counter easy hit

فوج میں تقر ر و تبادلے ۔ شور کیسا ؟

پاکستان کی سیاست میں سول ملٹری تعلقات کی اہمیت سے کبھی بھی انکار نہیں کیا گیا۔ بلکہ جمہوریت او ر سول حاکمیت کا دارو مدار ہی اس بات میں سمجھا جا تا ہے کہ سول ملٹری تعلقات کتنے اچھے ہیں۔ اگر اچھے ہیں تو سول حاکمیت چلتی ہے اور اگر بگڑ جائیں تو سول حاکمیت کی کشتی ڈوبنے لگتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے آخری چند ماہ میں یہ تاثر مضبوط تھا کہ سول ملٹری تعلقات ایک پیج پر نہیں ہیں۔ اس تاثر نے سول حکومت کی رٹ اور اس کی مدت پورے کرنے کے حوالہ سے شکوک و شبہات پیدا کیے ۔ اور حکومت کے آنے وجانے کی تاریخیں منظر عام پر آنے لگیں۔ تا ہم یہ سب تاریخیں غلط ثابت ہوئیں لیکن حکومت کی کشتی ہچکولے کھاتی رہی۔ تا ہم سول ملٹری تعلقات حقیقت سے زیادہ تاثر کا کھیل ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ یہ تاثر اکثر حقیقت سے قریب ہی رہتا ہے۔

حیرانگی کی بات ہے کہ جنرل راحیل شریف کے دور میں جہاں یہ تاثر  تھا کہ سول ملٹری تعلقات ایک پیج پر نہیں ہیں وہاں نئے آرمی چیف کے تعینات ہونے کے چند دن بعد ہی تاثر قائم ہوگیا ہے کہ سول ملٹری تعلقات ایک پیج پر ہیں۔ نئے ا ٓرمی چیف نے ابتدائی چند دنوں میں ہی بڑے بڑے فیصلوں سے یہ واضح کیا ہے کہ وہ وقت ضایع کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کی جانب سے بڑے  پیمانے پر تقرر و تبادلوں پر سیاسی و عسکری حلقوں میں گرما گرم بحث جاری ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ان تقرر و تبادلوں کو سول ملٹری تعلقات کے لیے خوش آیند قرار دیا جا رہا ہے۔

سب سے زیادہ بحث نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پرکی جا رہی ہے۔ اور یہ تاثر قائم ہو رہا ہے کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹنٹ جنرل نوید مختار کی تعیناتی سے نہ صرف سول ملٹری پہلے سے بھی زیادہ تعلقات بہتر ہو ںگے بلکہ سول حلقے اس پر زیادہ ہی خوش ہیں۔ اسی طرح ڈی جی آئی ایس پی آر کی تبدیلی پر بھی بحث جاری ہے۔ اسی طرح نئے لیفٹنٹ جنرل کی پروموشن کے حوالہ سے بھی ایک بحث جاری ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ پی ایم اے کے دو کورس نظر انداز ہو گئے ہیں ۔کوئی پروموٹ ہونیو الوں کی اہلیت پر سوال نہیں اٹھا رہا بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ شاندار افسران کو پروموٹ کیا گیا ہے۔

