counter easy hit

ویمن آف کریج ایوارڈ 2021: سات افغان خواتین بعد از مرگ ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں شامل

اسلام آباد(ایس ایم حسنین)امریکی محکمہِ خارجہ کی جانب سے افغانستان سے تعلق رکھنے والی سات خواتین کو بعد از مرگ باہمت خواتین کی خدمات کے اعتراف میں دیے جانے والے ‘ویمن آف کریج ایوارڈ’ سے نوازا گیا ہے۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والی ان سات خواتین لیڈروں اور کارکنوں نے گزشتہ سال افغان عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ہر ملک میں تعینات، امریکی سفارتی مشن، اپنے میزبان ملک سے کسی جرات مند خاتون کے نام کی سفارش کرتے ہیں جس کے بعد محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیدار، حتمی فہرست کی منظوری دیتے ہیں۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن، آج سوموار 08 مارچ کو دنیا بھر سے خواتین کو ان کی غیر معمولی جر ات اور بہادری کے اعتراف میں سالانہ انٹرنیشنل ویمن آف کریج ایوارڈ دیں گے۔ امریکہ کی خاتونِ اول ڈاکٹر جل بائیڈن ان خواتین کی جرات مندانہ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے افتتاحی کلمات ادا کریں گی۔ تاہم کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کی وجہ سے احتیاط کے پیشِ نظر یہ تقریب ورچوئل یعنی آن لائن ہو گی۔ اس میں سماجی فاصلے کا احترام کرتے ہوئے پریس کے لوگ شامل ہو سکیں گے، اور اِسے محکمۂ خارجہ کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن، افغانستان کی سات خواتین کو بعد از مرگ ایک اعزازی ایوارڈ پیش کریں گے جنہیں افغانستان کی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر 2020 میں عوامی خدمات کی انجام دہی کے دوران قتل کر دیا گیا۔ محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ قتل خواتین کے خلاف ایک انتباہی رجحان کا پتہ دیتے ہیں اور امریکہ تشدد کے ایسے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہے۔ فاطمہ نتاشا خلیل، جو افغانستان کے آزاد و خود مختار کمیشن برائے انسانی حقوق کی عہدیدار تھیں، جنہیں کابل میں جون 2020 میں دفتر جاتے ہوئے ڈرائیور سمیت بم حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ جنرل شرمیلا فروغ، افغانستان کی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی میں جینڈر یونٹ کی سربراہ تھیں، انہیں مارچ 2020 میں کابل میں بم حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ مریم نور زاد، صوبہ وردک اور بامیان کے دور دراز علاقوں میں مڈ وائف کی خدمات انجام دیتی تھیں۔ انہیں مئی 2020 میں کابل کے ایک زچہ بچہ وارڈ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس حملے میں کئی خواتین اور نومولود بچوں کو بھی گولیاں ماری گئیں۔ فاطمہ رجبی، انسدادَ منشیات ڈویژن میں ایک 23 سالہ پولیس افسر تھیں۔ انہیں اپے آبائی گھر جاتے ہوئے بس روک کر اغوا کیا گیا اور پھر دو ہفتے بعد قتل کرکے نعش گھر بھیج دی گئی۔ فرشتے، دختر امیر محمد، محکمہ جیل خانہ جات میں بطور گارڈ کام کر رہی تھیں، اکتوبر 2020 کو انہیں ٹیکسی پر گھر جاتے ہوئے نا معلوم حملہ آور نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ ملالئی میوند، انعکاس ریڈیو اور ٹیلی وژن کی رپورٹر تھیں جنہیں نامعلوم حملہ آور نے ڈرائیور سمیت گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس سے پانچ سال پہلے ان کی والدہ کو بھی جو خود بھی ایک سرگرم کارکن تھیں۔ نامعلوم حملہ آور نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ انتیس سالہ فرشتے کوہستانی، خواتین کے حقوق اور جمہوریت کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن تھیں جنہیں دسمبر 2020 میں نامعلوم حملہ آور نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ یہ تو وہ افغان خواتین ہیں جنہیں بعد از مرگ اعزازی ایوارڈ دیا جا رہا ہے ۔ اب ذکر اُن خواتین کا جنہیں دفترِ خارجہ 2021 کا ویمن آف کریج ایوارڈ دے رہا ہے۔ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی خواتین کی فہرست میں پاکستان اور بھارت سے کسی خاتون کا نام شامل نہیں ہیں۔ افغانستان، سری لنکا، نیپال، ایران، میانمار، ترکی اور چین سمیت لاطینی امریکہ اور افریقہ کی خواتین ایوارڈ وصول کرنے والوں میں شامل ہیں۔ دنیا بھر میں سخت خطرات اور اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر امن، انصاف، انسانی حقوق، صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے غیر معمولی جرات اور لیڈر شپ کے اعتراف میں، امریکی وزیرِ خارجہ کی جانب سے دیا جانے والا یہ ایوارڈ اپنے 15 ویں برس میں داخل ہو چکا ہے۔امریکی محکمۂ خارجہ، مارچ 2007 میں اس کے آغاز سے اب تک 75 ملکوں سے 155 خواتین کی خدمات کے اعتراف میں یہ ایوارڈ دے چکا ہے۔

