counter easy hit

انصار عباسی کے پوری قوم کی آنکھیں کھول دینے والے انکشافات

Ansar Abbasi's eye-opening revelations to the entire nation

لاہور(ویب ڈیسک) ایک ایسے موقع پر جب بھارت نے پاکستان کی شہ رگ (کشمیر) کو کاٹ دیا، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے گجرات میں مسلمانوں کے قاتل اور کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اعلیٰ سویلین ایوارڈز سے نوازا گیا۔ دوسرے عرب ممالک نے بھی نامور کالم نگار انصار عباسی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پاکستان اور پاکستانیوں کو بہت مایوس کیا اور عرب دنیا سے کوئی ایک ایسی آواز نہیں سنائی دی جو اس بات کا احساس دلائے کہ مسلمانوں پر بھارتی ظلم و زیادتی سے ہمارے عرب بھائیوں کو کوئی پریشانی لاحق ہے۔ پاکستان میں لوگ اس صورتحال پر کافی غصہ میں ہیں اور سوال اٹھا رہے ہیں کہ کہاں گئی مسلم امہ؟ یہ حالات ہر مسلمان کے لیے پریشانی کا باعث ضرور ہیں لیکن میرا اپنے پاکستانی بھائیوں اور موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں سے سوال ہے کہ جب دنیا کے دوسرے حصوں میں مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے تو کیا ہمارا کردار وہ تھا جو مسلم امہ کا اہم جز ہونے کی حیثیت سے ہونا چاہئے تھا؟ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ جب امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ کیا، وہاں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا، پورا ملک برباد کر دیا تو پاکستان کا کردار کیا تھا؟ ہم نے مسلمان ہمسایہ ملک اور وہاں موجود اسلامی حکومت کے بجائے ظالم کا ساتھ دیا اور ہوائی اڈوں سمیت اپنا سب کچھ امریکہ کے حوالے کر دیا کہ جی بھر کر افغانستان پر حملہ کرو، جسے جی چاہے مارو۔ آج مسلم امہ کو یاد کرنے والوں کو کیا بھول گیا کہ ہم نے اُس موقع پر ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کر کے مسلم امہ کے تصور کو دفن کرنے کی کوشش کی تھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ اپنا ذاتی مفاد دیکھو اور کسی دوسرے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ اگر کچھ غلط ہو رہا ہے تو اُسے اپنا مسئلہ مت بنائو۔ آج ہم مسلم اُمہ کو یاد کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ عرب ہمارے اور کشمیریوں کے لیے کیوں نہیں بول رہے بلکہ الٹا بھارت اور مودی سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں لیکن ہمیں شاید یاد نہیں کہ جب Weapon of Mass Destruction کے سفید جھوٹ کی بنیاد پر امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے عراق پرحملہ کیا اور لاکھوں مسلمانوں کو وہاں شہید کیا تو ہماری مسلم امہ سوئی رہی اور ہم محض تماشائی کے طور پر عراقیوں پر یہ ظلم و ستم دیکھتے رہے۔ اسلامی دنیا میں پاکستان کی اپنی ایک اہمیت ہے لیکن لیبیا، شام، برما (میانمار) وغیرہ میں مسلمانوں کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا لیکن ہم نے کچھ نہیں کیا۔ جو گِلے اور شکایات ہم عرب ممالک اور ان کی حکومتوں سے کر رہے ہیں، وہی گلے اور شکایات ہمارے خلاف بھی بنتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان چاہے ایک دوسرے کے لیے درد محسوس کرتے ہوں لیکن بدقسمتی سے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو یہ سبق پڑھا دیا جاتا ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان ملک یا مظلوم مسلمانوں کی فکر کے بجائے اپنا ذاتی مفاد دیکھیں اور اپنی فکر کریں۔ پوری اسلامی دنیا میں آج ترک صدر رجب طیب اردوان کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا لیڈر نہیں جو مسلمانوں کے دکھ اور درد کو محسوس کرتا ہو اور اُس بارے میں کھل کر بات کرتا ہو۔ اگر ہمیں حالات بدلنے ہیں اور سوئی ہوئی مسلم اُمہ کو جگانا ہے تو ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ جیسے نعروں کے بجائے ’’سب سے پہلے مسلمان‘‘ کا نعرہ بلند کرنا ہوگا اور اپنی اپنی حکومتوں اور حکمرانوں پر یہ دبائو ڈالنا ہوگا کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں مسلمانوں پر اگر ظلم ہو رہا ہے تو بحیثیت مسلمان اُس کو روکنا ہماری مجموعی ذمہ داری ہے۔ بھارت کی طرف سے کشمیر کو ہڑپ کیے جانے کے بعد عمومی طور پر مسلمان ممالک کی طرف سے انتہائی مایوس کن ردعمل سامنے آیا لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہمیں بھی اپنا ماضی اور اپنا کردار خصوصاً نائن الیون کے بعد کا کردار یاد رکھنا چاہئے جس پر شرمندہ ہی ہوا جا سکتا ہے۔ جہاں تک کشمیر کا مسئلہ ہے تو میرا ماننا ہے کہ چاہے اقوام متحدہ چلے جائیں، جتنی چاہیں تقریریں کر لیں، آدھ گھنٹے کے بجائے گھنٹوں گھروں سے نکل کر پاکستانی قوم سڑکوں پر کھڑی ہو جائے، کچھ نہیں ہونے والا۔ بھارت باتوں سے نہیں لاتوں سے مانے گا۔ اگر بھارت اور اقوام عالم کو مجبور کرنا ہے کہ وہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کریں تو اُس کے لیے میری ذاتی رائے میں پاکستان کو سرحدوں کی نگرانی سخت کرنا ہو گی اور ہر وہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا جس سے بھارت پر دبائو بڑھ سکے اور ایسے حالات پیدا کرنا ہوں گے کہ بھارت کے ساتھ ساتھ دنیا کو واقعی فکر لاحق ہو کہ دونوں ملکوں میں جنگ چھڑ سکتی ہے اور اس کا نتیجہ نیوکلیئر وار بھی ہو سکتا ہے۔ صرف ایسے حالات میں جب بھارت واقعی تکلیف محسوس کرے گا اور دنیا کو عالمی امن حقیقتاً خطرہ میں نظر آئے گا، تبھی مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہوگا۔ تقریروں، احتجاجوں، نعروں اور کھڑے ہونے یا بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ ہمیں اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنا ہوگا اور یہی وہ طریقہ ہے جس سے کوئی نتیجہ ممکن ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website