counter easy hit

حسن نثار کی ایک خاص الخاص تحریر

A special essay by Hassan Nisar

لاہور (ویب ڈیسک) بھول چوک پر معافی چاہتا ہوں ۔احمد مشتاق کا شعر شاید کچھ اس طرح ہی ہےکتنا پھیکا پڑ گیا ہے رنگِ یادِ رفتگاں پھول مہنگے ہوگئے قبریں پرانی ہو گئیں خبروں، قبروں اور کالموںمیں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا سو آج سے اک نئی پریکٹس کا آغاز کرتے ہیں کہ گاہے گاہے کچھ خبروں اور نامور کالم نگار حسن نثار اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔کالموں پر بھی دیئے جلایا کریں گے اور پھول چڑھایا کریں گے۔اک اس ٹائپ کی خبر ہے جس کے بارے سمجھ نہیں آرہی کہ اسے تازہ کہیں یا باسی کیونکہ یہ منحوس خبر بار بار لگاتار آنے کے باوجود ’’تازہ ‘‘ رہتی ہے جو کچھ اس طرح سے ہے کہ ….’’پٹرول 5.15،ڈیزل 5.65، مٹی کا تیل 5.38روپے فی لٹر پھر مہنگا ہو گیا ‘‘۔فیصلہ آپ خود کر لیں کہ یہ خبر تازہ ہے یا باسی یا بہت باسی۔اس خبر میں ’’نیاپن‘‘ پیدا کرنے کیلئے میرے پاس نئی خبر یہ ہے کہ اس خبر کی تازگی سے مدتوں آپ کی جان نہیں چھٹنے والی اور یہ باسی ڈش ہمیشہ تازہ کرکے آپ کو پیش کی جاتی رہے گی اور آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی جانے کب تک اسے نوش جان فرمانا پڑے گا چاہے فوڈ پوائزننگ ہی کیوں نہ ہو جائے۔ میرے منہ میں گھی شکر یا خاک لیکن خبر یہی حتمی اور اٹل ہے یعنی ……….’’روک سکو تو روک لو مہنگائی آئی رے‘‘مہنگائی کے بڑھنے سے بڑی ’’تبدیلی ‘‘ اور کیا ہو سکتی ہے ؟لیکن یہ بات ہمیشہ دھیان میں رہے کہ ’’سزائیں‘‘اور’’جرمانے‘‘ صرف ادارے اور عدالتیں ہی نہیں سناتیں۔ہماری ’’کارکردگی‘‘ اور ’’کرتوت‘‘ بھی کبھی کبھی ’’جرمانوں‘‘ اور ’’سزائوں‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں اور پھر آتے ہی چلے جاتے ہیں۔ہم جو کچھ کاشت کرتے ہیں ہمیں کاٹنا پڑتا ہے اور سزا کی انتہا یہ ہے کہ کبھی کبھی ہماری کاشت کی ہوئی زہریلے کانٹوں کی فصل ہماری نسلوں تک کو کاٹنی پڑتی ہے جس کی ایک مثال برادر اسلامی ملک بنگلہ دیش بھی ہے اور ایسے ہی ’’ازل تا ابد‘‘ نما المیوں کے بارے شاعر کہتا ہے ۔’’لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی‘‘آج جب میرا بیٹا حاتم ہانسی پوچھتا ہے کہ ’’بابا !بنگالی اکثریت میں تھے تو ڈھاکہ کی بجائے کراچی کو دارالحکومت کیوں بنایا؟بنگالی کی جگہ اردو قومی زبان کیسے بن گئی ؟‘‘تو میں اپنی جہالت کےسبب کوئی ایسا جواب نہیں دے سکتا جو اسے مطمئن کر سکے ۔معاف کیجئے بات مہنگائی سے شروع ہو کر بھٹکتے بہکتے بنگلہ دیش جانکلی تو واپس مسلسل مہنگائی کی طرف چلتے ہیں جو ’’مسلسل‘‘ اس لئے ہے کہ ہم لوگوں نے مسلسل ان لوگوں کو اپنی گردنوں پر سوار رکھا جو غربت اور مظلومیت کی ماری قوم کو بے رحمی سے روندتے کچلتے رہے ۔یہ ’’تنخواہیں‘‘ تو نہیں لیتے تھے لیکن’’دورے‘‘ پڑنے پر عوام کا اربوں روپیہ عیاشانہ سیاحت پر لٹا دیتے ۔