counter easy hit

معاشی استحکام کے لیے ایک اہم پیش رفت

لاہور: وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بھاری منافع کے قرضہ بانڈ ”پاکستان بنائو سر ٹیفکیٹ‘‘کا اجرا معاشی استحکام کے لیے ایک اہم پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کی مدت تین سے پانچ سال جبکہ کم از کم مالیت کسی بالائی حد کے بغیر پانچ ہزار امریکی ڈالر ہو گی۔

اس طرح بیرونِ ملک پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کا بہترین موقع فراہم کیا گیا ہے‘ جس سے ملک کے لیے زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہوگا۔ تین سالہ مدت پر شرح منافع 6.25 فیصد جبکہ پانچ سالہ مدت کے سرٹیفکیٹس پر 6.75 فیصد سالانہ ہوگی۔ منافع ہرچھ ماہ بعد ملے گا اور اس پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔ ”پاکستان بناؤ سر ٹیفکیٹ‘‘ کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آئندہ چھ ماہ میں ملک میں خوشحالی کے آثار پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق بانڈ مارکیٹ میں سب سے زیادہ بہتری پاکستان میں ہوئی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے سکیم کے خدوخال سے قوم کو آگاہ کیا اور سٹیٹ بینک کے گورنر طارق باجوہ نے اعداد و شمار کی روشنی میں ملکی معاشی صورتحال کے بارے آگاہ کیا ۔ اسی دوران جیوپولیٹیکل ایکسپرٹ اور یوروایشیا فیوچر تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ایڈمن گیری کا ویڈیو پیغام بھی سنایا گیا جن کا کہنا تھا کہ محمد علی جناح کے بعد عمران خان پاکستان کے بہترین حکمران ہوں گے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ موصوف نے سابق صدر پرویز مشرف کے بارے میں بھی ایسے الفاظ استعمال کیے تھے۔ یہاں یہ کہنا بے جا یا غیر ضروری نہ ہو گا کہ وزرا اور مشیروں کو تقریب کے بعد اب یک لخت منظر سے غائب نہیں ہو جانا چاہیے‘ کیونکہ شرکا ان سے تبادلہ خیال کر کے اپنی معلومات ان کو مختصر انداز میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح وزیراعظم کے مشیران بھی اگر شرکا سے مل کر ان کی رائے سے استفادہ حاصل کر لیں تو بہتر ہے۔ جہاں تک سانحہ ساہیوال کا تعلق ہے تو وزیراعظم عمران خان پنجاب کے ووٹرز کو اس وقت تک مطمئن نہیں کرسکیں گے جب تک اس وقوعے کے ذمہ دار ادارے کے اہلکاروں کو قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی۔ کسی نے اس سانحہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تو میں ان کا حشر شیخ مجیب الرحمن جیسا دیکھ رہا ہوں۔ پنجاب حکومت کے بعض وزرا اور ترجمان سچ سامنے لائیں تاکہ آئندہ سال ہونے والے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات میں اس سانحہ کے سیاسی نقصانات سے بچ سکیں۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں ا ہم بیوروکریٹس جو قومی احتساب بیورو کے روبرو مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور میاں نواز شریف‘ شہباز شریف ‘حمزہ شہباز‘ خواجہ سعد رفیق ‘خواجہ سلمان رفیق اور حنیف عباسی کو ضمانت پر رہائی مل سکتی ہے۔ یقینی طور پر ان کی اور سیاسی قائدین کی رہائی کے بعد عمران خان حکومت کے لیے سیاسی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ میرا خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پنجاب حکومت تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکلتی ہوئی نظر آرہی ہے اور چوہدری خاندان اپنے صوبائی اسمبلی کے دس ارکان کے ذریعے وہی کھیل کھیلیں گے‘ جو 1993ء میں پنجاب میں منظور وٹو نے اپنے 18 ووٹوں کی طاقت سے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔

نواز شریف ضمانت حاصل کرنے کے بعد جولائی میں پنجاب میں اقتدار کا مرکز تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ عمران خان صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد گزشتہ چھ ماہ کے دوران سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارات‘ ملائیشیا اور ترکی کے ہنگامی دورے کیے‘ جن کا بنیادی مقصد ان ممالک سے قرضوں کا حصول تھا۔ شنید ہے کہ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر نے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو آئی ایم ایف سے زیادہ مشکل شرائط پر قرضے فراہم کرنے کی منظوری دی۔ پاکستان کو ان قرضوں پر نہ صرف بہت زیادہ سود ادا کرنا ہے بلکہ اس کے ساتھ بہت مشکل ترین شرائط کا پابند بھی رہنا ہے‘ جو اس کے اپنے مفاد میں نہیں اور امریکہ کی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے حوالے سے بھی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان ممالک سے جو قرضے حاصل کیے جا رہے ہیں ان کے معاہدوں کے لیے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی درپردہ معاونت حاصل کی گئی ہے۔ ان شرائط میں یمن کے مسئلے پر عسکری تعاون حاصل کرنا‘ اور سی پیک منصوبے کو محدود کرکے اس میں مخصوص ممالک کی رسائی اور مداخلت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا بھی شامل ہے۔ حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کچھ معاملات بہت حساس ہوتے ہیں۔

