی وی چینلز سے ان کے ادب اور شخصیت کے بارے میں تاثرات ریکارڈ کرانے کا سلسلہ شروع ہو گیا جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔

اس رات گھر میں روشین اور عاقب کے حج کے ساتھیوں کی ایک پہلے سے طے شدہ دعوت بھی تھی سو کچھ وقت مہمانوں سے رسمی گفتگو میں کٹ گیا اور یوں دل و دماغ میں یادوں کا ہجوم سا تو جمع ہوتا چلا گیا مگر اس غم اور صدمے کی شدت اور گہرائی کا صحیح احساس اس وقت ہوا جب میں سونے کے لیے اپنے کمرے میں آیا تقریباً چالیس برس پر پھیلی ہوئی یادیں جیسے قطار باندھ کر سامنے آ کھڑی ہوئیں لیکن بہت غور کرنے کے بعد بھی یہ یاد نہ آیا کہ آپا سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی۔ البتہ اتنا یاد ہے کہ موضوع گفتگو وہ ’’جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے‘‘ والا گیت تھا جو میں نے اشفاق صاحب کی مشہور زمانہ ڈرامہ سیریز ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ کے لیے لکھا تھا آپا نے جس محبت اور شفقت سے اس کی ایک ایک لائن کو سراہا اس کا نقش میرے دل پر آج تک قائم ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے سے تمام چھوٹوں کے کام کی بڑھا چڑھا کر اور کھل کر تعریف کرنا ان کی فطرت کا مستقل جزو تھا۔

اس ملاقات کے آغاز میں وہ بانو قدسیہ تھیں لیکن اس کے بعد سے آج تک بلکہ ہمیشہ کے لیے وہ میری بھی بانو آپا بن گئیں۔ وہ بلا کی مہمان نواز تھیں اور کسی مہمان کو کھانا کھلائے بغیر رخصت کرنا انھوں نے سیکھا ہی نہ تھا۔ اس زمانے میں میرا ڈرامہ اپنے لڑکپن اور شاعری جوانی کے ابتدائی دور سے گزر رہے تھے ایسے میں ان سے ملنا میرے لیے کسی ٹانک سے کم نہیں تھا کہ دونوں میاں بیوی اس محبت اور شفقت سے مجھے تھپکی دیتے تھے جیسے کوئی اپنی اولاد کی ترقی دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔

احمد ندیم قاسمی صاحب کے بعد میری سب سے زیادہ حوصلہ افزائی اسی گھر میں ہوئی۔ کچھ دنوں بعد ان کی ایک ڈرامہ سیریز ’’ضرب جمع تقسیم‘‘ کے نام سے شروع ہوئی تو زندگی میں پہلی اور آخری بار انھوں نے مجھ سے کوئی باقاعدہ فرمائش کی انھوں نے ایک مصرعہ ’’پیا نام کا دیا جلا ہے ساری رات‘‘ مجھے سنایا اور کہا کہ اس تھیم پر اس کے لیے ایک گیت لکھ دو جسے میں ٹائٹل سونگ کے طور پر شامل کرنا چاہتی ہوں۔

ڈرامہ سیریل ’’وارث‘‘ عوام کی سطح پر تو بے حد مقبول ہوئی لیکن اس دور کے کئی عمر اور تجربے میں سینئر ڈرامہ نگار خوامخواہ مجھ سے خار کھانے لگے جس سے میرا دل بہت آزردہ ہوا، ایسے میں بانو آپا نے اپنے مخصوص آسان اور دل میں اتر جانے والے خوب صورت انداز میں جس طرح سے مجھے حوصلہ دیا اور اس کی نفسیاتی توجیہہ کی وہ صرف ایسا شخص ہی کر سکتا ہے جس کا دل اندر سے بڑا ہو اور جو آپ سے سچ مچ محبت کرتا ہو۔

اسی کی دہائی کے وسط میں جہاں انھوں نے پی ٹی وی کے لیے چند بہترین آرٹ فلموں جیسے طویل دورانیے کے ڈرامے لکھے وہاں وہ ایک شدید بیماری کے دور سے بھی گزریں جو خود ایک خاصے طویل دورانیے پر محیط تھا۔ میں نے اشفاق صاحب کے چہرے پر جو پریشانی ان دنوں میں دیکھی وہ اس تمام پروپیگنڈے کے یکسر برعکس تھی جس میں انھیں گھر میں ایک سخت گیر اور میل شاونسٹ پٹھان شوہر کے روپ میں پیش کیا جاتا تھا جب کہ بانو آپا کے چہرے پر ہمیشہ ایک ایسی طمانیت بھری مسکراہٹ نظر آتی جیسے وہ دنیا کی سب سے خوش نصیب عورت ہوں۔

