counter easy hit

اک ریڑھی والا مُنکر ہے تری توپوں اور جہازوں کا!

پچھلے کچھ دنوں سے بحیثیت ایک سیکیولر اور لبرل مجھے بہت خفت کا سامنا ہے اور اس خفت میں تو کل شام کئی درجے اضافہ ہوا۔ بہت سے پیغامات موصول ہوئے جس میں طنز کے نشتروں پر لکھا ہوا تھا،

“ہاں بھائی! سنا ہے تم نے؟ قندوز میں افغان فوج نے سو سے زائد بچے شہید کر دئیے ہیں، تمہارے ہم نظریات لوگ جو ہر مسئلے پر اعلان بغاوت کر دیتے ہیں اب کیوں خاموش ہیں؟”

میں جواب سوچ ہی رہا تھا تو ایک اور پیغام آیا، کچھ یوں لکھا تھا،

“اچھا اسے چھوڑو مسئلہ کشمیر پر بھی بہت خاموشی ہے تمہاری برادری میں۔ فلسطین والے معاملے پر بھی نہیں بول رہے۔ وہ ایک جملہ جو تم اکثر کہتے ہو۔ کیا تھا یاد ہی نہیں آ رہا۔ ہاں ہاں یاد آیا، زبانوں کو حلقہ ہائے زنجیر سے آزاد کرو۔ چلو دلا دو آزادی یار۔ ”

میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا، اس لئے سب سے مصروفیت کا بہانہ کر کے راہِ فرار اختیار کر لی۔ کہتا بھی تو کیا کہتا کہ انہیں فرخندہ پر ہوتا ظلم تو نظر آیا لیکن ان سو بچوں کے وہ پامال لاشے نظر نہیں آئے، کہ مارنے والے کا تعلق کسی مذہب سے نہیں تھا، ریاست سے تھا تو اس لئے نہیں بول سکے۔

وہ سماجی کارکنان جو ہر مسئلے پر ٹویٹس کی ایک لائن لگانا فرضِ اول سمجھتے ہیں، اب کہاں ہیں؟ کیا لبرل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا نشانہ صرف مذہبی لوگ ہوں؟ جب کہ لبرل کی بنیادی تعریف کہتی ہے کہ وہ نظریہ جو مختلف رائے رکھنے والوں کا احترام کرے اور نئے نظریات کو خوش آئند سمجھتی ہو۔ خیر، ہم تو اپنا حصہ ڈالیں، جیسا کہ منٹو فرماتے ہیں، “معاشرے میں جب بھی کہیں غلاطت نطر آئے تو ہر لکھنے والے پر لازم ہے کہ اس غلاطت پر سفیدی کے بجائے اس کا احوال وجوہات، اصل شکل میں لوگوں تک پہنچائے۔”

افغانستان کے شہر قندوز میں اس وقت حشر بپا ہو گیا جب ایک مدرسے میں بچوں کا حفظ مکمل ہونے کی خوشی میں رکھی گئی تقریب کے دوران افغان فوج نے فضائی حملے کئے۔ حملے کے بعد ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ مائیں بدحواس ہو کر اپنے بچے تلاش کر رہی تھیں۔ اس حملے کا نشانہ کئی مظلوم خانوادے بنے۔ جن میں سے اکثر کم سن بچے شامل تھے۔

اس حملے کے بعد، ہسپتالوں کے باہر ماتم کدہ بچھی ہوئی تھی۔ لواحقین اپنے پیاروں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔ اگر آپ غور کریں تو آپ کو یہ منظر پہچانے پہچانے لگیں گے۔ آج سے تقریبا چار برس پہلے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بھی بالکل یہ ہی منظر تھے۔ اگر میں اس سانحے کو افغانستان کا اے۔ پی۔ ایس حملہ کہوں تو شاید غلط نہ ہو گا۔ فرق اتنا ہے اس وقت دہشت گرد سرحد پار افغانستان سے آئے تھے اور آج یہ حملہ افغان فورسز نے طالبان کمانڈرز کو جواز بنا کر کیا ہے۔ یہ حملہ افغان فورسز نے حقوقِ نسواں کے عالمی چیمپیئن امریکہ بہادر کے نیٹو ایڈوائزرز کی مشاورت سے کئے۔

شاید امریکہ بہادر کے نزدیک افغان عوام کے کوئی حقوق نہیں ہیں۔ امریکہ آج تک یہ نہیں سمجھ سکا ہے کہ جنگ افغان مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جنگ بھی اس فریق سے جو کہ 2001ء سے مسلسل امریکہ کو اس جنگ میں پچھاڑے ہوئے ہے اور اب تک تیس ہزار سے زائد عام شہری اس جنگ کی بلی چڑھ چکے ہیں۔

