counter easy hit

شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی

Sheikh Muhyiddin

Sheikh Muhyiddin

تحریر : شہزاد حسین بھٹی
شیخ اکبر محی الدین محمد ابن علی ابن العربی اور شیخ الاکبر کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا نام محمد ابن العربی، کنیت ابو بکر اورلقب محی الدین ہے۔ آپ تصوف اور راہ طریقت میں شیخ اکبر یعنی “سب سے بڑے شیخ “کے نام سے مشہور ہیں۔ صوفیا میں کسی نے آج تک اس لقب کو کسی دوسرے شیخ کے لیے استعمال نہیں کیا۔آپ 17 رمضان المبارک سن 560 ہجری کو اندلس کے شہر مرسیہ میں پیدا ہوئے۔ مرسیہ میں ان دنوں ابن مردینش کی حکومت تھی جیسے کہ شیخ اکبر خود اپنی کتاب محاضرات الابرار و مسامرا الاخیار میں فرماتے ہیں: اسی خلیفہ کے زمانے میں (مراد مستنجد باللہ) میری پیدائش مرسیہ میں مملکت سلطان ابو عبد اللہ محمد بن مردینش کے دور میں ہوئی۔آپ کا تعلق عرب کے مشہور قبیلے “طے “سے تھا۔ شیخ اکبر کے جد اعلی حاتم طائی عرب قبیلہ بنو طے کے سردار اور اپنی سخاوت کے باعث صرف عرب ممالک میں ہی نہیں پوری دنیا میں مشہور تھے ان کی نسل سے آپ کا خاندان تقوی عزت اور دولت میں اہم مقام رکھتا تھا۔ آپ کے دو خالو طریق زہد کے سالکین میں سے تھے۔آپ کے ایک ماموں کا تعلق صوفیاء کی مجالس سے تھا۔

آپ کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مردنیش کے سرکاری ملازم تھے۔ ابن العربی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کے قبضہ کرلینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ مرسیہ میں ابن العربی کا قیام صرف 8برس رہا۔ ابتدائی تعلیمی مراحل تو آپ مرسیہ اور لشبونہ (لزبن) میں طے کر چکے تھے اس کے بعد آپ اشبیلیہ آئے جہاں آپ 598ھ تک یعنی تقریباً تیس سال رہے۔ اس عرصے کے دوران آپ حصول علم میں ہمہ تن مصروف رہے اور تمام علوم متداولہ مثلاً قرات، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، ریاضی، فلسفہ، نجوم، حکمت، اور دیگر علوم عقلیہ میںکامل دسترس حاصل کی۔ آپ نے اپنے دور کے نامور اور اعلی مقام اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔ آپ کے مشائخ اور اساتذہ کی تعداد 70 تک پہنچتی ہے۔

ابن العربی کی غیر معمولی صلاحیت اور علم کا چرچا اندلس میں پھیلنا شروع ہوا، تو مشہور فلسفی اور قرطبہ کے قاضی القضاابو الولید ابن رشد نے آپ کے والد سے کہا کہ کسی وقت اپنے بیٹے کو میرے پاس بھیجیں۔ اس ملاقات کا حال ابن العربی نے” فتوحات مکیہ ” میں خود ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ” میں ایک روز قرطبہ میں وہاں کے قاضی ابو ولید بن رشد کے پاس گیا۔ انہیں میری ملاقات کا شوق تھا ، اس سبب سے، جو انہوں نے میرے بارے میں سن رکھا تھا اور مجھ پر اللہ نے میری خلوت میں جو اسرار کھولے تھے ، جن کے بارے میں ان کو پتا چلا تھا۔ وہ ان سنی ہوئی باتوں پر تعجب کا اظہار کرتے تھے۔

