counter easy hit

بلوچستان کی قیمتی معدنیات کے مقامی مالکان کا استحصال کب تک؟

Balochistan Precious Metals

Balochistan Precious Metals

تحریر: شبیر احمد لہڑی
بلوچستان کے حوالے سے مرکزی حکمرانوں کا ہمیشہ یہ وطیرہ رہاہے کہ جب وہ نئے نئے اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں تو مذکورہ صوبہ کے ساتھ ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے کی بھرپور یقین دہانی اور مستقبل میں یہاں کی ترقی وخوشحالی کے لیئے ترجیحی اقدامات کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، اور پھر حکمرانی کی بھول بھلیوں میں یہ ساری باتیں اس طرح ہوامیں اڑجاتی ہیں کہ گویاں کبھی یہ تذکرہ ہی نہ ہواہو۔

چونکہ بلوچستان کواللہ تعالیٰ نے قیمتی قدرتی معدنیات سے نوازاہے ،جن پرہمارے حکمرانوں سمیت عالمی قوتوں کی نظریںہیں ،اس لیئے ان قدرتی معدنیات کے حصول کی خاطراہلیان صوبہ کومزیدسہانے خواب دکھائے جارہے ہیں ،اس حوالے سے وشایدفاق کی جانب سے کوئی ایسی پالیسی بھی مرتب کی گئی کہ اگر ملک کے کسی بھی حصے سے قیمتی معدنیات نکالی جائیں گی تواس سے حاصل ہونے والی آمدنی کاپانچواں حصہ اس علاقہ کی ترقی اوروہاں کی آبادی کے فلاح وبہبودپرخرچ کیاجائے گا،تاکہ مقامی آبادی کوبھی اس ترقی و خوشحالی کا باقاعدہ حصہ دار بنایا جا سکے۔

اگر اس پالیسی پرمن وعن اورایمانداری سے عملدرآمد ہوتا تو یقینا وہاں کے مقامی کسی حد تک مستفید ہو سکتے ،ا س پالیسی پر عمل سے متعلق ملک کے باقی حصوںکے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن بلوچستان میں صرف کاغذوں تک محدود ہو چکی ہے ، جبکہ یہاں سرمایہ کاری کرنے والے کمپنیاں عملاً اس کے برعکس اپنی من مانیاں ہی کرتی نظرآتی ہیں اورصورتحال یہ ہے کہ بلوچستان میں اس وقت جتنے بھی میگا پروجیکٹس ہیں یا جہاں کہیں سے قیمتی معدنیات حاصل کی جارہی ہے وہاں کے مقامی آبادی کو یکسر نظرانداز کی کئی ہے اوران کے حقوق و فلاح و بہبود پرکوئی توجہ نہیں دیاجارہا۔سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے مقامی آبادی کے اجتماعی مفادات کو پسِ پُشت ڈال کر ان کااستحصال کرنااب روایت بن چکی ہے ۔فلاح و بہبود پرتوجہ دینا تو دَرکناِر، ان کمپنیوں میں نچلی سطح کے ملازمتوں پر بھی مقامی لوگوں کو گوارانہیںکیاجا رہا۔

Khuzdar

Khuzdar

ایک مثال ضلع خضدار میں فیروزآباد کے مقام پر بیرائیٹ پروجیکٹ ہے ،جسے بولان مائننگ انٹر پرائزز نامی کمپنی چلارہی ہے لیکن چالیس سال گزرجانے کے باوجود مذکورہ کمپنی کو یونین کونسل فیروزآبادمیں کوئی قابل ذکرترقیاتی منصوبہ شروع کرنے یالوگوں کی راحت رسانی کے لیئے کوئی فلاحی ورفاحی کام کرنے کی توفیق نہیں ملی اوریوں بیرائیٹ پروجیکٹ مائینز کے قریب ترین مقامی آبادی ابھی تک اپنے آئینی و قانونی حقوق سے یکسر محروم کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ اس کے برعکس مذکورہ علاقہ کی قیمتی معدنیات پرقبضہ جماکر کثیرسرمایہ کمانے والی کمپنی کے معمولی آفیسران بھی شاہانہ زندگی گزاررہے ہیں۔