دنیاوی خوش حالی اور ادبی حوالے سے اتنے بلند مقام تک پہنچنے کے باوجود ان کی طبیعت کی حلمی اور شفقت عام مشاہدے کے برخلاف گھٹنے کے بجائے بڑھتی ہی چلی گئی وہ ان منتخب لوگوں میں سے تھیں۔ جن کو خدمت کرنے میں حقیقی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ تصوف کے جس رویے نے آگے چل کر قدرت اللہ شہاب‘ ممتاز مفتی‘ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کو ایک گروپ کی شکل میں شہرت دی۔ غور سے دیکھا جائے تو اس رویے کے ابتدائی نقوش زمانی اعتبار سے سب سے پہلے بانو آپا ہی کی تحریروں میں نظر آتے ہیں اور یہ ’’راجہ گدھ‘‘ کی تخلیق سے بھی بہت پہلے کی بات ہے وہ کہانی کو قدرے پھیلا کر لکھنے کی شوقین تھیں کردار نگاری بالخصوص عورتوں کے نفسیاتی مسائل اور رویوں کی بھرپور عکاسی ان کی تحریروں کی مرکزی خوبی تھی مگر جب کبھی وہ بات کو سمیٹنے کی طرف آتی تھیں تو چند ہی مکالموں میں دریا کو کوزے میں بند کردیتی تھیں۔

ڈرامے کا نام تو مجھے یاد نہیں رہا لیکن اس کا ایک مکالمہ کسی عظیم مصور کے ماسٹر سٹروک کی طرح آج تک میرے دل پر نقش ہے سنیں کچھ یوں تھا کہ بیٹی اپنے شوہر کی شوقین طبیعت سے ناراض ہو کر اپنا گھر چھوڑ کر ماں کے گھر آ جاتی ہے اور بار بار یہ مثال دیتی ہے کہ خود اس کے باپ نے کبھی دوسری عورت کی طرف نظر اٹھا کے بھی نہیں دیکھا۔ اس کی ماں سمجھاتی ہے کہ یہ بات درست نہیں جب وہ چھوٹی سی تھی۔ ان دنوں اس کا باپ بھی کچھ دیر کے لیے بھٹک گیا تھا اور پھر اپنی اس مختصر دورانیے کی ’’سوکن‘‘ کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہے ’’کم بخت اتنی حسین تھی کہ اسے دیکھ کر مرد تو مرد عورتوں کا سانس بھی رکنے لگتا تھا‘‘۔

ایوب خاور کے ساتھ مل کر پروگرام بنا کہ بانو آپا کی ایک مشہور کہانی ’’امر بیل‘‘ کی ڈرامائی تشکیل کی جائے۔ میں نے کہا کہ کہانی غیر معمولی بھی ہے اور موضوع کے اعتبار سے نازک اور خطرناک بھی، سو اسے پی ٹی وی جیسے فیملی چینل پر ڈرامے کی شکل میں قابل قبول بنانے کے لیے اس میں کئی تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے بانو آپا سے ان تبدیلیوں کی اجازت چاہی جو انھوں نے نہ صرف بخوشی دے دی بلکہ یہ بھی کہا کہ مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے جو تبدیلی مناسب سمجھو کر لو ہم نے اس رعایت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کہانی کے ابتدائی چھ صفحات کو ڈرامے کے پلاٹ سے ہی خارج کر دیا۔ ڈرامہ بہت ہٹ ہوا مگر اس کی جس قدر تعریف بانو آپا نے کی اس کا کوئی حساب ہی نہیں۔ بڑے اور مشہور لکھنے والوں میں اس نوع کی شفقت اور وسیع الظرفی کم از مجھے تو بانو آپا کے کسی ہم عصر میں نظر نہیں آئی۔

اشفاق صاحب بتاتے ہیں کہ جب وہ ان کے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور کی ایم اے اردو کی کلاس میں داخل ہوئیں تو انگلش میڈیم میں پڑھنے کی وجہ سے ان کی اردو مضحکہ خیز حد تک کمزور تھی۔ ان دنوں وہ قدسیہ چٹھہ کہلاتی تھیں۔ اب یہ ان کی محنت اور غیرمعمولی صلاحیت کا کمال ہے کہ وہ نہ صرف اس کلاس میں سب سے آگے نکل گئیں بلکہ ادب کے میدان میں بھی تقریباً ساٹھ برس تک لکھنے والوں کی صف اول میں رہیں۔

ان کی رسم قل کی مجلس میں ’’داستان سرائے‘‘ کی تعمیر سے بھی قبل کے ان کے خاندانی دوست ریاض محمود نے ان کی محبوب اور مشفق شخصیت کے بارے میں بہت سی نئی باتیں بتائیں جن سے اس یقین کو مزید تقویت ملی کہ وہ اعلیٰ ترین روحانی مراتب پر فائز تھیں۔ واپسی پر کچھ دیر ان کے گھر کی فضا میں سانس لیا تو اس حقیقت سے آنکھیں ملانا مشکل ہو گیا کہ اب اس سرائے کے دونوں داستان گو اس کو چھوڑ کر خود ہی ایک ایسی داستان کا حصہ بن گئے ہیں جس کا ذکر اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا کہ اس کی تاریخ میں لکھاریوں کا ایسا جوڑا نہ ان سے پہلے کوئی ہوا ہے اور نہ شاید آیندہ کبھی ہو سکے گا۔

بانو آپا‘ رب کریم آپ کی روح پر سدا ویسی ہی شفقت کا سایا رکھے جو آپ کی ذات سے ہم سب کو میسر اور مہیا رہا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website