ایک غیر ملکی خبر ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان سےمتعلق پالیسی مزید سخت کرسکتی ہے، پالیسی سخت کرنےکی وجہ افغان طالبان کی مبینہ محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔

The Trump Administration can make Pakistan policy more stringent, news agency
غیرملکی خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے شناخت ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بیان دیا ہے کہ امریکا پاکستان سے افغانستان پرحملوں میں ملوث دہشت گردوں کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا مطالبہ کرےگا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کابڑےغیرنیٹواتحادی کادرجہ کم کرنےسمیت،ڈرون حملوں میں اضافہ، پاکستان کوامدادمیں تبدیلی یااس کےروکےجانےکےامکانات زیرغورہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکا پاکستان سےتعلقات میں کمی نہیں بلکہ بڑاتعاون چاہتاہے،افغانستان میں 16سالہ جنگ سےمتعلق اسٹرٹیجی کےجائزےکےمکمل ہونےکےبعداہم اقدامات اٹھائےجائیں گے۔
ترجمان پنٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکااورپاکستان وسیع ترقومی سلامتی کےامور پر شراکت داری جاری رکھے ہوئے ہیں،جب کہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان سےمتعلق امریکی پالیسی کیا ہےابھی اس بارےمیں مکمل طورپرکچھ نہیں کہہ سکتے،امریکا پاکستان سےکیا چاہتاہے یہ امریکی اسٹرٹیجی بہتر طورپرواضح کرسکےگی۔ امریکا کو بالآخر ایک اتحادی چاہئےوہ ایک ناقص اتحادی بھی ہوسکتا ہے، امریکی حمایت یافتہ افواج کو افغانستان میں کامیابی نہیں مل رہی ہے یہ تسلیم کرتے ہوئے امریکا افغانستان میں مزیدفوجی دستے تعینات کرنےکےلئےتیارہے۔
اقوام متحدہ میں افغان سفیرحمداللہ محب کا کہنا ہے کہ وہ پریقین ہیں، ماضی کےمقابلے میں پاکستان کیلئے امریکی پالیسی مزید سخت ہوگی۔ پاکستان حکام نےشناخت ظاہر نا کرنے کی شر ط پر بیان دیا ہے کہ پاکستان امریکی ڈومورکےجواب میں پہلےہی بہت کچھ کررہاہے،مزیدکی گنجائش اب ختم ہوچکی ہے، امریکا پاکستان پردہشت گردی کےخلاف جنگ چھوڑنے پر زور ڈالنا نہیں چاہےگا۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پول کےمطابق پاکستان میں 2003سےاب تک 22 ہزار شہری،7 ہزار سکیورٹی اہلکاردہشت گردی کانشانہ بن چکےہیں۔








