counter easy hit

امریکہ اور طالبان کا امن معاہدے کی جزیات پر قائم رہتے ہوئے اقدامات کے از سر نو تعین پر اتفاق

اسلام آباد(ایس ایم حسنین) امریکہ اور طالبان نے رواں سال فروری میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کی جزیات پر سختی سے قائم رہتے ہوئے اقدامات کا از سر نو تعین کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ بات امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاداورافغان مذاکراتی ٹیم کے ترجمان ڈاکٹر نعیم وردگ نے اپنے علیحدہ علیحدہ ٹوئٹر پیغامات میں کہی۔ زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے تا کہ افغانستان میں جاری تشدد میں کمی ہو سکے۔ خلیل زاد کے مطابق اس بات پر اتفاق ان کی اور افغانستان میں امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر کی طالبان کے نمائندوں سے دوحہ میں ہونے والی ملاقاتوں کے دوران کیا گیا۔ خلیل زاد نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کریں گے اور دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لیتے رہیں گے۔ ان کے بقول تمام فریقین کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔ زلمے خلیل زاد نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ افغانستان میں امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل اسکاٹ کے ہمراہ طالبان سے ملاقاتوں میں اپنے وعدوں کو تازہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ امریکہ کے نمائندہ خصوصی خلیل زاد نے اگرچہ ان اقدامات کی وضاحت نہیں کی۔ تاہم ان کے بقول ان اقدامات کا مقصد افغانستان میں پر تشدد کارروائیوں میں کمی لانا ہے۔ ان کے بقول پر تشدد کارروائیوں میں عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں اور ان اقدامات کے دوبارہ تعین سے ہلاکتوں میں کمی ہو سکتی ہے۔ دریں اثنا قطر میں واقع طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے امریکہ حکام سے ہونے والی ملاقاتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فریقین نے دوحہ معاہدے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اس پر تفصیل سے تبادلۂ خیال کیا کہ اس پر بہتر طور پر کس طرح عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول دونوں فریقین اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد کیا جائے۔امریکی نمائندہ خصوصی خلیل زاد کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ ہفتوں کے دوران افغانستان میں پر تشدد حملوں میں شدت دیکھی گئی ہے۔ جس سے امن کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا اور سمجھوتے پر عمل درآمد کا جائزہ لیتا رہے گا۔

1/4 Following several meetings General Miller and I had with the Taliban, we agreed to re-set actions by strictly adhering to implementation of all elements of the U.S.-Taliban Agreement and all commitments made.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) October 15, 2020

یاد رہے کہ رواں سال 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق امریکہ مئی 2021 تک افغانستان سے اپنی باقی ماندہ فورسز کا انخلا کر لے گا۔

طالبان نے معاہدے میں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغان سر زمین کو بیرونِ ملک حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور افغانستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں دیگر افغان فریقین سے مذاکرات کریں گے۔

افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان یہ چاہتے ہیں کہ دوحہ معاہدے پر پوری طرح عمل ہو۔رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں حال ہی میں امریکی حکام اور طالبان کے درمیان دوحہ میں جو ملاقاتیں ہوئیں ہیں۔ ان میں افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کا دوبارہ جائزہ لیا گیا اور شاید کچھ نئے فیصلے بھی کیے گئے ہیں۔ تاکہ دوحہ کا معاہدہ ناکام نہ ہو۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کوشش کریں گے کہ امریکہ کو کسی شکایت کا کوئی موقع نہ دیں اور دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کریں۔

ان کے بقول دوحہ میں جاری بات چیت میں چوں کہ پیش رفت نہیں ہوئی تو ایک بے چینی کی فضا موجود ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ نے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جاری مذاکرات میں ثالثی کی کوشش کی ہے۔ تاکہ افغانستان میں تشدد میں کمی ہو اور دوحہ میں جاری بین الافغان مذاکرات کے لیے ایک سازگار ماحول ہو تاکہ بات چیت آگے بڑھ سکے۔

تاہم رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول طالبان شاید اس وقت جنگ بندی پر اتفاق نہ کریں۔ لیکن وہ آگے چل کر تشدد میں کمی کر سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ رواں ہفتے طالبان نے افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی کارروائی شروع کی ہے۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس لڑائی کی وجہ سے اب تک ہزاروں افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی ہے اور سیکڑوں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔

اس لڑائی میں طالبان کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے امریکی فورسز نے افغان فوج کی معاونت میں طالبان کے خلاف فضائی کارروائی کی ہے۔ جس میں متعدد طالبان جنگجو ہلاک ہونے کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے۔

ادھر افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کے بعد ملک میں طالبان کی حکمرانی دوبارہ بحال ہو جائے گی۔ وہ لوگ حقائق کا غلط اندازہ لگا رہے ہیں۔

افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ایسی صورتِ حال کسی بھی حالت میں قابلِ قبول نہیں ہو گی۔ جمعہ کو کابل میں جنرل عبدالرزاق کی دوسری برسی کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر طالبان کسی ضلعے پر قبضہ کر کے یا کسی صوبے کے مرکز پر دباؤ ڈال کر یہ خیال کریں گے کہ ایسا کرنے سے وہ ملک پر قابو پا لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہو گی اور ایسا کرنے سے محض جنگ طوالت اختیار کرے گی۔

جنرل عبدالرزاق 18 اکتوبر 2018 کو قندھار میں طالبان کے ایک حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ جب کہ اس حملے میں امریکہ کے جنرل اسکاٹ ملر بال بال بچ گئے تھے۔

افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ کے بیان پر تاحال طالبان کا کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔

تاہم طالبان کا مؤقف ہے کہ وہ دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان کی سیکیورٹی فورسز پر حملے روکنے کے پابند نہیں ہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website