counter easy hit

آرمی چیف اورزلمے خلیل زاد کے افغانستان دورہ کے بعد افغان صدر بھی طالبان قیدیوں کی رہائی کیلئے سرگرم

افغان صدراشرف غنی نے کہاہے کہ ان کی حکومت طالبان کی رہائی کاعمل جلدمکمل کرے گی کیونکہ یہ مذاکرات کے لئے ناگزیرہے۔ واشنگٹن تھنک ٹینک کے ساتھ ایک ویڈیوانٹرویومیں انہوں نے کہاکہ افغان حکومت تین ہزار طالبان قیدیوں کورہاکرچکی ہے جبکہ مزیددوہزارقیدیوں کو بہت جلدرہاکیاجائے گا۔ ادھرطالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئیٹ میں کہاہے کہ قیدیوں کی رہائی مثبت قدم اور اہم پیشرفت ہے۔ فروری میں امریکہ اورطالبان کے درمیان طے پانے والے معاہد ے کی شرائط کے تحت افغان حکومت نے پانچ ہزارطالبان قیدی رہاکرنے کاوعدہ کیاتھا جس کے بدلے شرپسندافغان سکیورٹی فورسز کے زیرحراست ایک ہزاراہلکاررہا کریں گے۔ قیدیوں کے تبادلے کے بعد فریقین نے امن مذاکرات شروع کرنے کاعزم ظاہر کیاہے جس سے تقریباً انیس سالہ جنگ کاخاتمہ ہوگا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان کے مزید دو ہزار قیدیوں کو بہت جلد رہا کر دیا جائے گا جس کے بعد بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے گی۔ ان خیالات کا اظہار صدر غنی نے جمعرات کو واشنگٹن ڈی سی میں قائم امریکی تھنک ٹینک،’اٹلاٹنک کونسل’ اور یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے زیر اہتمام تقریب میں ویڈیو خطاب کے دوران کیا۔ صدر غنی نے کہا کہ گزشتہ ماہ عید الفطر کے موقع پر ہونے والی تین روزہ جنگ بندی کے نتیجے میں ان کی حکومت نے کئی اہم اقدمات کیے ہیں جن میں تین ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ افغان حکومت نے باقی ماندہ 2000 طالبان قیدیوں کو بہت جلد رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی تاریخ کا اعلان بہت جلد کر دیا جائے گا۔ البتہ افغان صدر نے طالبان کی حراست میں افغان فوجیوں کے بارے میں وضاحت کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس 1,000 قیدی ہیں لیکن یہ تعداد تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں یہ یقین دہانی چاہیے کہ ان تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
صدر غنی نے کہا کہ ہم درست سمت میں گامزن ہیں اور اگلے ہفتے دنیا کو آئندہ اقدامات بارے آگاہ کریں گے۔ رواں سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت نے لگ بھگ پانچ ہزار طالبان قیدی جب کہ طالبان نے ایک ہزار سے زائد افغان حکومت کے قیدیوں کو رہا کرنا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اب تک افغان حکومت 3000 طالبان قیدیوں کو رہا کر چکی ہے جب کہ طالبان نے افغان حکومت کے 750 قیدیوں کو رہا کیا ہے۔ قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں تاخیر سے افغان امن عمل کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گئے تھے۔ لیکن حال ہی میں امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کی مداخلت اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ کابل کے بعد امن عمل میں تیزی کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ دوسری جانب طالبان ترجمان نے افغان حکومت کی طرف سے 2000 طالبان قیدیوں کی رہائی کے اعلان کو ایک اچھی پیش رفت قرار دیتے ہوئے اسے مثبت اقدام قرار دیا ہے۔

طالبان ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ دوحہ معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات سے قبل طالبان کے 5000 قیدیوں کو رہا ہونا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا کہ جیسے ہی تمام طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہو گا۔ طالبان بھی ایک ہفتے کے اندر بین الافغان مذاکرات کے لیے تیار ہوں گے۔ امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں تیزی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ خلیل زاد نے اپنی متعدد ٹوئٹس میں طالبان کی طرف سے بین الافغان مذاکرات میں شرکت کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگرچہ بین الافغان مذاکرات کی کئی تفصیلات طے کرنا باقی ہیں تاہم اس کے باوجود یہ اچھی پیش رفت ہے۔

(1/4) Prisoner releases have reached a new milestone. We welcome the government now having exceeded 3000 Talib prisoners released and the Taliban 500+. It is important that the process continues and the prisoners release roadblock resolved.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) June 11, 2020

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ہم پہلے سے کہیں زیادہ بین الافغان مذاکرات کے قریب ہیں۔ لہذٰا جتنی جلد ممکن ہو سکے تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر آنا ہو گا تاکہ قیام امن سے متعلق افغان عوام کی اُمیدوں کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکے۔ واضح رہے کہ عید پر طالبان کی تین روزہ جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد اٖفغانستان میں پر تشدد کارروائیوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے جسے بین الافغان امن مذاکرات کے لیے اچھا شگون قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن افغان حکومت مکمل جنگ بندی کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ صدر غنی نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ تشدد کی کارروائیوں میں کمی ہوئی ہے لیکن ان کے بقول اس کے باوجود اب بھی افغانستان میں روزانہ اوسطً 60 سے 70 افراد زخمی یا ہلاک ہو رہے ہیں۔
‘بین الافغان مذاکرات کہاں ہو سکتے ہیں’

افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ تمام طالبان قیدیوں کی رہائی کے بعد بین الافغان بات چیت شروع ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ ان کے بقول طالبان قیدیوں کی رہائی ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول طالبان کا مطالبہ رہا ہے کہ دوحہ معاہدے کے تحت پانچ ہزار قیدی رہا ہوں گے اور اس کے بدلے طالبان افغان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بین الافغان مذاکرات اب کسی بھی وقت شروع ہو سکتے ہیں۔ بظاہر اب کوئی رکاوٹ نہیں کابل میں سیاسی تنازع بھی حل ہو چکا ہے اور افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں بھی کمی آئی ہے۔ افغان حکومت نے مشترکہ مذاکراتی ٹیم بھی تشکیل دے دی ہے۔ افغانستان کی اعلٰی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ بھی یہ بیان دے چکے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

ان کے بقول زلمے خلیل زاد کی حالیہ کوششوں اور پاکستان فوجی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ کابل کے بعد مشترکہ کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔ رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اگر قیدیوں کے تبادلے کا عمل چند ہفتوں میں مکمل ہو جاتا ہے تو کسی فریق کے پاس مذاکرات شروع نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔ البتہ رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ کرونا وبا کے باعث یہ مذاکرات ابتداً ویڈیو ویڈیو کانفرنس کی صورت میں ہو سکتے ہیں۔

رحیم اللہ کے بقول قطر کی حیثیت تمام فریقوں کے نزدیک غیر جانبدرانہ ہے۔ امریکہ بھی قطر پر اعتماد کرتا ہے۔ لہذٰا یہ مذاکرات جب بھی ہوئے قطر میں ہی ہوں گے۔ طالبان کا موقف رہا ہے کہ مستقل جنگ بندی امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا اور بین الافغان مذاکرات کی کامیابی سے مشروط ہے۔ بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے حوالے سے نہ تو افغان حکومت اور نہ ہی طالبان کی جانب سے کوئی تاریخ سامنے آئی ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ یہ مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہی ہوں گے جہاں رواں سال 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website