اور تو اور ممنون حسین جیسا مہاتڑ سا صدر بھی ہماری جیبیں کاٹ کر ثواب ’’کماتا‘‘ رہا۔ معاف کیجئے یہ لوگ شرمناک فی کس آمدنی والی رعایا کی جیبیں نہیں پیٹ کاٹتے ہیں کیونکہ جیبوں میں تو بجلی ،گیس وغیرہ کے بلوں اور پنجسورہ کے سوا ہوتا ہی کچھ نہیں۔’’مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جا سکتا‘‘ اگر ہم نے کئی کئی بار حکم عدولی کی ہے اور اب وقت وصولی کر رہا ہےتو رونا پیٹنا کیسا ؟انگریزی کا ایک غیر پارلیمانی سا محاورہ ان تین لفظوں پر ختم ہوتا ہے …….’’ریلیکس اینڈ انجوائے‘‘ سو پلیز ریلیکس اینڈ انجوائے لیکن اس بظاہر معمولی سی خبر پر غیر معمولی توجہ ضرور فرمائیے۔’’عمران کے دورہ واشنگٹن پر اخراجات زرداری کے مقابلہ پر گیارہ گنا کم‘‘’’نواز شریف کے مقابلہ میں یہ حجم 8گنا کم‘‘مورخہ یکم اگست 2019ء بروز جمعرات یہ خبر ’’جنگ‘‘ کے صفحہ اول پر موجود ہے جس کیلئے عاصم یاسین شاباش اور مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اسے کہتے ہیں تعلیم و تربیت بذریعہ صحافت۔خبر کی تفصیلات کیلئے خود زحمت فرمائیے اور ایسا کرتے وقت دھیان میں رکھیئے کہ پاکستان ہی آپ کے بچوں کا مستقبل ہے، باقی سب کچھ ثانوی دوسرا موضوع کوئی خبر نہیں بلکہ خبر+کالم ہے ۔ہماری محترمہ آپا کشور ناہید کا کالم۔کیریئر کے آغاز پر جن کی شفقت، محبت اور رہنمائی حاصل رہی ،ان میں سرفہرست جبکہ یوسف کامران توصحیح معنوں میں یوسف بھائی تھے ۔ پچھلے دنوں اک انگریزی ہفت روزہ میں ان دونوں کی تصویریں تھیں۔دیر تک دیکھتا اور بیتے دن یادکرتا رہا۔کالم کا عنوان ہے ’’نشانیاں تاریخ تھیں، مٹا دی گئیں‘‘۔ ایسی تحریر لکھنے کیلئے صرف روشن دماغ ہی کافی نہیں ہوتا، اک اور طرح کے دل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔کالم کیا ،نوحہ ہے ہماری بے حسی اور بے دردی کا لیکن یہی تو ہمارا طرہ امتیاز اور طرز زندگی ہے ۔لکھتی ہیں ……’’خالدہ حسین اور شبنم کے گھر مرتے ہی فروخت ہو گئے‘‘’’فیض صاحب کے گھر کی جگہ نئے گھر بن گئے ‘‘’’منشا یاد کا گھر بیٹوں میں تقسیم ہوا، بلڈر کے ہاتھ گیا‘‘’’قاسمی صاحب، قتیل صاحب، منٹو، مشفق خواجہ، میرا جی، انور سجاد، مظفر علی سید، ان سب گھروں کی اب کوئی نشانی نہیں ‘‘’’اس طرح ہم یاد کریں تو رسالہ ’’ہمایوں‘‘ نکلتا تھا، ’’ادبی دنیا‘‘ نکلتا تھا۔ہفت روزہ ’’قندیل‘‘ ’’چٹان‘‘ اور ’’استقلال‘‘ نکلتا تھا ۔پھر انگریزی کا ’’مرر‘‘ ’’شی‘‘ اور پاکستان کا سب سے قدیم ’’ہیرلڈ‘‘ نکلتا تھا‘‘ کالم کیا ہے نوحہ ہے ….’’تیرے نوحوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے ؟‘‘خبروں ،قبروں، کالموں اور نوحوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں رہ گیا …..آئو ان پر دیئے جلائیں ،پھول چڑھائیں!

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website