سیاسی و عسکری تجزیہ نگار جنرل قمر باجوہ کے ابتدائی چند دنوں میں ہی اس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ ان کاانداز کمانڈ اپنے پیشرو سے مختلف ہے۔ ویسے تو یہ کوئی پہلی بار نہیںہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل پرویز مشرف کے انداز کمانڈ میں بھی بہت فرق تھا۔ اسی طرح جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف کے انداز  میں بھی بہت فرق تھا۔ اور اب جنرل قمر باجوہ اور جنرل راحیل شریف کے مابین فرق کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ ہر جنرل کی اپنی سوچ اور اپنی ٹیم ہوتی ہے۔ جنرل مشرف نے تو چیف آف آرمی اسٹاف بننے کے بعد فوری طور پر ریکارڈ تبادلے کیے تھے۔جنرل راحیل نے بھی جنرل کیانی کی پوری ٹیم بدل دی تھی اور اب اگر جنرل باجوہ نے تقرو وتبالے کیے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ جنرل قمر باجوہ کے ابتدائی چند دنوں میں کون لوگ ان سے ناامید ہو گئے ہیں۔ شا ید وہ لوگ جو سول ملٹری تعلقات کی بنیاد پر حکومت کو گھر بھیجنے کی امید میں رہتے ہیں، وہ  ناامید نظر آرہے ہیں ۔ وہ جو جنرل راحیل شریف سے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن وہ وہاں سے بھی نا امید ہو گئے ہیں۔ سیاسی جماعتیں پر امید اور خوش نظرا ٓرہی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پیپلزپارٹی بھی خوش ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی خوشی کی سیا سی وجوہات تو نظر آتی ہیں۔ لیکن میرے لیے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم لندن بھی کافی پر امید نظر آرہی ہے۔ ایم کیو ایم لندن کی امیدیں کتنی درست اور غلط ہیں اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ جنرل قمر باجوہ کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ ان کی ترجیحات کیا ہیں ۔ یہ بات بھی قبل از وقت ہیں۔ ابھی سب اندازوں اور تجزیوں کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ آرمی چیف کے حوالہ سے جو بھی اندازہ لگائے گئے وہ غلط ثابت ہوئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے حوالہ سے بھٹو کے اندازے غلط ثابت ہوئے اور جنرل پرویز مشرف کے حوالہ سے میاں نواز شریف کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ جنرل راحیل شریف کے حوالہ سے بھی سیاسی حلقوں کے اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ بلکہ جنرل راحیل شریف کے حوالہ سے تو اپو زیشن اور حکومت دونوں کے ہی تمام انداز ے بھی غلط ثابت ہو ئے ہیں۔اس لیے جنرل قمر باجوہ کے حوالہ سے ابھی کوئی اندازہ اور رائے قائم کرنا قبل از وقت ہے۔ ابھی تو میڈیا اورسیاسی حلقے ایک دن ایک تصویر بناتے ہیں اور دوسرے دن نئی تصویر بنا لیتے ہیں۔ بلکہ ابھی تک تو صرف تقرر تبادلوں کی نظر سے ہی تصویر کشی کی کوشش کی جا رہی ہے۔

میری رائے میں جنرل باجوہ کی اصل پالیسی اور سوچ سامنے آنے میں ابھی وقت لگے گا۔ فوج کے سربراہ اور اس کی پالیسیوں کا تجزیہ کرتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ چیف سیاستدان نہیں ہو تا۔ وہ بہت کم بولتا ہے۔ میڈیا کو انٹرویو نہیں دیتا۔ روز مختلف اہم معاملات پر بیان بازی نہیں کرتا۔ اس لیے اس کی پالیسی جاننے اور جانچنے کے لیے وقت درکار ہو تا ہے۔ ایک سیاستدان تو ہر ایشو پر اپنی رائے دیکر اپنی پالیسی واضح کر دیتا ہے لیکن آرمی چیف ایک رائے رکھتے ہوئے بھی اس کا اظہار نہیں کر سکتا۔خاموشی ہی اس کا حسن و وقار ہے۔

اس نے سیاسی نہیں عسکری زبان میں بات کرنی ہوتی ہے۔ اس لیے ابھی تو ہر طرف قیا س آرئیاں ہیں۔ پتہ نہیں ہمیں جلدی کیوں ہے۔یہ صبر کا کھیل ہے۔ اسے صبر سے کھیلنا ہو گا۔چند دنوں میں بڑے نتیجے اخذ کرنا درست نہیں۔ لیکن میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کی مثال کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔تا ہم میں اپنے اس دوست سے متفق نہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website