counter easy hit

عمران خان کے لیے ایک اور مشکل کھڑی ہوگئی

لاہور: لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 128 کی سیاسی تاریخ اور موجودہ سیاسی صورتِ حال انتہائی دلچسپ ہے۔یہ وہ حلقہ ہے جہاں سے ماضی میں محترمہ بنظیر بھٹو، عمران خان، سلمان تاثیر، ڈاکٹر مبشر حسن اور اعتزاز احسن جیسے کئی بڑے سیاستدان انتخاب لڑ چُکے ہیں۔

Another difficulty for Imran Khan was standingحالیہ حلقہ بندیوں سے قبل اس حلقے کا نمبر این اے 124 تھا۔ تاہم نئی حلقہ بندیوں کے دوران اس میں سابقہ این اے 130 کے بیشتر علاقے بھی شامل کر دئیے گئے ہیں۔اب یہ حلقہ شمالی لاہور کے علاقوں کیرول پنڈ، شالا مار باغ، بھسین پنڈ، دھوبی گھاٹ، دروغے والا، فتح گڑھ، حمید پور، سراج پورہ، فاروق آباد، باٹا پور، جلو موڑ اور دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔

حلقے کی کل آبادی آٹھ لاکھ سے زائد ہے جبکہ اس میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد لگ بھگ تین لاکھ ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں اس حلقے سے پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی ڈاکٹر مبشر حسن نے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔تاہم 1977ء کے انتخابات تک وہ پی پی پی کو خیرباد کہہ گئے جس کے باعث اس انتخاب میں خالد لطیف کاردار میدان میں اُترے اور کامیاب ہوئے۔1988ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو نے اس حلقے سے اسلامی جمہوری اتحاد کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار میاں عمر حیات کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ حلقے کی مزدور یونینز اور کسانوں نے بے نظیر کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے اُنہیں کامیاب کروایا تاہم بعدازاں انھوں نے یہ نشست چھوڑ دی۔ضمنی انتخاب ہوا تو آئی جے آئی کے ٹکٹ پر عمر حیات رکنِ قومی اسمبلی بننے میں کامیاب رہے۔ اسی طرح 1990ء کے عام انتخابات میں عمر حیات مسلسل دوسری بار آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار سلمان تاثیر کو سخت مقابلے کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا۔1993ء میں مسلم لیگ نون کے اُمیدوار میاں عبدالوحید کے مقابلے میں سلمان تاثیر نے دوبارہ قسمت آزمائی مگر اس بار بھی ناکام ہوئے۔ 1997ء کے انتخابات سے قبل عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی تو پہلا الیکشن لڑنے کے لیے اسی حلقے کا انتخاب کیا۔تاہم وہ مسلم لیگ نون کے ٹکٹ ہولڈر اور معروف ٹی وی پروگرام نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز کے مقابلے میں صرف ساڑھے چار ہزار ووٹ ہی حاصل کر پائے اور آج تک دوبارہ اس حلقے سے کبھی الیکشن نہیں لڑا۔2002ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن اس حلقے سے الیکشن لڑتے ہوئے کامیاب ہوئے۔ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے مشترکہ امیدوار تھے لیکن ان کے الیکشن لڑنے سے نون لیگ کے حمایتی دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ایک دھڑے نے اعتزاز احسن جبکہ دوسرے دھڑے نے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار عابد جلالی کی حمایت کی تھی لیکن اس کے باوجود عابد جلالی کو شکست ہوئی تھی۔اس الیکشن میں معروف سیاستدان اور نون لیگ کے سابق ایم این اے شیخ روحیل اصغر کے بیٹے خرم روحیل اصغر نے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا تھا اور تیسرے نمبر پر رہے تھے۔2008ء اور 2013ء کے عام انتخابات میں شیخ روحیل اصغر نے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر مسلسل دو بار الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔گزشتہ انتخابات میں ان کے مقابلے میں تحریکِ انصاف نے علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال کو ٹکٹ دیا تھا مگر انہیں 77 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔2013ء میں چوہدری اعتزاز احسن نے اپنی اہلیہ بشری اعتزاز کو الیکشن لڑوایا مگر وہ صرف سات ہزار ووٹ ہی حاصل کر پائیں جس کے باعث اعتزاز احسن نے نون لیگ پر دھاندلی کا الزام لگایا۔آئندہ انتخابات کے لیے اس حلقے کی سیاسی صورتِ حال اس طرح دلچسپ ہے کہ 2013ء میں این اے 130 اور این اے 124 سے نون لیگ کے ٹکٹ پر جیتنے والے دونوں ایم این ایز شیخ روحیل اور سہیل شوکت بٹ اب اس حلقے میں آمنے سامنے ہیں اور پارٹی ٹکٹ کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔مسلم لیگ کی قیادت کے لئے یہ ایک مشکل فیصلہ ہو گا کہ وہ کس کو ٹکٹ دے اور کس کو نظر انداز کرے۔تاہم دیکھا جائے تو شیخ روحیل اصغر پرانے پارلیمینٹیرین ہیں اور اس حلقے سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے متعدد بار منتخب ہو چکے ہیں جبکہ سہیل شوکت بٹ پہلی بار 2013ء میں انتخاب جیتنے تھے۔تحریک انصاف کی بات کریں تو اس کے لیے ٹکٹ کے لیے بھی یہاں دو بڑے امیدواروں اعجاز ڈیال اور ولید اقبال کے درمیان مقابلہ ہے۔ڈیال خاندان کے کئی افراد ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی رہ چُکے ہیں لہذا یہخاندان اس حلقے میں اچھا خاصا اثرو رسوخ رکھتا ہے۔اگر تحریکِ انصاف اعجاز ڈیال کو ٹکٹ دیتی ہے تو اُن کا مسلم لیگی امیدوار سے کانٹے دار مقابلہ ہو گا اور تحریکِ انصاف کے جیتنے کے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے۔دوسری جانب اگر سہیل شوکت بٹ نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور شیخ روحیل اصغر نے ان کی حمایت نہ کی تو انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا شیخ روحیل اصغر کو بھی ہو سکتا ہے۔