counter easy hit

کیا نئی سیاسی جماعت کی آمد آمد ہے

تحریر : عبدالرزاق

Abdul Razzaq

Abdul Razzaq

شنید ہے کہ جس طرح ایم کیو ایم کے بطن سے پاک سر زمین پارٹی کی تخلیق عمل میں آئی ہے اسی طرح ن لیگ ،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو توڑ کر نئی پارٹی قائم کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔ سیاسی حلقوں میں بھی اس بات کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ آنیوالے کچھ دنوں میں مذکورہ تینوں پارٹیوں کی صفوں میں دراڑ ڈال کر چند مضطرب اور باغی ارکان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھاکیا جا رہا ہے اور جلد ہی ملکی سیاسی منظر نامہ پر پاک سرزمین پارٹی طرز کی ایک اور سیاسی جماعت منظر عام پر آئے گی ۔ گذشتہ دنوں ایک معروف کالم نگار و اینکرنے بھی اس بات کا انکشاف کیا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا،تو یہ کوئی نئی بات ہے نہ ہی کوئی انوکھا عمل۔

جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتوں کا تشکیل پانا اورٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا معمول کی بات ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کوئی سیاسی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تو اس میں سے ایک مفاد پرست ٹولہ ضمیر کی آواز کے جامہ میں لپٹا الگ ہو کر ایک ایسے پریشر گروپ کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کا مقصد صرف حکومت کو بلیک میل کرنا اور اپنے مفاد کا حصول ہوتا ہے ۔اگر مذکورہ خبر کو بالفرض درست تسلیم کر لیا جائے تو صاف ظاہر ہے یہ ایک ایساپریشر گروپ ہو گا جس کے ارکان سالہاسال سے اپنے مفادات کے نگہبان ہیں اور ہر حکومت میں حصہ بقدر جثہ حاصل کرتے رہے ہیں اور جونہی ان کے مفادات کی راہ میں سپیڈ بریکر آیا ہے تو وہ بے چین اور مضطرب ہو کر اپنے مفادات کی آبیاری کے لیے نیا آشیانہ ڈھونڈنے کو بے چین ہیں۔یہ وہی افراد ہیں جو اک مدت سے وطن عزیز کی معاشی کشتی کو سوراخ کرنے میں مگن ہیں۔

یہ لوگ موجودہ سیاسی جماعتوں کو ضرب لگا کر اک نئی جماعت تشکیل دے کر کونسا ایسا تیر چلائیں گے جس سے موجودہ ناکارہ نظام ملیا میٹ ہو جائے گا اور ملک میں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی ۔دراصل یہ ان مایوس لوگوں کا ٹولہ ہے جن کے مفادات ان کی خواہشات کے عین مطابق پورے نہیں ہو پا رہے ۔ پاکستان کو کھمبیوں کی طرح پرورش پانے والی سیاسی جماعتوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایسے بصیرت افروز ، دوراندیش اور محب وطن سیاستدانوں کی ضرورت ہے جو پاکستان کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانے میں کلیدی کردار ادا کر سکیں ۔المیہ تو یہ ہے کہ وسائل سے بھرپور ہونے کے باوجود نالائق حکمرانوں کی وجہ سے ہمارا ملک دنیا میں اپنا اصل مقام حاصل کرنے سے قاصر ہے ہمارے ساتھ ہی جنم لینے والی دیگر ریاستیں ترقی کی دوڑ میں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں اور ہم ابھی تک مروجہ اخلاقی اور جمہوری روایات کی پیروی کرنے سے قاصر ہیں۔

National Assembly

قومی اسمبلی جو ایک سپریم ادارہ ہے اورملک کو بہتر ڈگر پر چلانے کے لیے قانون سازی کا بیڑا بھی اسی مقدس ایوان نے اٹھا رکھا ہے ۔ اگر یہاں بھی بازاری زبان استعمال ہو گی اور خواجہ آصف جیسے کہنہ مشق سیاستدان فرط جذبات کے سامنے بے بس ہو کر خاتون پارلیمنٹیرین کو ٹریکڑ ٹرالی کہہ کر مخاطب کریں گے اور اخلاقیات کو کلی طور پر نظرانداز کر کے محض طاقت کے نشہ میں بنت حوا کی تذلیل کریں گے تو ایک عام آدمی سے اعلیٰ اخلاقی نمونہ کی توقع رکھنا عبث ہے ۔موصوف ان وزرا میں سے ایک ہیں جو عمران خان کی بے باک اور بے لاگ گفتگو کو ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں اور ان کو اخلاقی درس دیتے رہتے ہیں ۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب بھی اکثر اوقات مخالفین پر تنقید کرتے ہوے اخلاقی حدود و قیود کو نظرانداز کر جاتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی اس پست درجہ تک نہیں پہنچے کہ ایک خاتون جو ماں کا درجہ بھی رکھتی ہے اسے بہن کا مقام بھی حاصل ہے۔

