counter easy hit

مخالفت برائے تشہیر کا نسخہ

کل ایک شخص سے ہماری لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی، وہ ’’کرپشن‘‘ کے بارے میں نہایت بری بری باتیں کر رہا تھا بلکہ باتوں سے جی نہیں بھرا تو گالیوں پر آیا اور بے چاری کرپشن اور اس کے گھر والوں کے بارے میں کچھ ایسے انکشافات کرنے لگا جو قطعی غیرممکن تھے بھلا جانوروں اور انسانوں کے درمیان ایسے رشتے کیسے ممکن ہو سکتے تھے، یوں کہئے کہ سراسر کرپشن پر ’’منفی تنقید‘‘ میں حد سے گزر گیا، اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ہم نے کرپشن کی طرف داری کا ’’برملا‘‘ اعلان کیا ہوا ہے بلکہ خود کو اس کے ’’سرکاری ترجمان‘‘ کا عہدہ خود ہی دیا ہوا ہے، اس لیے الجھ پڑے، وہ تو اچھا ہوا کہ دوسری طرف سے فوراً سفید جھنڈی لہرا دی گئی ورنہ ہم پر نہ جانے تعزیرات پاکستان کی کتنی دفعات لاگو ہو جاتیں۔ اس نے نہ صرف صلح پسندی سے کام لیا بلکہ ہمیں الگ لے جا کر سمجھا بھی دیا اور ہم فوراً سمجھ بھی گئے کیوں کہ اس کے پاس بڑی قوی دلیل تھی۔

اصل میں وہ اپنا ہی آدمی تھا اور کرپشن کی مخالفت میں دراصل پرچار اور تشہیر کر رہا تھا۔ اس کے سمجھانے پر تو ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ دنیا میں تشہیر کی ایک تکنیک یہ بھی ہے کہ برا بھلا کہہ کہہ کر یاد دلایا کرو، جیسے ہماری ایک پڑوسن اس معاملے میں خاصی مشہور تھی کہ جب دو لوگوں میں لڑائی ہوتی تھی تو وہ کھڑی ہو کر اللہ خیر، اللہ خیر کے ساتھ قرب و جوار میں موجود آلات ضرر کا نام بھی لینا شروع کر دیتی، یااللہ خیر کہیں پتھر پر کسی کی نظر نہ پڑے، یااللہ خیر کہیں اس درانتی بیلچہ کدال کی طرف خیال نہ جائے،یااللہ خیر کہیں بندوق چھرا پستول استعمال نہ کرے۔

اس مرد دانا کو ایک نئی ایجاد کا ماہر پا کر ہم نے ایک ہوٹل میں اس کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ایک کپ چائے کی ’’گرو دکھشنا‘‘ دے کر بہت کچھ معلوم کر لیا۔ اس نے بتایا کہ تم امریکی سی آئی اے کے بارے میں کیا جانتے ہو۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ ایک بڑا ہی زبردست، وسیع و عریض اور طاقت ور ادارہ ہے جو ہر ملک میں حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیا کرتا ہے۔ اس نے کہا ، یہی … یہی اصل نکتہ ہے کہ اس کے بارے میں یہ ساری باتیں خود اسی نے پھیلائی ہوئی ہیں اخباروں میں، کتابوں میں، رسالوں میں اور چینلوں پر مخالفت ہی مخالفت میں وہ اپنی طاقت، خطرناکی، خوف ناکی اور دہشت ناکی کی تشہیر کرتا ہے۔ کانوں کے ساتھ ساتھ ہم منہ بھی کھول کر اس کی باتیں سننے لگے۔ تو بولا ، جانتے ہو… دنیا بھر میں سگریٹ اور تمباکو نوشی کیوں بڑھ رہی ہے۔

ہم نے لاعلمی کا اظہار کیا تو بولا ، کسی دن پڑوسی ملک کے چینلوں پر دیکھو ہر پروگرام سے پہلے، درمیان میں اور پھر آخر میں ’’دھومر پان ہانی کارک ہے‘‘ کا اشتہار آتا ہے، دیکھنے والے کو یاد آجاتا ہے کہ اس نے دیر سے سگریٹ نہیں پی ہے، پروگرام میں ’’محو‘‘ ہونے کی وجہ سے وہ سگریٹ سلگانا بھول چکا تھا اس غرض کے لیے پروگراموں کی دل چسپی کو بار بار بریک کر کے سگریٹ کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے جیسے ہی کوئی دل چسپ یا حیرت زدہ مقام آتا ہے فوراً ہی یاد دہانی کرا دی جاتی ہے، تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے، جہاں تک صحت اور مضر کا معاملہ ہے تو اس معاملے میں لوگ بالکل ہی لاپروا ہو چکے ہیں، وہ سوچتے ہیں جب اتنے ’’مضر صحت‘‘ امراض جیسے لیڈر، سرکاری محکمے، مہنگائیاں اور تباہ کاریاں انھیں لاحق ہیں وہاں ایک اور سہی، بلکہ ایک طرح سے تقریباً سارے لوگ زندگی سے اتنے تنگ ہیں کہ اس قید بامشقت سے جلد از جد فرار ہونا چاہتے ہیں