دوسری جانب فلسطین میں قابض اسرائیل نے ظلم و بربریت کی انتہا کر دی ہے۔ غزہ کی فلسطین اور اسرائیل کی سرحد پر فلسطینی عوام جو کہ پرامن احتجاج کر رہے تھے، ان پر اسرائیلی فوج نے ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ صد حیف کہ گارڈیئن جیسے بین الاقوامی اخبار نے اس ظلم کو کلیشز لکھا اور میں تب سے سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کون سے کلیشز ہوتی ہے جس میں ایک طرف تو نہتے عوام ہوں اور دوسری جانب جدید ہتھیاروں سے لیس فوج ہو۔

2000ء سے اب تک دس ہزار سے زائد فلسطینی شہری اسرائیل کے ظلم کا شکار ہو چکے ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردگان یوں تو اسرائیل کے خلاف بڑی لمبی لمبی تقاریر کرتے ہیں اور بڑھکیں مارتے ہیں۔ اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست بھی کہتے ہیں اور ہمارے لوگ سب ٹائٹلز پڑھ کے سر تو دھنتے ہیں مگر اردگان یہ تقاریر اور بھاشن دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ترکی کے اسی دہشت گرد ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات ہونے کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کے فوجی تعاون کے معاہدے بھی ہیں۔ ترکی کو اگر واقعی ان فلسطینیوں کا درد محسوس ہوتا ہے تو ان معاہدوں کو احتجاجا ًختم کرے اور سفارتی و بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کا بائیکاٹ کرے۔

جہاں ذکر اسرائیل کا ہو وہاں اسرائیل کے بہت ہی قریبی دوست بھارت کی بات نہ کی جائے تو شاید یہ دونوں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ کشمیر میں بھارت کے ظلم و ستم انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل آج تک نہیں کروایا۔ بلکہ اس نے کشمیریوں کی آواز دبانے کے لئے ہمیشہ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے ہیں۔ بھارتی فوج کے مظالم میں، نہتے شہریوں پر فائرنگ، جنازوں پر حملے، خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی، غیر قانونی ہتھیار کا استعمال جیسے گھناؤنے گناہ شامل ہیں۔

گواکدل قتلِ عام جس میں سو سے زائد کشمیری مظاہرین کو قتل کیا گیا، زکورہ اور تنگ پورہ کے سانحے جس میں 33 افراد کو شہید اور سو سے زائد لوگوں کو زخمی کیا گیا، کنان اور پشپورہ کے گاؤں میں بھارتی فوج نے سرچ آپریشنز کے دوران تین سو سے زائد خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، لال چوک پر فائرنگ سے 125 عام شہریوں کو قتل کیا گیا ، بجھبھیرا سانحے میں 51 سے زائد افراد کو قتل کیا گیا، جلیل اندرابی کا قتل، رامبن فائرنگ واقعہ جس میں چھ کشمیریوں کو قتل اور کئی سو کو زخمی کیا گیا۔۔۔۔۔ یہ سب سانحے گواہ ہیں بھارت کی اس نام نہاد جمہوریت اور پر امن ملک کے جس کا وہ ڈنکا دنیا بھر میں مچاتا پھرتا ہے۔

ان سب ظلم و بربریت کے باوجود عالمی ضمیر نہیں کانپے۔ تمام طاقت ور ممالک بس مذمت کر کے جان چھڑوا لیتے ہیں۔ وہ امریکہ جسے پاکستان میں قوانین لوگوں کے حقوق سلب کرتے تو نطر آتے ہیں، مگر یہ سب مظالم جو کہ زندگی کا بنیادی حق چھیننے کا باعث ہیں، وہ نظر نہیں آتے۔ وہ مسلم برادر ی المعروف مسلم امہ جسے مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے فراڈ اور لالی پاپ لکھا وہ تو سرے سے ہی خاموش ہے۔

حیران تو میں اس لئے بھی ہوں کہ وہ 37 مسلم ملکوں یا یوں کہوں عرب ملکوں کی فوج جو کہ مسلم ممالک کی حفاظت کے لئے بنائی گئی تھی، منظر نامے میں کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ سعودیہ نے مذہب کو ہمیشہ اپنے ریاستی مفادات حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا۔ ورنہ کیا یمن میں جو عام بےگناہ شہری مارے جاتے ہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہوتے؟ ضروری ہے کہ اب ہم سمجھ جائیں کہ اب کوئی معجزہ نہیں ہونا۔ خطے کے لوگوں کو ہی اپنے مسائل کا حل نکالنا پڑے گا کیوں کہ آسمان سے اب کوئی مسیحا نہیں آئے گا ۔ بقول زریون،

سمندر کھا گیا لاشے ہمارے
اجل میں جل گئے پیارے ہمارے

معطل ہو چکا ماتم ہمارا
خدا سنتا نہیں نوحے ہمارے

تمھیں ہجرت کا معنی جاننا ہے؟؟
تو آؤ دیکھ لو چہرے ہمارے

مدینہ دُور ہے ! جائیں کہاں ہم
کہ بے حس ہو گئے اپنے ہمارے

سلامی اے بہت مظلوم لوگو
تمھارے کام کیا آئیں یہ نظمیں
ہیں شرمندہ بہت مصرعے ہمارے