ایسے حساس معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے ایسی شخصیات کی ضرورت ہے جو نہ صرف وزیراعظم عمران خان سے مخلص ہوں بلکہ معاملات کو ملکی مفاد کے عین مطابق حل بھی کروا سکیں۔ وزیراعظم کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ دانشمندی اور حکمت کا مظاہرہ کرکے آزمائشوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ملکی معیشت اس وقت شدید دبائو میں ہے ‘ڈالر کی بلند پرواز سے روپے کی قدر کم ہو گئی ہے‘ جس کی وجہ سے ملک کے مجموعی قرضو ں میں اضافہ اور عوام کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے ۔ ملک میں مہنگائی بے قابو ہو چکی ہے۔ صرف چھ ماہ میں ہی تحریک انصاف کی کار کردگی کا گراف گر چکا ہے۔ حکومت کے پاس معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کوئی وژن ہے اور نہ کوئی ٹھوس حکمت عملی۔ مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں لیکن وزیراعظم ‘گورنرز ‘وزرائے اعلیٰ‘ وزرا‘ مشیر حضرات اور ان کے صاحبزادگان پروٹوکول کاشاہانہ انداز میں استعمال کر رہے ہیں ۔ نواز شریف صاحب نے 1985 ء میں وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ایک ہی رات میں دس ہزار افراد کو میرٹ نظر انداز کرتے ہوئے بھرتی کیا تھا‘ اب وہ پودے قدآور درخت بن چکے ہیں۔ کرپٹ بیوروکریٹس نے ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ایک اور بحث طلب نکتہ وفاقی حکومت کی جانب سے حج پالیسی 2019ء کی منظوری اور حج پر حکومتی زر اعانت کا خاتمہ ہے۔

اس پالیسی کے مطابق امسال حکومت عوام کو فریضہ حج پر کسی بھی قسم کی رعایت نہیں دے گی۔ حجاج اکرام کی خدمت کرنا اور انہیںسہولتیں دینا ہر زمانے کے حکمرانوں کی روایت رہی ہے مگر اس حکومت کے وزراعمران خان کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں ۔یہ بھی درست ہے کہ زر اعانت کا فائدہ اکثر حقداروں کی بجائے اشرافیہ کو ملتا ہے۔ مثال کے طور پر سابق صدر ممنون حسین نے اپنے بیوی‘ بچوں سمیت 50 کے قریب عزیزواقارب‘ دوستوں‘ اپنے عملے اور ملٹری سیکرٹری اورخدمت گاروں کے ساتھ حج کیاتھا‘جس کے لیے غریب عوام کے مراعات یافتہ صدر نے پاکستان کے عوام کی محنت کی کمائی سے پانچ کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کروائی۔ اس کے برعکس بھارتی صدر ابوالکلام اپنے دورِ صدارت میں حج کی سعادت حاصل کرنے پہنچے تو سعودی حکومت کا پروٹوکول لینے سے بھی معذرت کرلی۔اپنی تنخواہ سے حج کے اخراجات پورے کیے۔ وہ آمدورفت کے لیے ٹیکسی کا سفر کرتے‘ عام بس سے مکہ شریف سے مدینہ منورہ پہنچے اور عام ہندوستانی حاجی کی مانند ہی حج کے فرائض کی ادائیگی کے بعد خاموشی سے وطن لوٹ گئے۔ حج کے دوران سعودی باد شاہ کی دعوتِ طعام میں جانے سے بھی گریز کیا۔ صدر ایوب خان کے دور حکومت سے 1970ء تک ہر حاجی کے لیے بارہ سو روپے کی رقم مقرر تھی‘ اور حاجی اپنے تمام اخراجات پورے کرنے کے بعد بھی سو دو سو روپے کی بچت کر لیا کرتے تھے۔ میرے دادا جان نے 1962ء میں صرف گیارہ سو روپے میں حج کی سعادت حاصل کی۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ حج پالیسی مرتب کرتے ہوئے بھارت‘ایران‘ انڈونیشیا ‘چین ‘ملائیشیا‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے حج کے حوالے سے حکومتی اقدامات کو مدنظر رکھیں۔وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کابینہ میں اگر ان ممالک کی حج پالیسی کا موازنہ پیش کرتے تو عمران خان انڈونیشیا کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کرتے۔ بدقسمتی سے عمران خان کی کابینہ میں دانش کا فقدان ہے اور بیوروکریسی تحقیقی مواد پیش کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