مقامی افراد کے کہنے کے مطابق بولان مائننگ انٹرپرائزز کمپنی بیرائیٹ پروجیکٹ پر کام شروع کرنے سے پہلے 1974ء میں جب ان کولیزدی گئی باقاعدہ ایک معاہدہ کر چکی ہے جوحاصل ہونے والی آمدنی سے علاقہ میں اجتماعی فلاح و بہبود کے منصوبوں ،مقامی افراد کو ملازمت کی فراہمی اور مقای قبائل کی جانب سے کمپنی کی مفادات ووسائل کے تحفظ سے متعلق ہے ،ا س معاہدہ کے روسے بولان مائیننگ کمپنی آئین پاکستان کے مطابق کمپنی قواعد کے تحت باقاعدہ ایک ویلفیئر فنڈ قائم کرکے اپنی آمدنی کا پانچ فیصدحصہ فیروزآ باد کے مقامی آبادی کے فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے، ملازمتوں کے حوالے سے مزدوری اور مائینز پرچھوٹے پیمانے کے ٹھیکے دینے میں مقامی افراد کو اولین ترجیح دینے کے پابندہوگی۔

جبکہ فیروز آباد کے مقامی لوگ اور قبائل کمپنی کی مشینری اور مفادات کے تحفظ کے زمہ دارہوںگے اس ضمن میں کمپنی انہیں سیکورٹی فراہم کرنے کے مدمیں معاوضہ ادا کرے گی کمپنی مقامی آبادی کو باقاعدہ رائلٹی دینے کے بھی پابند ہو گی۔ اب مذکورہ معاہدہ پر عملدرآمد کے پہلو پر نظرڈالی جائے تو نتیجہ یک طرفہ سامنے آجاتاہے ، مقامی آبادی اپنے جان پر کھیل کرہرحوالے سے کمپنی کی مفادات اوران کی مشینری وغیرہ کامکمل تحفظ کیاہے اور گزرے کٹھن و نا مصائب حالات کے باوجود بھی انہوں نے مذکوہ کمپنی کوکسی قسم کی پریشانی کاشکارنہیں ہونے دیا،یوں فیروزآباد کے مقامی محب وطن امن پسند مکینوں نے معاہدہ کی یکطرفہ پاسداری کرتے ہوئے اپنے وعدے کی تولاج رکھ چکے ہیں لیکن کمپنی تاحال اپنی زمہ داریوں سے دانستہ غافل بن کر عملاً معاہدہ کی مسلسل خلاف ورزی کاارتکاب کررہی ہے۔

Barite Mines

Barite Mines

فیروزآباد میں وہ پہاڑی سلسلہ جہاں بیرائٹ مائنز واقع ہے ،گنگو قبیلہ کی ملکیت اوران کے نام سے منسوب ہے ،لیکن خضدار یا فیروزآبادکی دوسری آبادی تواپنی جگہ مذکورہ قبیلہ اپنی ملکیتی وسائل سے استفادہ سے محروم شکوہ کناںہے ۔ حالانکہ کمپنی کی ویب سائیٹ پر مذکورہ بیرائیٹ مائنزگنگو بیرائیٹ سے موسوم ہے جواس قبیلہ کے ملکیت ہونے کی موثردلیل ہے ،اور شنید میں یہ بھی ہے کہ یہاں سے نکلنے والے مال کی اسی نام سے انٹر نیشنل مارکیٹ میں خرید و فروخت ہوتی ہے۔ لیکن گنگو قبیلہ کے عام غریب افرادآج بھی اس معدنیات کی ثمرات سے محروم غربت اورافلاس کی تصویربنے ہوئے ہیں۔

ان کی بستی میں آب نوشی ،صحت ،تعلیم سمیت زندگی کی تمام تربنیادی سہولیات ناپیدہیں ،کمپنی کی جانب سے ان کی حالت زارکی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی اورنہ ہی ان کی راحت رسانی کے لیئے کوئی قابل ذکر عملی اقدام اٹھایاگیاہے ، ہوناتویہ چاہیے تھاکہ وہاں فراہمی آب نوشی ،تعلیم اور علاج معالجہ کے حوالے سے منصوبے مکمل کئے جاتے ،مقامیطالب علموں کوحصول تعلیم میں معاونت فراہم کرکے انہیں اسکالرشپ دیاجاتا تاکہ مقامی افرادکوترقی کے عمل میں شریک کرنے کی جو پالیسی ہے اس کی پاسداری ہوجاتی۔

