counter easy hit

عافیہ کی رہائی اور میثاقِ کراچی

America

America

تحریر: فاروق اعظم
نائن الیون کے بعد امریکا نے ”امن” کے قیام کے لیے ”دہشت گردی” کے خلاف جنگ کا آغاز کیا، تو جنوبی ایشیائی خطے پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ ایک طرف خودکش حملوں اور بم دھماکوں سے فضا خون آلود ہوئی، تو دوسری طرف جیتے جاگتے انسانوں کی گمشدگی کا آغاز ہوا۔ اب تک کئی ہزار افراد اس جنگ کی نذر ہوچکے ہیں۔ جبکہ امریکی عقوبت خانوں میں اسیروں کا معاملہ اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے۔ کل تک آزاد فضائوں میں سانسیں لینے والے آج اپنوں سے دور، کال کوٹھڑیوں میں بند، اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں۔

صرف افغانستان اور پاکستان کا جائزہ لیں تو ایسے ہزاروں افراد کی فہرست مرتب ہوسکتی ہے، جو امریکی عقوبت خانوں میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزائیں بھگت رہے ہیں۔ ایک ایک قیدی پر لکھا جائے تو ظلم کی ہزاروں داستانیں منظر عام پر آسکتی ہیں۔ انہی میں سے ایک وحشت ناک کہانی کا عنوان ”ڈاکٹر عافیہ صدیقی” ہے۔ یہ 2003ء میں اپنے 3 بچوں سمیت کراچی سے اغوا کی گئی۔ طویل عرصہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہے؟ بعد میں نومسلم برطانوی خاتون صحافی مریم (ایوان ریڈلی) نے قیدی نمبر 650 کے نام سے ان کا انکشاف کیا کہ وہ بگرام کے عقوبت خانے میں دردناک امریکی مظالم سہہ رہی ہیں۔

کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ امریکی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی عافیہ صدیقی، اس قدر اذیت ناک طریقے سے امریکی عتاب کا نشانہ بنے گی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ایک عورت ذات امریکہ کی راہ میں رکاوٹ کیسے بن سکتی تھی؟ اب تک جتنے بھی افراد لاپتہ کیے گئے، ان کے بارے میں یہی کہا گیا کہ وہ امن کے منافی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ کیا کوئی ذی شعور یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ معاشرے کی ایک عام سی خاتون امریکی مفادات کی راہ میں ایک بہت بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتی تھیں؟ جنہیں انتہائی خفیہ طریقے سے اٹھایا گیا۔ ظلم در ظلم یہ ہے کہ ان کے بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا، والدہ کی طرح انہیں بھی ایک طویل عرصہ اپنے گھر سے الگ تھلگ رہنا پڑا۔ تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالی جائے تو شاید ہی کوئی قیدی نظر آئے، جن کا نام ظلم کے خلاف تحریک کی علامت بن چکا ہو۔ امریکا کی قید میں ناکردہ گناہوں کی سزائیں جھیلنے والے ہزاروں کی تعداد میں ہوں گے۔ لیکن ڈاکٹر عافیہ ظلم کے خلاف ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ تاریخ میں جب بھی امریکی مظالم کے شکار افراد کا تذکرہ ہوگا تو بلا مبالغہ عافیہ صدیقی کا نام امریکی مظالم کے لیے استعارہ کی حیثیت سے لکھا اور پڑھا جائے گا۔

Aafia Siddiqui

Aafia Siddiqui

ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیسے ممکن ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے عافیہ موومنٹ نے مزار قائد پر قومی جرگہ منعقد کیا۔ جس میں عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی، جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد صدیقی، جماعت اسلامی، جماعة الدعوة، تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، پاسبان، مسلم لیگ (ق) اور عوامی مسلم لیگ کے رہنمائوں سمیت وکلائ، دانشوروں، کالم نگاروں اور سینئر صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جرگہ کے میزبان پروفیسر سلیم مغل کا یہ کہنا بالکل درست تھا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں حکومتی مشینری، عدالتیں اور قوانین موجود ہوں، وہاں جرگہ منعقد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جب حکومتیں بے حس ہوجائیں، عدالتوں سے انصاف نہ ملے، قوانین صرف قانون کی کتابوں تک محدود ہو، تو عوام خود مسئلے کا حل نکالنے کے لیے جرگہ بلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

مزار قائد پر قومی جرگہ میں اظہار خیال کرنے والوں کے درمیان ایک بات مشترک پائی گئی کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی سب سے بڑی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ امریکا اپنے جاسوس ریونڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے پاکستان کی عدالتوں کو ہینڈل کرکے ان سے سیاسی فیصلہ کرواسکتا ہے، تو پاکستان اپنے شہری کے لیے امریکا سے بات کیوں نہیں کرسکتا؟ ریونڈ ڈیوس پاکستانی شہریوں کا قاتل تھا جبکہ ڈاکٹر عافیہ پاکستان سے اغوا ہوئی۔ ان پر الزام اسیری کے دوران بگرام جیل میں امریکی فوجیوں سے رائفل چھین کر ان پر حملہ کرنے کا لگایا گیا، اور سزا امریکی عدالتوں کے ذریعے امریکا میں دلوائی گئی۔

قومی جرگہ کے شرکاء نے اسی بنیاد پر اتفاق رائے سے ”میثاقِ کراچی” کی منظوری دی۔ جس کے مندرجات میں کہا گیا ہے کہ عافیہ کی رہائی اخلاقی، معاشرتی، اسلامی اور قانونی پہلوئوں سے حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ عافیہ کی طویل حراست قوم کی تذلیل ہے، جسے پاکستانی قوم اب مزید برداشت نہیں کرے گی۔ لہٰذا حکومت اپنی اخلاقی، دینی، سفارتی اور قانونی ذمہ داریوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عافیہ کی رہائی کے لیے فی الفور اقدامات کرے۔ اس سلسلے میں جرگے نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی، جو وزیر اعظم، آرمی چیف، وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ سے ملاقات کرے گی اور عافیہ کو وطن واپس لانے کے لیے حکومت کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔

عافیہ کی رہائی کے لیے پاکستانی قوم نے ہمیشہ یک زباں ہوکر آواز بلند کی ہے۔ قوم کے جذبات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قومی جرگے کے دوران ایک دس سالہ بچے نے یہ پیشکش کر ڈالی کہ عافیہ کے بدلے مجھے قید رکھ لیا جائے، ان کی بقیہ سزا میں بھگتنے کو تیار ہوں۔ دوسری طرف ہماری حکومتوںکی سنجیدگی دیکھئے، پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی اور اب نواز شریف کی حکومت بھی اس مسئلے پر غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ہماری حکومتوں کے لیے اس ضمن میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کیس قابل غور ہے۔ شکیل آفریدی کی غداری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ لیکن امریکا کے لیے اہم کارنامہ سرانجام دینے پر وہ ہر صورت اس غدار وطن کو پاکستان سے لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر امریکا ایک غدار کے لیے اس قدر کوششیں کرسکتا ہے، تو پاکستان اپنے شہری کے لیے جو ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے، کردار کیوں ادا نہیں کرسکتا؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے حکمران عافیہ کی رہائی کے لیے کس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیونکہ عافیہ کی رہائی قرض بھی ہے اور فرض بھی۔

Farooq Azam

Farooq Azam

تحریر: فاروق اعظم
farooqazam620@yahoo.com
0315-2246038