عجیب شخص تھا مجھے تو حیران کر گیا

اس کی معلومات افزا اور چونکا دینے والی باتیں سن کر ہم نے حسب عادت جب اپنا تحقیق کا ٹٹو چل سو چل کیا تو کئی واقعات ایسے یاد آئے جن میں کسی چیز کی مخالفت اس کی تشہیر کا باعث بنی تھی۔ ایک زمانے میں ایک برطانوی عورت غالباً کرسٹائن کیلر نام تھا اور پرفومو نامی کسی وزیرکا نام بھی کرسٹائن کیلرایک ہی دن میں بے پناہ منفی شہرت پا گئی تھی۔ ایک پیر صاحب جس کے ڈرائیور نے بعد میں ہمیں بتایا کہ پیر صاحب یورپ کا دورہ بذریعہ کار کر رہے تھے اس وقت ہم برطانیہ سے واپس ہو کر اٹلی پہنچے تھے کہ کرسٹائن کیلر اور اس کے ذاتی معاملات کا شہرہ ہوا۔

پیر صاحب نے سنا تو مجھ سے کہا کہ گاڑیوں کا رخ واپس لندن کی طرف کر دو۔ یہ تو ہمارے سامنے کا واقعہ ہے کہ ایک آدمی بچوں کو پیسے اور ٹافیاں وغیرہ دے کر اکساتا تھا کہ وہ آپس میں لڑتے ہوئے گالیوں میں اس کا نام ایڈ کر لیا کریں چنانچہ گاؤں بھر میں بچے دن بھر گلی کوچوں اور گھروں میں اس کا نام طرح طرح کے حوالوں سے مشتہر کرتے رہتے تھے۔ بعد میں اس نے کسی کو بتایا کہ وہ اپنا نام خواتین تک پہنچانا چاہتا تھا اور اس کے نتائج اچھے خاصے حوصلہ افزاء نکلے تھے۔

جب ہم نے مخالفت برائے تشہیر کے موضوع پر مزید تحقیق کی تو بات چلتے چلتے بہت دور یعنی عرب کے زمانہ جاہلیت تک جا پہنچی یعنی صرف ہم ہی بے خبر تھے ورنہ تشہیر کا یہ نسخہ بہت پرانا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں ایک تاجر کہیں سے سیاہ رنگ کا کپڑا خاصی مقدار میں لے آیا جو فروخت نہیں ہو رہا تھا، اس نے کافی کوشش کی لیکن کپڑا نکل نہیں رہا تھا پھر اسے ایک تدبیر سوجھی اور ایک شاعر کو گانٹھ لیا۔

شاعر نے ایک زبردست قصیدہ لکھا جس میں اس کالے کپڑے اور سیاہ نقاب کو طرح طرح سے مطعون کیا کہ کالا نقاب اور کالے کپڑے خدا تیرا بیڑا غرق کرے تم نے تو میرا خانہ خراب کر ڈالا، اس کا گورا رنگ پہلے ہی جان لیوا تھا کہ تیرے کالے نقاب نے اور سیاہ پہناوے نے اسے چار آتشہ کر دیا، اے حسن کو دوبالا کر کے عاشقوں کو تباہ کرنے والے سیاہ کپڑے تیرا خانہ خراب ہو، دنیا سے تمہارا نام ونشان مٹ جائے، تجھے ہم عاشقوں کی ہائے لگے، اس قصیدے نے آگ لگا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے تاجر کا کپڑا منہ مانگے داموں فروخت ہو گیا۔

خلاصہ اس کلام کا یہ ہے کہ یہ اچھے خاصے مستند قسم کے کرپٹ لوگ جو یہ روزانہ کرپشن کو بھلا برا کہہ رہے ہیں یہ مخالفت برائے تشہیر ہے، یعنی اب ہر آدمی سمجھ چکا ہے کہ کسی بھی دفتر میں جاتے ہوئے اگر یہ امرت دھارا ساتھ نہ ہو تو نہ جانا ہی بہتر ہے اور یہ سب ’’مخالفت‘‘ کی برکت ہے ورنہ کرپٹ لوگ اپنے حق میں مثبت اشتہار تو دے نہیں سکتے اور ضرورت بھی نہیں۔ ’’مخالفت‘‘ سے زیادہ تشہیر اور یاد دہانی اور کیا ہو سکتی ہے

ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسر الزام ہی آئے

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website