Literacy

Literacy

میرے والد نے مجھے کسی حاجت کے سلسلے میں ان کے پاس بھیجا، اس قصد کے ساتھ کہ وہ مجھ سے ملیں ، کیونکہ وہ آپ کے دوستوں میں سے تھے۔ اور میں ابھی بچہ تھا۔ میری مسیں ابھی نہ بھیگی تھیں۔ جب میں داخل ہوا، تو وہ محبت اور تعظیم کے لئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھ سے معانقہ کیا۔ پھر مجھ سے کہا: ہاں۔ میں نے ان سے کہا: ہاں۔ اس پر ان کو بہت خوشی ہوئی کہ میں نے ان کی بات کو سمجھ لیا تھا۔ پھر میں جان گیا کہ وہ کیوں اس بات پر خوش ہوئے تھے ، تو میں نے ان سے کہا: نہیں۔ اس پر ان کو انقباض ہوا اور ان کا رنگ بدل گیا۔ اور انہیں اپنے علم کے بارے میں شک پیدا ہوا۔انہوں نے کہا: تم نے کشف اور فیض الٰہی میں اس امر کو کیسا پایا۔ کیا وہ وہی کچھ ہے ، جو ہمیں سوچ و بچار سے ملتا ہے ؟ میں نے کہا: ہاں اور نہ اور ہاں اور نہ کے مابین روحیں اپنے مواد سے اور گردنیں اپنے اجسام سے اڑتی ہیں۔ ان کا رنگ زرد پڑ گیا اور وہ کانپنے لگے اور بیٹھ کر لاحول ولا قوة پڑھنے لگے اور وہ اس چیز کو جان گئے جس کی جانب میں نے اشارہ کیا تھا۔ اور یہ عین وہی مسئلہ ہے ، جس کا ذکر اس قطب امام یعنی مداوی الکلوم نے کیا تھا۔

اس کے بعد انہوں نے میرے والد سے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تا کہ وہ میرے سامنے اس چیز (علوم) کو پیش کر سکیں ، جو ان کے پاس تھی یہ جاننے کے لئے کہ کیا وہ موافق ہے یا مخالف۔ کیونکہ وہ ارباب فکر اور (اصحاب )نظر و عقل میں سے تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اس بات پر کہ وہ ایسے زمانے میں تھے ، جس میں انہوں نے ایک شخص کو دیکھا ، جو اپنی خلوت (چلہ) میں جاہل ہوتے ہوئے داخل ہوا اور اس طرح (علم سے مالا مال) خارج ہوا بغیر لیکچروں کے اور بحث (مباحثہ) کے اور بغیر (تحقیقی) مطالعہ کے اور بغیر (استاد کے سامنے ) پڑھنے کے۔ا نہوں نے کہا کہ اس بات کو ہم نے (دلائل)سے جانا ہے۔ مگر ایسے (استعداد رکھنے والے)ارباب کو ہم نے نہیں دیکھا تھا۔ سو اللہ کا شکر ہے کہ میں ایسے زمانے میں ہوں ، جس میں ان ارباب میں سے ایک پایا جاتا ہے ، جو بند دروازوں کو کھولنے والے ہیں۔ اللہ کا شکر اس بات پر کہ اس نے مجھے اس کو دیکھنے کی خصوصیت سے نوازا”۔شیخ نے 21,20 برس کی عمر میں جادہ سلوک میں قدم رکھا اور مشائخ اشبیلیہ سے میل جول بڑھانا شروع کیا۔

جلد ہی شیخ اکبر نے دنیا سے قطع تعلق کر لیا اور قبرستانوں میں وقت گزارنا شروع کر دیا جس میں آپ سارا سارا دن مردوں کی روحوں سے براہ راست رابطے میں رہتے۔ آپ کے مرشد شیخ یوسف بن یخلف الکومی کو خبر پہنچی کہ ابن العربی اپنا وقت قبرستان میں گزارتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے کسی موقعہ پر کہا کہ سنا ہے ابن العربی نے زندوں کی مجلس کو چھوڑ کر مردوں کی مجلس اختیار کر لیا ہے۔ا بن عربی نے انہیں پیغام بھیجا کہ آپ خود آکر دیکھیں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ مجلس لگاتا ہوں۔ چنانچہ ایک روز وہ ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد قبرستان میں گئے ، جہاں پر ابن العربی حاضر ہونے والی ارواح کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ شیخ یوسف دھیرے سے آپ کے پہلو میں جا کر بیٹھے اور ابن العربی نے دیکھا کہ ان کا رنگ فق پڑ گیا تھا۔ ابن العربی نے ان کی طرف مسکرا کر دیکھا ، مگر شیخ یوسف اپنے اندرونی کرب کے سبب مسکرا نہ سکے۔ جب مجلس ختم ہوئی ، تو استاد کے چہرے پر رونق لوٹ آئی اور انہوں نے شاگرد کی پیشانی کو چوما۔ ابن العربی نے پوچھا: ” استاد کون مردوں کے ساتھ مجلس لگاتا ہے ، میں یا آپ؟” شیخ یوسف نے کہا: ” خدا کی قسم میں مردوں کے ساتھ مجلس کرتا ہوں۔ اگر مجھ پر حال وارد ہو جائے تو میں سب کچھ چھوڑ دوں”۔

