counter easy hit

بے فکر رہو ، فوج تب آتی ہے جب ۔۔۔۔۔ تبدیلی والوں کی صف میں شامل نامور صحافی کی مارشل لاء لگنے کی امید میں بیٹھے دانشوڑوں کے کام کی تحریر

لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے سرکردہ سیاست دان ان دنوں ہر طرف سے افواج پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کہیں خود بیان بازی کر رہے ہیں تو کہیں اپنے ہم خیالوں کو آگے کیا ہوا ہے۔ ملک کے اندر سے بڑھ کر بڑھ کر فوج پر حملے کیے جا رہے ہیں

آج کا سب سے بڑا انکشاف۔۔۔!!! آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی ’ ظہیر الاسلام ‘ نے پاکستان کی کس خاتون سیاستدان سے5 سالوں سے خفیہ شادی کر رکھی ہے؟ تصاویر نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی

نامور کالم نگار نصرت جاوید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ان حالات میں بھارت، اسرائیل اور دیگر بڑے دشمنوں کو پاکستان پر حملے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ کوئی کہتا ہے الیکشن فوج کے بغیر ہونے چاہئیں، کوئی کہتا ہے فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے، کوئی کہتا ہے کہ فوج کسی خاص سیاسی جماعت کی حمایت کرتی ہے، کوئی کہتا ہے کہ فوج اپنی آئینی حدود سے تجاوز کر رہی ہے، کوء کہتا ہے سیاست دانوں کو کام کرنے سے روکا جاتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ نیب کے پیچھے کوئی اور ہے، کوئی کہتا ہے انتقامی کارروائیوں کے پیچھے کوئی اور ہے۔ غرضیکہ ہر کوئی اپنی اپنی ضرورت اور مصیبت کے مطابق تبصرے اور تجزیے کر رہا ہے۔ چونکہ باہر والوں کو فوج کے خلاف ہونے والی بات پسند آتی ہے اور یوں سب مل کر فوج مخالف مہم کا حصہ بنتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوتا ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ایک ماہ ہونے کو ہے۔ میاں نواز شریف کی صحت ان کی بیرون ملک روانگی کے معاملے میں میڈیا پر جو تماشا لگا ہوا ہے اس کو دیکھنے کے بعد بھی کیا ہم نہیں سمجھے کہ ہمارے سیاستدان اٹھارویں صدی میں زندہ ہیں۔ آج ہر نیا پرانا، چھوٹا بڑا، کامیاب ناکام سیاست دان اپنی کوتاہیوں، غلطیوں اور ناکامیوں کو چھپانے کے لیے کبھی کسی ادارے پر تنقید کرتا ہے تو کبھی کسی ادارے پر، اگر کسی کو کھلا میدان ملے ہر طرح سے تعاون ملے اور وہ پھر بھی کامیاب نہ ہو سکے، ڈیلیور نہ کر سکے تو اس میں کوئی دوسرا ذمہ دار کیسے ہو سکتا ہے۔ کیا پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی میں اتنی اہلیت نہیں تھی کہ وہ مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالتے، کیا اس میں بھی فوج رکاوٹ تھی۔ جب سیاست دان کسی بات پر متفق نہ ہو سکیں، بہتر فیصلے نہ کر سکیں، جرات انکار نہ رکھتے ہوں، وژن سے عاری ہوں، فکر ان کے قریب نہ پھٹکتی ہو، تعمیر کے قابل نہ ہوں، دلائل دے نہ سکیں، دلیل سے قائل ہو نہ سکیں تو کیا اس کی ذمہ دار بھی فوج ہے۔ کیوں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں اہم معاملات پر اتفاق رائے نہیں ہو پاتا، کیوں ہمیشہ یہ ملک کو بند گلی میں لے جاتے ہیں، پیپلز پارٹی کا دور حکومت پھر پی ایم ایل این اور تحریک انصاف کی حکومت سب نے مل کر کون سا تیر چلا لیا ہے جو ہر وقت ملکی دفاع کی ضامن اور پاکستان کے سب سے بہترین اور مضبوط ادارے پر حملے کر رہے ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جس نے ایک ایک کر کے تمام ریاستی اداروں کا بیڑہ غرق کیا ہے اور اب اکٹھے ہو کر افواج پاکستان کے پیچھے پڑے ہیں۔ اگر یہ اتنے قابل ہیں تو کیوں نظام کو مضبوط نہیں کر سکے، آج تک بد اعتمادی کی اس فضا میں جی رہے ہیں کہ ہر مرتبہ انتخابات کے لیے نگران حکومت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کون سی جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت ہر وقت دوسری جماعت کو نیچے دکھانے اور غیر قانونی طریقوں سے اقتدار حاصل کرنے کی خواہش مند نظر آتی ہے۔ نگران سیٹ اپ پر بھی اعترضات کا سلسلہ آئندہ انتخابات تک جاری رہتا ہے۔ سیاسی جماعتیں فوج کے بغیر انتخابات کروا لیں انہیں کس نے روکا ہے۔ یہ بھی دیکھ لیں کہ کیا انتظامیہ اس قابل ہے، کیا نظام اتنا مضبوط اور فعال ہے، کیا بنیادی ڈھانچے میں اتنی سکت ہے کہ وہ اتنی بڑی مشق کر سکتا ہے اگر ایسا نہیں ہے تو کیا یہ فوج کی ناکامی ہے۔ جمہوریت کا یہ مسلسل تیسرا دور ہے اس دوران انتخابات کو جدید نظام کے مطابق ڈھالنے اور اسے شفاف بنانے کے لیے کتنا کام ہوا ہے۔ اور تو اور جمہوریت کے علمبردار آج تک بلدیاتی انتخابات پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے، کوئی انتخابات کرواتا نہیں اور اگر باامر مجبوری کوئی کرواتا ہے تو وہ اپنی مرضی کرتا ہے۔ نیا آنے والا پہلے سے موجود افراد کو گھر بھیجتا ہے اور نیا نظام نافذ کر دیتا ہے۔ کیا یہ عدم تسلسل اور عدم اعتماد فوج کی وجہ سے ہے۔آج جو حال اداروں کا ہے کیا اس کی ذمہ دار فوج ہے۔ گذشتہ دس بارہ برس میں جو تباہی ہوئی ہے کیا اس کی ذمہ دار بھی فوج ہے۔ ملک و قوم پر قرضوں کا جو بوجھ ڈالا گیا ہے کیا اس کی وجہ بھی فوج ہے۔ کاش کہ سیاست دان جرات انکار رکھتے ہوں، کاش کہ سیاست دان کسی دوسرے کو موقع دینے کی اخلاقی جرات رکھتے ہوں، کاش کہ سیاست دان مال بنانے کے علاوہ کوئی کام کرتے ہوں، کاش کہ سیاست دان کک بیکس کے علاوہ بھی کچھ سوچتے ہوں، کاش کہ سیاست دان میرٹ پر اپنے خاندان کے افراد کو نظام سے باہر نکالنے کی جرات رکھتے ہوں، کاش کہ سیاست میں آنے سے پہلے لچھ تربیت حاصل کریں اور عہدوں اور وزارتوں کے لالچ میں ضمیر کے سودے نہ کریں، ووٹرز کے ووٹ کو نہ بیچیں، اصولی سیاست کریں اور ملکی مفاد میں متحد ہونا سیکھیں، دشمنوں کے آلہ کار نہ بنیں تو فوج کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اندرونی معاملات میں خدمت کے باوجود تنقید کا نشانہ بنے۔حقیقت یہ ہے کہ فوج آتی نہیں مجبوری لے آتی ہے۔ جب معاملات حد سے بگڑتے ہیں، اداروں کو خطرات لاحق ہوں اور ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں تو کیا فوج خاموش تماشائی بنی رہے، فوج نے ملکی سلامتی پر نہ سمجھوتہ کیا ہے نہ کرے گی، جب بھی ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہونگے فوج اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریاں بلاجھجک نبھائے گی۔ فوج کا ایک مفاد ہے اور مفاد پاکستان ہے، فوج کی ایک پارٹی ہے وہ پارٹی پاکستان ہے، فوج فریق ہے تو صرف پاکستان کی، فوج محافظ ہے تو صرف پاکستان کی۔ فوج وفادار ہے تو صرف پاکستان کی۔ یہی وجہ ہے جب کہیں ان چیزوں کو خطرات لاحق ہوتے ہیں تو پھر وہ اپنے حلف کے مطابق ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ کاش کہ سیاست دان بھی اپنے حلف کی پاسداری کریں اور نظام کو کرپٹ بنانے اور ملک کو مقروض کرنے کے بجائے قرضوں کی دلدل سے نکالنے کے لیے کام کریں۔ کاش کہ ایسا ہو جائے۔

Army, and, marshal law, implemented, when, they, are, called, famous, journalist, belongs, to, tabdeeli, sarkar, described, the, fact, about, Army, and, marshal law

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website