counter easy hit

دل کو چھو لینے والی ایک ایسی خبر جس نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا

معاشی عدم مساوات اور ناہمواری اور اس کے نتیجے میں پیدا کردہ مسائل کوئی نیا موضوع نہیں۔ اور پاکستان جیسے ملک میں اس پر بات کرنا سننے پڑھنے والوں کےلئے کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔ایک دیہاڑی دار مزدور ہو یا گریڈ بائیس تک کا سرکاری افسر۔ہر ایک کو کئی نہ کہیں کوئی نہ کوئی معاشی مسئلہ در پیش ہے۔اس کی نوعیت الگ الگ ہو سکتی ہے لیکن رونا ایک ہی ہے کہ گزارا مشکل ہو گیا ہے۔ نوکری مشکل ہو گئی ہے۔کام سخت ہو گیا ہے۔ تنخواہ سے گھر نہیں چل رہا۔ آنے جانے کے اخراجات بہت ہیں۔ انکریمنٹ نہیں لگ رہی۔پروموشن نہیں ہو رہا۔ وغیر ہ وغیرہ۔اب میں بات کرتا ہوں پرائیویٹ نوکری کی۔ویسے تو بینکوں، کمپنیوں ، تجارتی مراکز اور دیگر پرائیویٹ نوکریوں میں بھی کام سخت ہے ۔تنخواہیں کم ہیں ۔اور نوکریوں کی کوئی گارنٹی نہیں کہ صبح سے لے کر شام تک کی بھی دیہاڑی پوری لگے گی یااس کے درمیان میں ہی کسی بھی وقت اپنا حساب کرنے کا کہہ کر خدا حافظ کہہ دیا جائے گا ۔لیکن وہاں پر کام کرنے والے لوگ اپنی چال ڈھال، آس پاس لوگوں سے گپ شپ، تھوڑی سی آزادی ، فو ن سننے باہر چلے جانا، غیر ممنوعہ جگہ جا کر سیگریٹ پھونک لینا، کھلے عام کچھ کھا پی لینا، یا کام پر بیٹھنے کی جگہ پر چائے سموسے یا بسکٹ منگوا لینے میں آزاد ہوتے ہیں۔کچھ گا گنگنا بھی لیتے ہیں۔ موبائل فون یا کمپیوٹر پر سوشل میڈیا سے بھی دل بہلا لیتے ہیں ۔ فطری طور پرآنے والی ہنسی اور مسکراہٹ کو روکنے کے پابند بھی نہیں ہوتے ۔غرضیکہ ایک کچی نوکری بھی ایک جھوٹ موٹ کے افسر کی طرح انجوائے کر سکتے ہیں۔ جینز پینٹ پہنیں یا سلیو لیس شرٹ یا پھر ٹی شرٹ ۔کوئی روک ٹوک نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسی ملازمتوں پر قصے کہانیاں ،ڈرامے ، فلمیں وغیرہ بھی بن جاتی ہیں۔ یوں ان لوگوں کو ایک چھوٹے درجے کی پذیرائی بھی مل جاتی ہے۔ مجھے بات کرنی ہے ایک ایسی ملازمت پر جو کہنے کو بڑی باوقار ، معزز، پیغمبرانہ، مقدس ، موقر ، صاف ستھری ، باعزت ہے لیکن ہمارے ملک میں اس ملازمت کےلئے اوپر بتائی گئی باقی ملازمتوں جیسی آزادی ہے اور نہ ہی پاکستان جیسے ملک میں مذکورہ بالا خصوصیات کی کوئی واقعیت۔ مجھے بات کرنی ہے اس ملازمت کی جس کے اندر چھپے ہوئے ظلم و جبر پر نہ تو کبھی کوئی فلم بنی ۔نہ کسی کو آرٹیکل لکھنے کی توفیق ہوئی،۔اس پر کوئی ڈرامہ بنایا گیا اور نہ ہی اس پر کبھی کوئی دستاویزی پروگرام یا ٹاک شو منعقد ہوا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ اساتذہ کے پیشہ ورانہ امور کا کوئی کمزور پہلو طلباءکو پتہ چلے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس سچ کا سامنا کر کے کوئی اپنا بھیانک چہرہ ہی آئینے میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ ورنہ ایک کڑوی سچائی کو سامنے لانے میں کاہے کی شرم۔ جب معاشرے کا ہر گھناؤنا جرم بے نقاب ہوسکتا ہے تو ظلم و جبر کی یہ بے مثال داستان کیوں منظر عام پر نہیں لائی جا سکتی۔ مجھے بات کرنی ہے ایک پرایؤیٹ ٹیچر کی زندگی کی۔ اور خاص کر ان پرائیویٹ اساتذہ کی جو ایک اچھی نوکریاور اچھی تنخواہ کی تشفی لے کر اپنی جان کو ایک ایسا روگ لگا بیٹھتے ہیں کہ انھیں بھی پتہ نہیں چلتا کب ا ن کی جوانی بڑھاپے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ان کے جسم کا آدھا خون خشک ہو گیا ہے۔ ان کی آنکھوں کے گرد حلقوں نے اور ان کے چہرے پر جھریوں نے آن بسیرا کیا۔ مسلسل خوف اور کام کے بوجھ تلے دب کر وہ اللہ کا آزاد پیدا کردہ انسان ہوتے بھی ایک غلامی اور قید کے احساس میں گھرے رہتے ہیں۔ مجھے بات کرنی ہے اس تکلیف کی جس کااندازہ صرف اسی کو ہوگا جس نے میری طرح یہ ملازمت اختیار کی۔ معاشرے کے تماش بینوں سے میں علاقہ نہیں ہوں جو دور کھڑے رہ کر اساتذہ کے مرتبے کی کھوکھلی تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔ اس تکلیف کو جانتا صرف وہی ہے جو اس عزیمت سے گزرا ہے۔شروعات ہوتی ہے پرائیویٹ اساتذہ کی نوکری کے اوقات کار سے ۔ان اساتذہ کی نوکری کا ٹائم اسی وقت سے شروع ہو جاتا ہے جب ان کے دل میں خیال آتا ہے کہ صبح منہ اندھیرے اٹھنا ہے اور تیار ہو کر سکول روانہ ہوجانا ہے۔ گویا ہر رات ایسی ہی بے سکونی اور ڈراؤنے خوابوں کے ساتھ گزرتی ہے کہ مجھے نوکری سے نکال دیا گیا۔ میں سکول سے لیٹ ہو گیا۔ میرے کسی طالب علم نے مجھ سے بد تمیزی کر ڈالی وغیرہ وغیرہ۔ برے خوابوں اور خوفناک سوچوں کی اسی ادھیڑ بن میں صبح ہوجاتی ہے۔ انتہائی بے دلی سے کیے ہوئے ناشتے ،اجلت میں کی گئی تیاری اور پژمردہ دل کے ساتھ استاد اس میدان جنگ میں اترنے کےلئے روانہ ہو جاتا ہے۔راستے میں کبھی لیسن پلان کے مکمل نہ ہونے کی منحوس سوچ غالب آجاتی ہے تو کبھی چیک ہونے والی کئی درجن کاپیوں کا خیال حاوی ہوجاتا ہے۔ کبھی نمبر لگانے کےلئے تیار ہفتہ وار ٹیسٹ کے دستے بھوت بن کر دماغ پر سوار ہوتے ہیں تو کبھی سکول پہنچ کر مسلسل چھ یا سات پیریڈ پڑھانے کی انتھک جدو جہد کا ڈر پورے وجود کا گھیراؤ کیے رکھتا ہے۔یہ سب کچھ سوچنا اتنا خوفناک ہے توپھر یہ سب کچھ ہوجاناکس قدر اذیت ناک ہوتا ہوگا آپ سمجھ سکتے ہیں۔ اسمبلی کے وقت سے ہی پرائیویٹ ٹیچر کی جسمانی اور ذہنی بربادی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ خود وقت سے پندرہ منٹ پہلے پہنچو تاکہ قوم کے معماروں کا استقبال کرنے کےلئے پہلے سے موجود ہو ۔ایک منٹ تاخیر ہوئی تو حاضری رجسٹر پر دائرہ لگ جائے گا۔اور ایسے تین دائروں کا مطلب ایک مکمل غیر حاضری۔ مطلب ایک دن کی پوری تنخواہ کاٹ لینے کا صیہونی جواز۔ طلباءکو صبح سویرے کلاسوں سے باہر نکالو۔ پھر لائن میں ان کے ساتھ کلاسوں میں جاؤ۔ بریک ٹائم میں بھی سائے (چوکیدار ) کی طرح ساتھ رہو۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ چوکیدار ہی تو ہو تم۔چھٹی کے وقت بھی کلاسوں سے انخلاءسے لے کر گیٹ سے باہر جانے تک ذمہ داری ایک پرائیویٹ ٹیچر کی ہے۔