counter easy hit

قومی اتحاد کاایٹم بم, اصلی ایٹم بم کو چلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی

میں نے جو آرزو کی تھی، وہ پوری ہوئی۔پور ی قوم اکٹھی نظر آئی اور یہ اتحاد اس ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہے جو ہمارے اسلحہ خانوں میںذخیرہ پڑا ہے۔قومی اتحاد کے ایٹم بم کے ہوتے ہوئے ہمیں اپنے اصلی ایٹم بم کو چلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
خصوصی شکریہ تحریک انصاف کا جس نے چند روز پہلے کہا تھا کہ مودی ہر پاکستانی کو نواز شریف نہ سمجھ لے، اب ا س جماعت نے نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو کر مودی کو بتا دیا ہے کہ ہم سب نواز شریف ہیں اور اپنے وزیر اعظم کے ساتھ ہیں اور اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
اعلامیہ تو آتا رہے گا مگر شاہ محمود قریشی کی گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ اپوزیشن نے جو خامی اور کمی وزیر اعظم کی یو این او کی تقریر میں بیان کی تھی، اس کو بھی دور کر لیاگیا ہے اور کل بھوشن سے لے کر مودی کی پاکستان کو جملہ دھمکیوں کی پر زور الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
تاثر تو یہ دیا گیا تھا کہ وزیر اعظم کی دعوت پر پارلیمانی پارٹیوں کی ایک کانفرنس ہو گی اور بعد میں مزید سوچ و بچارکے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا جائے گا مگر پارلیمانی پارٹیوں کی میٹنگ اصل میں کل جماعتی کانفرنس کا رنگ اختیار کر گئی، عرف عام میں ہم اسے اے پی سی کہتے ہیں۔
اندازہ یہ ہے کہ اے پی سی میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا گیا ہے تاکہ خطے میںامن کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے۔اجلاس کے شرکاء نے کشیدگی کے خاتمے پر زور دیا اور باور کیا جاتا ہے کہ ملک کو درپیش تمام اہم مسائل بھی زیر بحث آئے ہیں جن میں سی پیک سر فہرست ہے، کانفرنس کے شرکاء جو بات زبان پر نہیں لا سکے مگر ان کا دل مانتا ہے کہ اس وقت سارا جھگڑا سی پیک کا ہے ا ور بعض عالمی طاقتوں سے لے کر بھارت تک ہر کسی کی کوشش ہے کہ کسی طرح اس اہم تریںمنصوبے کو لپیٹ دیا جائے، اے پی سی میں ا تحاد کاایک فیکٹر یہ بھی ہے کہ تمام جماعتیں چین کے ساتھ اقتصادی اور اسٹر ٹیجک تعلقات کی اہمیت کا مکمل ادراک رکھتی ہیں۔اور ان کا ایمان ہے کہ پاکستان کے مستقبل کاانحصار سی پیک کی تکمیل پر ہے۔
یہ تو کہنا آسان ہے کہ وزیر اعظم نے اے پی سی کے انعقاد میں تاخیر سے کام لیا ہے مگر دوسری طرف بھارت میںمودی نے اوڑی واقعے کے فوری بعد سے جتنی بھی میٹنگز کر لی ہیں، ان سے اسے کیا ملا، بھارت کے عوام مودی حکومت کے پروپیگنڈے پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں، اوڑی کا واقعہ اٹھارہ ستمبر کو پیش آیا مگر ا س کاالزام فوری طور پر پاکستان پر دھر دیا گیا جبکہ اس واقعے کی انکوائری کا عمل اب کہیں جا کر شروع ہوا ہے۔بھارت نے دھمکیوں کی زبان استعمال کی اور پھر سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ رچایا،اس پر بھی دنیا نے یقین نہیں کیا، بھارت نے پاکستانی کبوتر پکڑ کر اسے ہوا بنا لیا، کوئی غبارہ نظرا ٓ گیا تو اس کو شک کی نظروں سے دیکھا گیا۔مودی نے اگلی دھمکی دی کہ وہ پاکستان کے دریائوں کا پانی بند کر دے گا، ایک کے بعد ایک دہشت گردی، کبھی کولڈ اسٹارٹ، کبھی ہاٹ اسٹارٹ،ا ور کبھی آبی دہشت گردی۔پاکستان نے بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک کا پول کھولنے کے لئے ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو ایل او سی کا دورہ کروایا، آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل باجوہ خود ساتھ گئے ا ور ایل او سی کے عین سامنے ایک اسٹیج جما کر انہوںنے میڈیا کو بریف کیا، صحافیوں کی ٹیم کو کہیں کسی گولی کانشان تک نہ ملا۔کوئی دیہاتی ایسانہ تھا جو یہ کہتا کہ کہیں سے بھارتی ہیلی کاپٹر ادھر آئے ہوں یا بھارتی فوج نے کہیں سے گھسنے کی کوشش کی ہو،بھارت نے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی جس کا جواب دینے کے لئے ہمیشہ کی طرح ہمارے جوان چوکس موجود تھے۔