مذکورہ کمپنی کے اپنے شائع کردہ اعداد و شمار کاجائزہ لیاجائے تواس کے مطابق سالانہ پیداوار ی صلاحیت جدید مشینری کے تنصیب کے بعد ایک لاکھ ٹن سے بھی زائدبتائی گئی ہے،اسی تناسب سے لوکل مارکیٹ کے ریٹ کے مطابق سالانہ آمدنی تقریباً ڈھائی ارب روپے سے بھی زائد بنتی ہے۔اوراگر مقامی آبادی کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کے مطابق قانونی وآئینی طریقے سے کل آمدنی کاپانچواں حصہ علاقہ کی ترقی ومقامی لوگوں کے فلاح وبہبودکے لیئے مختص کیاجاتا تو یہ رقم بھی سالانہ تقریبا پندرہ کروڑ روپے کے لگ بھگ بن جاتی اوریوں کمپنی کے قیام سے آج تک کے مجموعی عرصہ کی رقم سے صرف فیروزآباد نہیں بلکہ ضلع خضدار کاہی نقشہ بدل جاتا۔

واقفان حال بتاتے ہیں کہ مذکورہ کمپنی کے کوئٹہ ،کراچی اور اسلام آباد میں جودفاترہیں ان میں سینکڑوں کی تعداد میں ملازمین کام کررہے ہیں ۔لیکن ان میں اعلیٰ آفیسر کے عہدے پربیٹھے کسی ایک شخص کاتعلق فیروزآباد یا خضدار شہر سے نہیں ہے جبکہ ننانوے فیصد ملازمین غیر بلوچستانی ہیں ۔ملازمتوں میں مقامی آبادی کو ترجیح دینا دورکی بات مذکورہ کمپنی کے دفاتر میں مقامی غریب افراد کو اندر داخل ہونے اور کسی آفیسر سے بات کرنے کی اجازت تک نہیں ملتی۔

Lease

Lease

اب سوال ابھرتا ہے کہ حکومت کی جانب سے مذکورہ کمپنی کو لیز دینے کا پہلامعاہدہ 1974ء میں طے ہواتھاجوکہ 2008ء میں مکمل ہوالیکن بولان مائننگ انٹرپرائزکی جانب سے اس دوران مقامی افراد کے ساتھ معاہدہ کی مسلسل خلاف ورزی اورعلاقہ کو نظرانداز کرنے کے باوجود آخر کون سی وجوہات تھیں کہ 2008ء میں ایک بار پھر مذکورہ کمپنی کو علاقہ کا مزید ایک وسیع ایریا لیز پر دیا گیا، جس کے بنا پر کمپنی وہاں سے صرف بیرائٹ ہی نہیں بلکہ زنک جیسی قیمتی دھات بھی بے دریغ حاصل کر کے سرمایہ کمارہی ہے۔

سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی کے ہاتھوں استحصال کاشکارمقامی لوگ گزشتہ کئی عرصوں سے مختلف فورمز پر اپنے آئینی حقوق کے لیئے چیخ وپکارکررہے ہیں لیکن چونکہ یہاں کسی ناموربااثربلوچ لیڈرشپ کی ذاتی مفادات متاثرنہیں لہذان کی چیخ وپکارپرکوئی توجہ نہیں دیاجارہااورنہ ہی مقامی غریب افرادکے پرامن احتجاج کوکوئی اہمیت دی جارہی ہے، اہلیان علاقہ کے ساتھ ہونے والی یہ ناانصافی صر ف کمپنی کے حدتک محدود نہیں بلکہ وہ فیروزآبادجس کی بیرائٹ اوردیگرقیمتی معدنیات سے صوبائی حکومت کو ساالانہ پچاس فیصدکے حساب سے اربوں روپے مل رہی ہیں ،آج صوبائی حکومت کی توجہ سے محروم پسماندگی کی عبرت ناک تصویربناہواہے۔

اب اگر موجودہ وفاقی حکومت بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے سنجیدہ اور واقعی یہاں کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے میں مخلص ہے توانہیں فیر وزآباد سمیت صوبے کے دیگرحصوں میں مقامی لوگوں کے استحصال کاارتکاب کرنے والی سرمایہ کار کمپنیوں کاقبلہ درست کرناہوگا،انہیں طے کئے گئے معاہدوں او ر ملکی کی متعلقہ پالیسی پرعمل کرنے کے پابندبنانی ہوگی تاکہ مایوس عوام کا اعتماد بحال ہو، اور وہ اپنے حقوق ومفادات کو محفوظ تصور کر سکیں۔

Shabir Lehri

Shabir Lehri

تحریر: شبیر احمد لہڑی