Life

Life

شیخ اکبر نے اپنی زندگی کے پہلے 36 سال مغرب میں اور دوسرے36 سال مشرق کی سیاحت اور اسفار میں گزارے۔ ابن العربی نے پہلی بار اندلس کی سر زمین سے باہر کا سفر کیا۔ آپ نے تونس میں ابوالقاسم بن قسی۔جومغرب (مراکش) میں المراودون کے خلاف اٹھنے والے صوفیوں کے بانی قرار دیئے جاتے ہیںکی کتاب خلع النعلین کا درس لیا۔ مکہ میں قیام کے دوران شیخ مکین الدین کی بیٹی نظام نعمت جو تقوی، پارسائی، اخلاق اور حسن ظاہری میں اپنی مثال آپ تھی۔ شیخ اکبر ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ترجمان الاشواق کی صورت میں اپنے جذبات کو الفاظ اور شاعری کا سہارا دیا۔ مکہ میں آپ نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔599ھ میں مکہ میں ہی خاتم الولای کے منصب پر فائز ہونے کا خواب دیکھا۔ مکہ میں اپنے قیام کے دوران آپ نے فتوحات مکیہ لکھنے کا آغاز کیا۔

اس کے علاوہ رسالہ حلی الابدال اورآپ نے اندلس کے صوفیا کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس (اصلاح نفس کا آئینہ حق) لکھی۔601ھ میں مشرقی ممالک کے 12سالہ طویل سفر پر روانہ ہوئے۔ بغداد گئے جہاں شیخ عبد القادر جیلانی کے رفقاء سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد موصل گئے وہاں “تنزلات الموصلی” نامی کتاب لکھی۔ اس کے علاوہ کتاب جلال و جمال بھی تصنیف کی۔ اس کے بعدبدر حبشی اور مجد الدین اسحاق بن محمد رومی کے ہمراہ ملطیہ پہنچے۔ پھر سلطان کیکاؤس اوّل کی دعوت پر قونیہ کا سفر کیا۔ قونیہ میں ”رسال الانوار” نامی کتاب لکھی۔602ھ میں دوبارہ ملطیہ لوٹے اور پھر بیت المقدس کا سفر کیا جہاں وہ ہبرون گے اور وہاں حضرت ابراہیم کے روضہ مبارک پر ”کتاب الیقین” لکھی۔ اس کے بعد قاہرہ روانہ ہوئے۔ قاہرہ میں ایک اور مرید ابن سودکین نے شاندار خدمات سر انجام دیں۔ حلب میں انکا گھر آئیندہ40برس تک ابن العربی کی تصانیف کی تدریس کے لئے مخصوص رہا۔608ھ میں دوبارہ بغداد کاسفر کیا۔ اسی دوران بغداد میں معروف صوفی صاحب عوارف المعارف شہاب الدین ابو حفص عمر سہروردی سے ملاقات کی جو خلیفہ الناصر کے ذاتی استاد بھی تھے۔

ابن العربی شروع میں مالکی مذہب پر کار بند تھے مگر منازل سلوک طے کرنے کے بعد آپ ایک ایسے مجتہد کے رتبے پر فائز ہو چکے تھے کہ تمام علوم گویا آپ کے سامنے عیاں ہیں۔ جس میں سے چاہتے ہیں ، لے لیتے ہیں۔ آپ نے تصوف میں گویا سلف الصالحین کے مسلک کو اپنانے کی کوشش کی اور اپنے عقائد کی بنیاد شرع کے میزان پر رکھی۔ اپنے ایک رسالے میں اہل سنت کے لفظ سے اشارہ کرتے ہیں گویا وہ اپنے آپ کو اس حدیث کے تابع سمجھتے تھے۔ جس میں حضور ۖنے فرمایا کہ اسلام میں بھی73فرقے ہوں گے۔ اور اْن میں سے صرف ایک راہ حق پر ہو گا اور یہ لوگ اس طریق پر ہوں گے جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔شیخ اکبر نے اپنے رسالہ نسب الخرقہ میں اپنے پانچ مختلف سلاسل سے بیعت کا تذکرہ کیا ہے۔ جن میں دو سلسلوں میںحضرت خضر علیہ السلام، ایک واسطے سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے سلسلہ قادریہ میں بیعت ہیں جبکہ ایک سلسلے میں وہ اویس قرنی کے واسطے سے حضرت علی علیہ السلام اور حضرت محمد ۖ تک پہنچتے ہیں۔شیخ اکبر نے75برس کی عمر میں 22ربیع الثانی638ھ ، 9نومبر1240ء میں وفات پائی۔ انہیں شہر کے شمال مغرب میں کوہ قاسیون کے دامن میں قریہ صالحیہ کے مقام پر قاضی محی الدین الزکی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ اللہ تعالی نے اللہ انہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین

Shahzad Hussain

Shahzad Hussain

تحریر : شہزاد حسین بھٹی