counter easy hit

اکیسویں ترمیم، دہشت گردی اور سیاسی مصلحتیں

Parliament

Parliament

تحریر : فاروق اعظم
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی متفقہ منظوری کے بعد صدر مملکت نے فوجی عدالتوں کے بل پر دستخط کرکے اکیسویں آئینی ترمیم کو باضابطہ قانون کا درجہ دے دیا ہے۔ پاکستان کی 68 سالہ تاریخ میں آئین کی تدوین، منسوخی، معطلی اور ترمیم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ملک میں دو آئین منسوخ ہونے کے علاوہ 1973ء کا موجودہ آئین اکیس ترامیم کے ساتھ تین بار معطل ہوچکا ہے۔ یقیناََ آئین میں ترمیم ضرورت کے تحت ہی کی جاتی ہے۔ لیکن بعض ترامیم نے پاکستان کی سیاسی و صحافتی حلقوں سے لے کر عمومی سطح پر بھی خوب ہل چل پیدا کی ہے۔ ضیاء الحق کی آٹھویں اور پرویز مشرف کی سترہویں ترمیم جمہوری حلقوں میں آج بھی ہدفِ تنقید ہیں۔ جبکہ نواز شریف کی تیرہویں اور چودہویں ترمیم کو بھی حکومتی احتسابی عمل میں رکاوٹ بننے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کے دور میں اٹھارویں ترمیم نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو مستحکم کردیا ہے۔ حالیہ اکیسویں ترمیم میں قومی ایکشن پلان بل کے تحت آئین اور آرمی ایکٹ 1952ء میں ترامیم کرکے پاکستان میں دو سال کے لیے خصوصی فوجی عدالتوں کے قیام کو آئینی شکل دے دی گئی ہے۔

فوجی عدالتیں کوئی نئی شہ نہیں ہیں۔ اس سے قبل چار مارشل لاء ادوار کے علاوہ نواز شریف کے جمہوری دور میں بھی فوجی عدالتیں قائم کی جاچکی ہیں۔ گویا کہ فوجی عدالتوں کا تجربہ پاکستان میں چھٹی بار دہرایا جا رہا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد پوری قوم آپس کے اختلافات کو بھلاکر دہشت گردی کے خلاف یک زباں ہوگئی تھی۔ فوجی عدالتوں کے قیام پر تمام جماعتوں کی رضامندی اس بات کی دلیل تھی کہ مذہبی و سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کو کسی قسم کی رعایت دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے قومی ایکشن پلان بل کے الفاظ متنازع حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔اکیسویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتیں مذہب یا فرقے کی بنیاد پر ہتھیار اٹھانے والے شخص، گروہ، دہشت گرد گروپ اور تنظیم کا ٹرائل کریں گی۔

پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والوں، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں ملوث افراد کا ٹرائل بھی فوجی عدالتوں میں ہوگا۔ سول اور فوجی تنصیبات پر حملوں، اغواء برائے تاوان، بے گناہ شخص کو قتل کرنے، دھماکا خیز مواد، آلات یا خود کش جیکٹ رکھنے والوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔ بیرون ملک یا مقامی ذرائع سے دہشت گردی کے لیے فنڈ حاصل کرنے والوں اور غیر قانونی مذہبی سرگرمیوں میں ملوث افراد کا ٹرائل بھی فوجی عدالتیں کریں گی۔ اکیسویں ترمیمی بل کے الفاظ پر مذہبی حلقہ سخت تحفظات کا اظہار کر رہا ہے۔ پالیمانی مذہبی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی نے حکومت کی جانب سے ان کے تحفظات دور نہ کیے جانے پر ووٹنگ میں حصہ بھی نہیں لیا۔

اگر دیکھا جائے تو مذہبی حلقوں کے تحفظات اپنی جگہ درست معلوم ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کو مذہب اور فرقہ سے جوڑ کر سراسر امتیازی رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس بات سے اختلاف نہیں کہ مذہب کے نام پر گمراہ طبقوں نے درندگی کی بدترین مثالیں قائم کی ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے تمام تر واقعات مذہبی فرقوں کے کھاتے میں ڈال دینا حقائق پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان کے علیحدگی پسند مذہب کی بنیاد پربندوق اٹھائے کھڑے ہیں؟ کیا کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے تمام تر واقعات فرقہ واریت کا شاخسانہ ہیں؟ کیا لیاری میں گینگ وار کارندے مذہبی شناخت کی بنیاد پر مخالفین کو ٹھکانے لگا رہے ہیں؟ یقیناََ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں لسانی، علاقائی حتیٰ کے سیاسی بنیادوں پر بھی ہوتی رہی ہیں۔

اکیسویں ترمیم میں الفاظ کی ہیر پھیر نے سانحہ پشاور کے بعد دہشت گردی کے خلاف قائم قومی اتفاق رائے کو سبوتاژ کرکے رکھ دیا ہے۔ بل کے الفاظ سے یہ خدشہ ہونے لگا ہے کہ عدالتوں میں اب دہشت گردی کی اقسام بھی زیر بحث لائی جائیں گی۔ یعنی وکیل صفائی مدعا علیہ کی وکالت کرتے ہوئے مذہبی و غیر مذہبی، اچھے و برے دہشت گرد کی اصطلاحیں استعمال کریں گے۔ آخر آئین میں درج دہشت گردی کی اس تعریف کو کیوں اپنایا نہ گیا کہ جو بھی ریاست اور اداروں کے خلاف بندوق اٹھائے، یا بے گناہوں کا قتل عام کرے، وہ چاہے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو دہشت گرد کہلائے گا۔ سیاسی و صحافتی حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ قومی ایکشن پلان بل کے الفاظ سے سیاسی مصلحتیں جھلک رہی ہیں۔ حکمراں جماعت نے متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے فوجی عدالتیں قابل قبول بنانے کی خاطر الفاظ کی ہیر پھیر سے کام لیا ہے۔ حکمراں جماعت کی مجبوریاں اپنی جگہ، لیکن اس وقت ملک دہشت گردی کا شکار ہے۔

ملک میں فتنہ و فساد برپا کرنے والوں کا مقابلہ تن تنہا نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے قومی اتفاق رائے کا قائم ہونا ضروری ہے۔ مذہبی جماعتوں کے تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف اقدامات سے خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کو مذہب اور فرقے سے جوڑنا عمومی حلقوں میں بھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتیں باہمی اتفاق کی فضا قائم رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف یک زباں ہوجائیں۔ حکمراں جماعت اور قانون کے پاسداروں کو سمجھ لینا چاہئے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردوں میں تفریق کیے بغیر ہر تخریب کار کو قانون کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔

Farooq Azam

Farooq Azam

تحریر : فاروق اعظم
farooqazam620@yahoo.com
0315-2246038