counter easy hit

رؤف کلاسرا کی پٹواریوں کو آئینہ دکھا دینے والی تحریر

A mirror showing Ruf Klasra's stripes

لاہور (ویب ڈیسک) کراچی کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہاں آپ کو رات دس بجے شادی ہال بند نہیں کرنا پڑتے۔ اسلام آباد اور پنجاب میں آپ پر ایک دبائو ہوتا ہے لہٰذا آپ زیادہ انجوائے نہیں کر پاتے اور آپ کو جلدی جلدی کھانا کھا کر لوٹنا پڑتا ہے؛ تاہم کراچی میں آپ کے نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پاس بڑا وقت ہوتا ہے کہ لوگوں اور دوستوں سے ملیں‘ گپیں لگائیں اور ویک اینڈ انجوائے کریں۔ اقبال دیوان کو کہا کہ چلیں نو بج رہے ہیں۔ وہ ہنس پڑے اور کہا: دس بجے تک پہنچ جائیں گے اور وہی بہتر وقت ہو گا۔ شاید میر زبیر محمود میرے آنے کی توقع کم رکھتے تھے لہٰذا ان کے چہرے پر خوشی دیکھ کر اسلام آباد سے کراچی تک کے سفر کا سارا بوجھ ایک لمحے میں ختم ہو گیا۔ مجھے خوشی ہوئی۔ یہ اور بات کہ دل کچھ دیر تک دکھی رہا جب ایک کونے میں کھڑی میر زبیر محمود کی بیگم صاحبہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ پہلے وہ اپنی آنکھوں سے ایک ایک آنسو پونچھتی رہیں۔ پھر اپنے بیٹے کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگ گئیں۔ اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ کتنا مشکل ہوتا ہے ماں باپ کے لیے ایک بیٹی کو جنم دے کر اس کو لاڈ پیار سے بڑا کرنا‘ پڑھانا‘ اس کے نخرے اٹھانا‘ اور ایک دن کسی اجنبی لڑکے کے ساتھ شادی کے بندھن میں رخصت کر دینا۔زندگی کا ایک پورا باب ختم ہوا۔ اب زندگی وہ نہیں رہے گی۔ شاید یہ منظر مجھے مزید افسردہ کرتا لیکن وہاں سابق وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کو دیکھا تو ان سے لمبی گپ شپ شروع ہو گئی۔ قادر بلوچ نواز شریف کے ان چند وزیروں میں سے ایک تھے جن کی اسلام آباد میں عزت کی جاتی تھی اور جو پانچ سال وزیر رہنے کے بعد بھی عزت کے ساتھ گھر گئے۔ اگر نواز شریف ان پر اعتماد کرتے اور ان کے چند مشورے مان لیے جاتے تو شاید ان کے فوج سے تعلقات خراب نہ ہوتے۔ وہیں ایف آئی اے کے ایک شاندار ریپوٹیشن والے افسر نجف مرزا سے بھی ملاقات ہوئی۔ نجف مرزا کا شمار بھی بہادر افسران میں ہوتا ہے۔ انہوں نے زرداری کے جعلی اکائونٹس کی تفتیش کی تھی اور دوران تفتیش زرداری سے ان کی تلخ کلامی تک ہو گئی تھی۔ زرداری کو ٹف ٹائم دینے والوں میں ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن اور نجف مرزا جیسے افسران شامل تھے۔ ان سے پہلے سب زرداری سے ڈرتے تھے‘ اسی لیے تفتیش تین سال تک نہ ہو سکی تھی۔ اسی دوران کسی نے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھا۔ مڑ کر دیکھا تو سابق وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ کھڑے تھے۔ میں اٹھا اور گرمجوشی سے ملا۔ ان سے لندن میں دو ہزار سات میں نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران روزانہ ڈیوک سٹریٹ میں ملاقات ہوتی تھی۔ میرے دل میں ان کے لیے عزت اور احترام تھا۔ وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جو شریف بھائیوں کے دربار میں خوشامد نہیں کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے ہم چند صحافیوں سے کہا: دیکھ لیں نواز شریف نے چپکے سے سعودی عرب کی فلائٹ لے لی۔ وہ ساتھ والے سیل میں قید تھے لیکن انہیں ہوا تک نہ لگنے دی گئی۔ میں نے مذاقاً کہا: شاہ جی آپ ہمارے سامنے بات کرتے ہیں‘ کبھی نواز شریف کے منہ پر بھی کہا ہے؟ وہ چپ کر گئے۔ اگلے دن جب دربار لگا ہوا تھا تو ان کی مجھ پر نظر پڑی۔ غوث علی شاہ نے موقع دیکھ کر نواز شریف کو کہا: سائیں آپ نے تو ڈیل کر لی تھی‘ اتنے بڑے جہاز میں ہمارے لیے کوئی سیٹ نہیں تھی‘ میں بھی آپ کے ساتھ والے سیل میں قید تھا‘ ہمیں بھی لے جاتے‘ کیا فرق پڑ جانا تھا۔ دفتر میں ایک خاموشی چھا گئی تھی۔ شاہ جی مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے دفتر سے باہر نکل گئے تھے اور اپنے پیچھے سب کو حیران و پریشان چھوڑ گئے تھے۔ نواز شریف نے بات دل میں رکھی اور وزیر اعظم بننے کے بعد غوث علی شاہ کو قریب تک نہیں پھٹکنے دیا۔ صدر بنایا تو ممنون حسین کو‘ گورنر بنایا تو کسی اور کو۔ میں نے کہا: سائیں کیا ہوا تھا۔ نواز شریف نے کیوں یہ سلوک کیا آپ کے ساتھ حالانکہ آپ نے تو ان کے لیے مشکل وقت گزارا تھا۔ پارٹی کی دیگر قیادت کی طرح جنرل مشرف کو جوائن نہیں کیا تھا۔ ہنس کر بولے: سائیں چھوڑیں بعض لوگوں کو عزت دار لوگ راس نہیں آتے!

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website