یہ سب بھی تو وہ ہے جو پڑھانے (جس کی تنخواہ دی جاتی ہے) کے علاوہ ہے۔ گویا بلامعاوضہ ہے۔ پرائیویٹ استاد کی مظلومیت کی اصل داستان تو کلاس روم میں شروع ہوتی ہے۔ ایک طویل عرصہ معلمی کے دوران میں تو ایسے بچے (طلبہ) ڈھونڈتا ہی رہا۔ جو فرشتے ہوتے ہیں۔ معصوم ہوتے ہیں۔ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا تھا ۔ وگرنہ ان انگریزی میڈیم سکولوں میں تو پائے جانے والے بچے ما شاءاللہ اپنی ذہنی استعداد ، صلاحیتوں اور “ہنر “میں اساتذہ سے کئی ہاتھ آگے تھے۔فیشن کی باتیں ہوں یا فلموں اور ڈراموں کے مشہور کرداروں کے قصے۔ عریاں ویڈیوز کے مناظر ہوں یا فحش اداکاراؤں پر تبصرے۔ خدا کی قسم ! ان “فرشتوں”کی معلومات ،حس مزاح اور چھیڑ چھاڑ کوکبھی کوئی استاد نہ پہنچ سکا۔معاشرے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نونہال اساتذہ کے لب ولہجے ، ملبوسات ، شکل و صورت چال ڈھال کی نقالی اور تضحیک میںبڑے ہی تاک تھے۔بڑ ے گھروں سے تعلق ہونے کا تکبر ، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہر بات کا جواب دینا، اپنے والدین کے بڑے عہدوں اور سکول انتظامیہ سے تعلقات کا رعب جمانا ،اپنے ہم عصروں میں چالاک اور پر اعتماد مشہور ہونے کےلئے کلاس میں بدنظمی کو منظم انداز میں فروغ دینا، گروپوں کی صورت میں کلاس روم کا ماحول تہس نہس کرنے کی تگ و دو کرنا اور دوسروں کو اس کےلئے متحرک رہنے کی ترغیب دینا، آوازیں نکالنا، فحش گوئی کرکے دوسروں کو محظوظ کرنا، دھڑلے سے موبائل فون لے کرآنا ، جھٹ سے اپنے ناپسندیدہ استاد کے خلاف سبق یا زبان سمجھ نہ آنے کی جھوٹ موٹ درخواست لکھ دینا ، ماں باپ کو بلا کر لانے کی دھمکیاں دینا اور پھر اپنی ہی کسی بدسلوکی پر استاد کے ردعمل کی شکایت کر دینا ، استاد کو سکول سے نکلوا تک دینا اور پھر ہم جماعتوں کے ہاتھوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہنا کہ “دیکھا ؟ بڑا ٹیچر بنا پھرتا تھا، کیسے چھٹی کروائی ماما پاپا سے کہہ کر” ۔ مجھے سمجھائے کون سے فرشتے ، کیسی معصومیت ؟؟؟۔ اس پر مستزاد یہ کہ اساتذہ کی نگرانی پر مامور انتظامیہ (کوارڈینیٹر ، وائس پرنسپل یا پرنسل) نے استاد کی کلاس میں آمد اور روانگی ، پڑھانے کے طریقے یا گزارے گئے وقت کی نگرانی بھی دو تین طلباءہی کو سونپ رکھی ہوتی ہے جو حقائق سے قطع نظر کچھ بھی کھلواڑ کرتے رہیں ایک معلم کے ساتھ۔میرے پاس انتطامیہ یعنی ارڈینیٹر ، وائس پرنسپل یا پرنسل کے بارے میں بتانے کےلئے بھی بہت کچھ ہے۔ ان لوگوں کی کئی مثالیں ہیں۔ پاکستان میں ان کی ایک مثال ان کووں والی بھی ہے ۔ جو ہنس کی چال چل رہے ہوتے ہیں۔ اور ان عربوں والی بھی ہے جو بظاہر بولنے اور دکھنے میں بڑے نرم مزاج اور نفیس لیکن اپنے برتاؤ میں اتنے ہی جابر ، سفاک اور ہلاکو خان ہیں۔ان کی مثال کےلئے میں “لنڈے کے انگریز ” بھی استعمال کرنا چاہوں گا ۔ جو اپنا ظاہر ، لباس ، زبان اور سٹائل تو انگریزوں والا رکھتے ہیں لیکن اندر سے وہی پنجاب کے پولیس والے، یا چودھری، سندھ کے وڈیرے یا جاگیردار یا قبائلی سردار۔ ان کا سروکار صرف اپنی نوکری ،اپنی کرسی کے بچاؤ ،اور ادارے کےلئے پیسے تک ہے۔جو ظاہر ہے آئے گا تو نوکری بھی لگی رہے گی اور تنخواہ بھی ملتی رہے گی۔ ان کی نگاہوں اور زبانوں کی سارا مٹھاس طلباءاور ان کے والدین کے لئے ہے اور ان کا ہر ہتھکنڈہ اور ہتھیار اساتذہ کے خلاف ہے۔ ان کا تکیہ کلام شاید یہی ہے کہ طلبا ءپیسے دیتے ہیں اور اساتذہ پیسے لیتے ہیں۔ تو ہمیں فائدہ پیسے دینے والوں سے ہے نہ کہ لینے والوں سے ۔یہ میں مبالغہ آرائی نہیں کررہا اس کی مثال بھی حاضر ہے۔ان کی ہر نوید اور مسکراہٹ طالب علموں کےلئے ہوتی ہے اور ہر بری خبر اور تیور اساتذہ کےلئے ۔ یہ طلباءکے سب برے رویوں ، ان کی اوچھی حرکات و سکنات ،ان کی ایک ایک غیر اخلاقی عادت سے باخبر رہ کر بھی انجان بنے رہتے ہیں جبکہ اساتذہ کی سب اچھائیاں ،ساری محنت ، ان کا سارا کمال ان کےلئے بے معنی ہے۔ان تک شکایت لے کر آنے والا کوئی استاد ہوتو ان کا جواب ہوتا ہے کہ اسی لیے آپ کو رکھا گیا ہے۔ یہی سب کچھ تو کرنا ہے آپ کو۔ بس ہاتھ اور زبان دونوں کے استعمال سے اجتناب کریں (یعنی غیر مسلح ہو کر ہر بدسلوکی، بد نظمی اور بدتمیزی سہتے آئیں) اور اگر شکایت کسی طالب علم سے آئے تو وارننگ لیٹر ٹرمینیشن لیٹر وضاحتی لیٹر اور پتہ نہیں کون کون سا میزائل اساتذہ پر گرانے کےلئے ان کے پاس ہمہ وقت موجود ہوتا ہے۔ان کی حتیٰ الامکان کوشش ہوتی ہے کہ والدین یا ڈائریکٹر لیول تک کوئی بھی بات جس سے ہماری نوکری کو خطرہ ہو پہنچنے ہی نہ پائے اس سے پہلے ٹیچر بھلے اس طرح بدل لو جیسے کچن میں ایک کپ ٹوٹا اور اس کی جگہ دوسرا رکھ دیا۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اساتذہ کو نکال کر یہ اپنا سسٹم کیسے چلاتے ہیں تو یہ بھی جان رکھیے کہ ان کی دراز میں ملازمت کے خواہشمند پڑھے لکھے نوجوانوں کی سی ویز کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں اور اکثر متبادل ٹیچر کا بندو بست پہلے والے کو برخاستگی کا لیٹر تھمانے سے بھی پہلے ہوجاتا ہے۔ خود غرضی اور منافقت کا ان سے بڑا کوئی مظہر نہیں ہو سکتا۔ تعلیم کو اپنے بلند ترین معیار تک لے جانے کےلئے حیوانوں کی طرح استا د کو کام کے بوجھ تلے لاد دو تاکہ اس کی کمر کا کڑاکا ہی کیون نہ نکل جائے ،ان کی مشن سٹیٹمنٹ ہے۔ گھر میں شام کو گھنٹوں بیٹھ کر پورے ہفتے اور پھر یومیہ اسباق کی تیاری ،اسباق کی سرگرمیوں کی تیاری ، ذرائع کا انتظام ایک پرائیویٹ ٹیچر کے اس وقت پر بھی ڈاکہ ڈال رہا ہے جو اس کے اہل خانہ کےلئے تھا۔شادی غمی میں شرکت ،دوستوں کے ساتھ گھومنے، خریداری کےلئے تھا۔ کو ئی اورنوکری اس کا تقاضا نہیں کرتی۔یہ کم بختی ایک پرائیویٹ ٹیچر ہی کا مقدر ہے۔ ایک پرائیویٹ ٹیچر کےلئے چھٹی کا دن عید کی طرح ہوتا ہے اور چھٹی کی شام قصاب کی دوکان پر ذبح ہونے کےلئے تیار کھڑے ایک بچھڑے کی طرح ہوتی ہے۔ایسے اساتذہ کی آواز بلند کرنا ہی میر ا مشن ہے۔ اور اس کےلئے مجھے آپکی تجاویز درکار ہوں گی۔خدا آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website