مودی صاحب نے کئی پینترے بدلے، کبھی کہا کہ پاکستان اور بھارت کو مل کر غربت کے خلاف جنگ کرنی چاہئے ، کبھی کہا کہ بھارت نے کبھی کسی ملک پر حملہ نہیں کیا اور نہ وہ زمین کا بھوکا ہے۔ ا یسی خبریں بھی شائع کروائی گئیں کہ اسلام آباد میں کسی رابطہ کار کے ذریعے وزیر اعظم نواز شریف سے کہا گیا ہے کہ وہ اس آگ کو بھڑکنے سے روکیں۔مگر بھارتی میڈیا کے تیور کچھ اور ہی ہیں۔ وہ جلتی پر تیل ڈالنے میںمصروف ہے، اس لئے پاکستان کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، ظاہر ہے امن تو ہر ایک کو چاہئے مگر ایسا امن جو غلامی کی شکل اختیار کر لے، اسے باغیرت پاکستانی قوم کیسے قبول کر سکتی ہے، اس لئے اے پی سی میں تما م راہنمائوںنے اس نکتے پر اتفاق کیا کہ بھارت بسم اللہ کرے اور کشمیر کا مسئلہ حل کر دے تو پھر ہمارا اس کا کیا جھگڑا۔آج بھارت ا س پوزیشن میںنہیںہے کہ وہ کشمیر میں شورش اور سول نافرمانی کا الزام پاکستان پر دھرے،ا سلئے کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیرکا بچہ بچہ آزادی کے نعرے لگا رہا ہے، اب نوے روز ہونیو الے ہیں کہ بھارت کانہ کرفیو کام دیتا ہے، نہ آنسو گیس کے شیل ، نہ اندھا کرنے والے چھرے۔کشمیری دکاندار گھروںمیں بیٹھے ہیں،مارکیٹیں بند ہیں، اسکول کا لج اور یونیورسٹیوں پر تالے ہیں، سالانہ امتحانات میں بیٹھنے کے لئے بھی کوئی طالب علم تیار نہیں۔ سری نگرا ور نواحی قصبوں کے ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں، حالیہ دنوںمیںایک سو سے زاید اموات واقع ہو چکی ہیں۔بینائی سے محروم ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار ہے، ظاہر ہے یہ سب لوگ کشمیری ہیں ، باہر سے تو نہیں آئے، نوجوان تو شاید آ سکتے ہیںمگر آٹھ دس سال کے بچوں کی آ نکھوںمیں تاک کر چھرے مارے گئے ہیں، وہ تو کشمیری مائوں کی گود میں تڑپ رہے ہیں۔یہ ظلم ہے ، جبر ہے، ستم ہے جس کا راستہ روکنا عالمی ضمیر کا فرض بنتا ہے، پاکستان تو ان کی اخلاقی ا ور سفارتی مدد کر سکتا ہے اور وہ کی جا رہی ہے، وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں زور دار تقریر کی، ملیحہ لودھی نے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے خصوصی ملاقات کی، اسلام آباد میں سلامتی کونسل کے مستقل ممالک کے سفیروں کوڈوزیئرز دیئے گئے ہیں تاکہ ان پر بھارتی دہشت گردی کی حقیقت واضح ہو سکے۔
یہ ہماری قومی خوش نصیبی ہے کہ آزمائش کی گھڑی میں ہم ایک ہو جاتے ہیں اور سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں، اس وقت تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کو کئی مسائل در پیش ہیں لیکن ہر پارٹی نے اندرونی اختلافاے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد کا ثبوت فراہم کیا ہیْ
مجھے تحریک انصاف کے ساتھ دلی ہمدردی ہے کہ دو سال قبل بھی وہ اپنی تحریک کے کلائمکس پر تھی ا ور اے پی ا یس کے سانحے نے اسے دھرنا ختم کرنے پر مجبور کر دیا ، تب ایک اے پی سی ہوئی ا ور نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے سے دستخط کر دیئے گئے، آج بھی تحریک انصاف رائے ونڈ جلسے کے بعد نئی توانائیوں سے سرشار تھی ، مگر اب اسے سارا زور بھارتی جارحیت کا راستہ روکنے پر صرف کرنا ہو گا۔ شاید قدرت تحریک انصاف پر مہربان نہیں ہے مگر پاکستان پر ضرور مہربان ہے کہ اس کی ضرورت کی گھڑی میں سب ایک ہیں ، ہم سب ایک ہیں، اللہ نظر بد سے محفوظ رکھے۔

 

اسد اللہ غالب،بشکریہ نوائے وقت

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website