وہ بیوی کے روپ میں بھی معتبر ہے ۔ اس کو اس قدر گھٹیا انداز میں مخاطب کیا جائے ۔ ہم سب نے ایک ماں کے بطن سے جنم لیا ہے اور یقینی طور پر خواجہ صاحب نے بھی اللہ کی رضا اور ایک ماں کی مہربانی سے ہی دنیا میں آنکھ کھولی ہے ۔ حیرت کی بات ہے اتنے اعلیٰ مرتبہ پر فائز شخص نے کس طرح ایک عورت ذات کی عجب بھونڈے انداز میں تذلیل کی ۔ اگر یہ حرکت ن لیگ کے کسی عام ورکر نے کی ہوتی تو اسے نظرانداز کیا جا سکتا تھا لیکن خواجہ آصف جیسے تجربہ کار اور سیاسی و اخلاقی روایات سے بخوبی آشنا شخص سے اس قسم کی فضول حرکت کی توقع ہرگز نہ تھی ۔ دراصل یہی فرق ہے ہماری جمہوریت اور مغرب کی جمہوریت میں۔ وہاں اخلاقی اقدار کی اہمیت و حیثیت اشخاص کے مقام و مرتبہ سے بالا تر ہے۔

وہاں سیاسی اخلاقیات کو بلند درجہ حاصل ہے جبکہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ ہمارا سیاست دان سیاسی سرگرمیوں کے دوران اخلاقی پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے ۔ اس کی آنکھوں پر لالچ،ہوس اور تکبر کی ایسی پٹی بندھی ہوتی ہے جو اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک کہ وہ اقتدار کی کرسی سے دھڑام نیچے نہ گر جائے یا ا س کو کال کوٹھڑی کی زیارت نہ ہو جائے۔

Law

جس ملک کے قانون سازوں کو اخلاقی قدروں کی پرواہ ہو نہ ضمیر کی خلش کا احساس تو اس اسمبلی میں سے چند بے ضمیروں کا اپنے مفادات کے لیے کسی نئے سیاسی شجر کا انتخاب اور اس کی ٹہنیوں پر آشیانہ تعمیر کرنا کونسی اچنبھے کی بات ہے ۔ اب چونکہ یہ خبر زیر گردش ہے کہ کچھ بے چین سیاست دان اک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کا پروگرام ترتیب دے رہے ہیں تو اس کے پیچھے بھی اخلاقی پستی کا ہی ہاتھ ہے ۔ جب تک ان افراد کے ہاتھ گھی شکر میں ڈوبے رہے ان کے ضمیر بھی اعتدال میں رہے لیکن جونہی ان کے مفادات پر ضرب پڑی سب سے پہلے ان کے ضمیر کی ہی چیخ نکلے گی ۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں آئین و قانون کی پاسداری ضروری ہے وہیں اخلاقی پہلووں پر بھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔میری اور میری طرح دیگر پاکستانیوں کی آنکھیں ترس گئی ہیں اس منظر کو دیکھنے کے لیے کہ جب کوئی ہمارا حکمراان بھی یہ کہے گاکہ چونکہ یہ فلاں افسوسناک واقعہ میری غفلت کی وجہ سے رونما ہوا ہے۔

لہٰذا میں اخلاقی طور پر اپنے آپ کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتا۔ اگر کبھی کوئی اس قسم کی خبر نظروں سے گزری بھی ہے تو معلوم ہو ا بیان دینے والے کا تعلق کسی مغربی ملک سے تھا ۔ دعا ہے خدا کبھی یہ وقت پاکستان کو بھی دکھائے کہ ہمارے سیاست دانوں کے ضمیر اس بات پر بھی ملامت کریں کہ وہ حقیقی معنوں میں اپنے فرائض ادا کرنے سے قاصر رہے۔

یاد رہے جب تک پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کو مقدم نہیں رکھا جائے گا تب تک خواجہ آصف اور اس قسم کے دوسرے سیاست دان بداخلاقی کی مثالیں قائم کرتے رہیں گے اور نام نہاد خدمت گار اور مفاد پرست ٹولے ضمیر کے بوجھ کا سہارا لے کر نئے پریشر گروپ تشکیل دیتے رہیں گے۔