counter easy hit

افغان صدر اشرف غنی کا ہاتھ

اسلام آباد: معروف سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کے پاک فوج پر حملے کے پیچھے افغان صدر اشرف غنی کا ہاتھ ہے اور ان کی مکمل تائید حاصل ہے، پاکستان کو براہ راست ان کی مذمت کرنی چاہئے۔

گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ یہ کوئی پہلی دفعہ حملہ نہیں ہوا ہے اور افغانستان کے راستے پاکستان پر ہونے والے حملے کئی دفعہ رپورٹ نہیں ہوتے، پہلے کافی زیادہ حملے ہوتے تھے لیکن اب کم ہو چکے ہیں مگر یہ حملے ایک ایسے وقت میں کئے جا رہے ہیں جب پاکستان کی طرف سے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے اور صرف ایک دن پہلے امریکہ کی ایک بڑی اہم سفیر ایلس اور افغانستان کے امور کیلئے امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد پاکستان آئے ہوئے تھے۔انہوں نے پاکستانی حکام کیساتھ ملاقاتیں کیں اور اس دوران افغان مفاہمی عمل میں پاکستان کے کردار کو خراج تحسین پیش کیا لیکن اس کے فوراً بعد ہونے والے اس حملے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہے اور ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی افغان امن عمل میں ایک مرکزی کردار چاہتے ہیں مگر وہ نہیں مل رہا جس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے مختلف دھڑے جن میں ناصرف افغان طالبان شامل ہیں بلکہ سابق صدر حامد کرزئی اور سابق شمالی اتحاد کے اہم لیڈر یونس سمیت بہت سی دیگر اہم شخصیات اشرف غنی پر عدم اعتماد کر چکے ہیں۔اشرف غنی افغان انٹیلی جنس ”این ڈی ایس“ کے ذریعے افغانستان کے راستے پاکستان میں مداخلت کر رہے ہیں اور ان کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وہ سیاسی معاملات میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔

گزشتہ دنوں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ افغانستان امن عمل کو آگے لے جانے کیلئے وہاں عبوری حکومت کا ہونا ضروری ہے جس پر اشرف غنی نے بہت اعتراض کیا تھا حالانکہ یہ بات زلمے خلیل زاد سمیت دیگر لوگوں میں بھی ہو رہی تھیں مگر اشرف غنی نے عمران خان کے بیان کو بہت بڑا ایشو بنانے کی کوشش کی، اقوام متحدہ بھی پاکستان کیخلاف پراپیگنڈہ کیا گیا اور افغان سفیر نے وہاں ایک خط دیا، پاکستان کی سرزمین پر پاک فوج پر جو آج حملہ ہوا ہے اس پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ اس حملے کے پیچھے 100 فیصد اشرف غنی کی تائید شامل ہے اور وہ تمام لوگ جو پاکستان، افغانستان اور پورے خطے میں اشرف غنی کی پراکسی کا کردار ادا کر رہے ہیں، ان میںصرف وہ لوگ ہی شامل نہیں جنہوں نے بندوقیں اٹھا رکھی ہیں بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جو امن کے نام نہاد علمبردار بنے ہوئے ہیں،پاکستانی عوام کو چاہئے کہ ان سازشی عناصر کو پہچانیں اور آج جو حملہ ہوا ہے حکومت پاکستان کو براہ راست اشرف غنی کی مذمت کرنی چاہئے کیونکہ اس کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے۔حامد میر نے کہا کہ پاک، افغان بارڈر پر جو باڑ لگائی جا رہی ہے اس کا مقصد ہی دہشت گردی کو روکنا ہے، یہاں پر ہمیں یہ بات غور سے سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ناصرف افغانستان کے اندر بلکہ مغرب میں بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ایک طرف دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں مداخلت کرتا ہے اور جب پاکستان کہتا ہے کہ اچھا آپ ہم پر مداخلت کا الزام لگا رہے ہیں تو ہم بارڈر سیل کر کے اسے انٹرنیشنل بارڈر کا درجہ دیدتے ہیں اور باڑ لگا دیتے ہیں تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بھی قبول نہیں، تو یہ ان کا عجیب متضاد موقف ہے۔ آپ دیکھیں کہ جن علاقوں میں باڑ لگائی گئی ہے وہاں پر دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے ہیں اور اب پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کا الزام نہیں لگتا بلکہ اب تو الٹا ہو رہا ہے کہ افغانستان کے راستے پاکستان پر حملے ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے نام نہاد صدر اشرف غنی کے زیر انتظام سیکیورٹی فورسز اور غیر ملکی افواج روزانہ جلال آباد سے قندھار تک اور ہیرات سے قندوز تک ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور بمباری کے ذریعے معصوم افغان عوام کو قتل کر رہے ہیں، ایک طرف افغانستان کے اندر معصوم افغان عوام کو قتل کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف یہی اشرف غنی سرحد پار یعنی پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے، لیکن انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر پاکستان جواب دینے پر آ گیا تو انہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی کیونکہ افواج پاکستان اگر بھارت کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں تو یہ کیا چیز ہیں۔