counter easy hit

کیا ہم آپکے ساتھ نہیں ہیں؟

یہ وہ جملہ ہے جو آج سارا دن میری سماعتوں سے ٹکراتا رہا، یہ جملہ کوئی روائیتی جملہ نہیں ہے بلکہ بہت وزن رکھنے والا اور حیران کردینے والا جملہ ہے۔ آنکھیں کھولنے اور نیند سے بیدار ہونے کیلئے اس سے اچھا جملہ اور کیا ہوگا؟

کیا ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں؟ اس جملے میں کتنی اپنائیت اور کس قدر محبت بھری ہوئی ہے۔ ایک ہی درد اور ایک ہی جیسے جذبات و احساسات کی تفسیر بیان کرتا یہ جملہ ڈی جی رینجرز پنجاب میجر جنرل اظہر نوید نے ایک ایسے ہجوم کو عیدی دیتے ہوئے ادا کیا جو لوگ بقول اسلام آباد ہائی کورٹ “دہشتگردی” پھیلا رہے تھے اور قانون کو پامال کرنے میں ملوث تھے۔

بقول سیاسی قیادت یہ لوگ، جن کا تعلق تحریکِ لبیک یا رسول اللہ اور سنی تحریک سے تھا، امن و امان کی صورتحال کو بری طرح متاثر کرنے کے ذمہ دار تھے۔ انہوں نے تقریباً ایک ماہ تک ملکی دار الحکومت میں نظامِ زندگی مفلوج و معطل کیے رکھا۔ یہ لوگ ایک ماہ تک سیاستدانوں، صحافیوں اور سماجی کارکنان کو بدترین گالیاں دیتے رہے اور سب سے بڑھ کر توہینِ رسالت و انکارِ ختمِ نبوت کے الزام لگا کر لوگوں کو بھیانک نتائج کیلئے ڈراتے اور دھمکاتے رہے۔

ہمارے ڈی جی رینجرز پنجاب عہدہ سنبھالتے ہوئے عوام کی حفاظت کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں، انہوں نے کل اپنے حلف نامے کی دھجیاں اڑا دیں۔ بہت ہی پیار سے شرپسندوں کو ہزار ہزار روپے انعام میں دیتے وقت انتہائی انکساری و خلوص سے کہا کہ “کیا ہم آپکے ساتھ نہیں؟”

اظہر نوید صاحب، آپ بلکل ان لوگوں کے ساتھ ہیں۔ اپنے قول و فعل سے آپ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ نا صرف ان لوگوں کے  ساتھ ہیں بلکہ ان کے مائی باپ بھی ہیں-

ایک یاد دہانی کراتا چلوں کہ ڈی جی رینجرز صاحب آپ کس کس وقت ان بلوائیوں کے ساتھ تھے۔

جب شہر اقتدار کی شاہراہوں کو بلاک کیا گیا، تب بھی آپ انکے ساتھ تھے۔

جب ایک آٹھ ماہ کا معصوم بچہ راستے بند ہونے باعث ہسپتال نہیں پہمچ سکا اور دم توڑ گیا، تب بھی آپ انکے ساتھ تھے۔

جب انہوں نے نجی چینل کے عملے پر حملہ کیا اور انکی املاک کو نقصان پہنچایا، تب بھی آپ انکے ساتھ تھے۔

جب انہوں نے آئین کی دفعہ ۱۴۴ کی کُھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے جڑواں شہروں کو یرغمال بنایا، تب بھی آپ انکے ساتھ تھے۔

جب پابندی کے باوجود خادم رضوی کو اسلام آباد میں داخل ہونے دیا گیا، تب بھی آپ انکے ساتھ تھے۔

جب عدلیہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پریڈ گراونڈ کی جگہ پورے اسلام آباد میں بلوائیوں کو کُھلا چھوڑ دیا گیا، تب بھی آپ انکے ساتھ تھے۔

جب انہوں نے چار پولیس اہلکاروں کو نا صرف اغواء کیا بلکہ پولیس اہلکاروں کو بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا، تب بھی آپ انکے ساتھ تھے۔

جب ان پر انسدادِ دہشتگردی کے سیکشن 8 کے اور پاکستان پینل کوڈ کے مختلف دفعات کے تحت اسلام آباد کے پولیس تھانوں میں آٹھ ایف آئی آر مقدمات درج ہوئے، تب بھی آپ انکے ساتھ تھے۔

جب ان بلوائیوں نے پولیس پر گولی چلائی، تب بھی آپ انکے ساتھ تھے۔

جب تیرا پولیس اہلکار، سات ایف سی اہلکار اور سینکڑوں سویلین ان بلوائیوں کے ہاتھوں زخمی ہو کر ہستپال پہنچے، تب بھی آپ انکے ساتھ تھے۔

جب اسلام اباد، راول پنڈی، لاھور، کراچی اور ملک بھر کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں ان بلوائیوں نے ہنگامہ آرائی اورفساد برپا کیا، لاکھوں شہریوں کو خوف و حراساں کیا اور سرکاری و نجی املاک کو تقصان پہنچایا، تب بھی آپ انکے ساتھ تھے۔

آپ اگر نہیں تھے تو عوام اور عوام کے منتخب سیاسی رہنماؤں کے ساتھ نہیں تھے۔

آپ اگر نہیں تھے تو عدلیہ اور پولیس کے ساتھ نہیں تھے۔

آپ اگر نہیں تھے تو صحافیوں، پُرامن شہریوں اور طلباء کے ساتھ نہیں تھے۔

آپ اگر نہیں تھے تو ان سوگوار خاندانوں کے ساتھ نہیں تھے جن کے پیارے ان بلوائیوں کی وجہ سے مارے گئے اور زخمی ہوئے۔

لائن آف ڈیوٹی میں شہید ہونے والے پولیس اہلکار کی ماں ہو یا ہمیشہ کیلئے ابدی نیند سوجانے والے آٹھ ماہ کے نومولود بچے کی ماں، ان دونوں کو تو سوائے زخموں اور دُکھ کے آپ نے کچھ بھی نہیں دیا۔

ڈی جی صاحب افسوس صد افسوس! آپ نے نا ہی اپنے عہدے کا پاس رکھا اور نا عوام کے اعتبار کا مان رکھا- آپ جب بلوائیوں میں رقم تقسیم کر رہے تھے تو دراصل آپ اپنی وردی کی عزت نیلام کر رہے تھے- وہ بھی ایسے بلوائیوں کے ہاتھوں جو بقول وفاقی وزیر احسن اقبال پورے ملک کو خانہ جنگی طرف لے جارہے تھے- اور آپ ان ہی سے تجدیدِ وفا کر رہے تھے کہ کیا ہم آپکے ساتھ نہیں ہیں؟