(2/2) The seven remarkable women were: Fatema Natasha KhalilGeneral Sharmila FroughMaryam NoorzadFatima RajabiFreshta, daughter of Amir MohamedMalalai MaiwandFreshta KohistaniTheir legacies of courage, commitment, and sacrifice inspire us all. #IWOC2021 #WomenOfCourage
— U.S. Embassy Kabul (@USEmbassyKabul) March 6, 2021

سری لنکا، نیپال، میانمار، ایران اور چینی خواتین کے لیے بھی ایوارڈ

سری لنکا کی رانیتھا گنن راجہ ایک وکیل ہیں جنہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی، جبری گمشدگیوں اور بغیر کسی فردِ جرم کے جیل میں قید افراد کو انصاف دلانے کے لیے وقف کر دی۔ وہ بغیر معاوضے کے یہ کام کرتی ہیں۔ نیپال کی مسکان خاتون کو یہ ایوارڈ تیزاب پھینکنے والوں کے خلاف سخت ترین سزا کے نئے قانون کو منظور کروانے کے لیے دیا جا رہا ہے۔ میانمار سے تعلق رکھنے والی پھوئے پھوئے آنگ ایک ابھرتی ہوئی لیڈر ہیں جنہیں، مختلف نسل، اور مذاہب کے افراد کے درمیان نوجوانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور سمجھنے کے لیے مواقع فراہم کرنے پر ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں اپنے ملک کے مستقبل کو سنوارنے میں ایک اہم کردار ادا کریں گی۔ایران کی شہرے بیاتکو کو 2020 میں خواتین کی شطرنج کی عالمی چیمپئن شپ میں شریک ہونے اور وہاں بغیر حجاب کے تصویر اتروانے پر ایران میں تعزیرات کا سامنا ہے۔ انہوں نے برطانیہ میں سکونت اختیار کر لی اور اب خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔

ترکی کی کنان گیولیو گزشتہ 31 سال سے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ وہ خواتین کی بہبود کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے ایک اتحاد ٹرکش فیڈریشن آف ویمن ایسو سی ایشن کی صدر ہیں۔ انہیں صنفی مساوات اور گورننس، لیبرفورس اور تعلیم کے شعبے میں خواتین کی شرکت بڑھانے کے لیے خدمات پر ویمن آف کریج ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔

چین کی وانگ یو، اپنے ملک میں انسانی حقوق کی سب سے ممتاز وکیل ہیں۔ انہیں حقوق کے لیے کام کرنے پر گرفتار کیا گیا۔

اس کے علاوہ صومالیہ کی وکیل زہرا محمد احمد، کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔ سسٹر الیسیا ویساس مورو ایک کیتھولک راہبہ ہیں، جنہیں مصر اور اسرائیل اور فلسطینی علاقے میں طبی خدمات انجام دینے پر ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ لاطینی امریکہ، مشرقی یورپ اور افریقہ میں خواتین اور شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website