تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
چائنی عوام نے انتھک محنت کے بعد دنیا میں اپنا مقام حاصل کر لیا ہے۔ دنیا اب ماننے لگی ہے کہ چین جلد دنیا کی نمبر ون اقتصادی طاقت بننے والی ہے۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ چین پاکستان کا بہترین دوست ہے۔اس موقعہ پر ہمیں سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کاایک پرانا بیان یاد آیا ہے کہ دنیا میں پاکستان کا صحیح اور سچادوست صر ف چین ہے۔اس دوستی کی لمبی داستان ہے پاکستان کی ہر حکومت نے چین کے ساتھ دوستی کو پروان چڑھایا اور اسے برقرار بھی رکھا۔ ڈکٹیٹر ایوب خان صاحب سے لیکر پاکستان کے موجودہ لیڈر نواز شریف صاحب نے اس داہمی دوستی کو برقرا رکھا جو ایک اچھی روایت ہے۔
کیوں نہ ہو چین پاکستان کی ہر شعبہ میں ہمیشہ مدد کرتا رہا ہے۔ ١٩٦٥ء کی پاک بھارت جنگ میں جب امریکہ نے پاکستان کو خریدے گئے اسلحہ کے فاضل پرزے دینا بند کر دیے تھے تو مشکل کی گھڑی میں چین نے پاکستان کی دفاعی ضروریات کو پورا کیا تھا۔ٹیکسلا میں بھاری اسلحہ کی صنعتی فیکٹریاں قائم کیں۔ پاکستان کے لیے سستی ایٹمی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جب مغرب خاص کر فرانس نے ہمیں ایٹمی ری ایکٹر دینے سے انکار کر دیا تو یہ چین ہی تھا جس نے پاکستان میں ایٹمی ری ایکٹر لگایا تھا اور اب بھی پاکستان میں کئی ری ایکٹرز لگانے کے معاہدے کیے ہیں جس پر امریکہ بہادر ان ری ایکٹر زکی پاکستان میں تنصیب کے خلاف چین کو روک رہا ہے۔
چین نے پاکستان کے ساتھ ملکرایف٦تھنڈر لڑاکا جہاز تیار کئے۔ بلوچستان میں ڈیب سی گوادر پورٹ بھی چین نے تعمیر کی ہے اس سے پہلے دنیا کا آٹھواں عجوبہ( سلک روڈ)شاہرہ ریشم تعمیر کر چکا ہے۔اس کے علاوہ بھی چین پاکستان کی ترقی کے لیے کئی منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔خارجہ پالیسی میں چین نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا۔کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ میں ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا۔ کشمیریوں کو پاسپورٹ کے بجائے صرف ایک پرچی پر چین میں سفر کرنے کی اجازت سے رکھی ہے۔ کیا کیا بیان کیا جائے ایک لمبی لسٹ ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے بھی چین کے مفادات کا ہمیشہ خیال رکھا۔ کشمیر کے ساتھ چین کی جو سرحد ملتی ہے وہاں ایک علاقہ ہے جسے اقصائے چن کہتے ہیں۔ جو بھارت کے حوالے سے چین کے لیے دفاعی لحاظ سے بہت اہم ہے۔
اُس وقت لوگ اسے نو مین لینڈ کہتے تھے ۔ ڈکٹیٹر ایوب خان صاحب کے دور میں اقصائے چن کا ١٢٠٠٠ مربہ میل کا علاقہ چین کو دے دیا گیا تھا۔ کشمیری اب بھی اسے اپنا علاقہ تصور کرتے ہیں۔ چین نے کہہ رکھا ہے جب کشمیر کا فیصلہ ہو گا تو اقصائے چن کا علاقہ کشمیر کو واپس کر دیا جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے چین کے امریکہ کے ساتھ تعلوقات میں مدد کی تھی۔ا س اقتصادی راہداری پر ٤٦ ملین ڈالر خرچ آئے گا۔یہ پروجیکٹ چھ سال میں مکمل ہو گا۔گوادر پورٹ چین کو٤٠ سال کے لیے دی گئی ہے۔ جنجراب سے حویلیاں تک ریلو ے لائن بھی بچھائی جائے گی ۔ اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی ورکروں کی حفاظت کے لیے ١٢٠٠٠ افراد پر مشتمل سیکورٹی فورس بنائی جائے گی۔پاکستان میں پہلے سے موجود ٨١٠٠چینی ورکرز جو مختلف پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں کی حفاظت کے آٹھ ہزار سیکورٹی افراد تعینات ہیں۔ اب بات کرتے ہیں اقتصادی راہداری کی ۔ چین نے ٢٠١٣ء میں اس راہداری کا اعلان کیا تھا اور پاکستان کو اعتماد میں بھی لیا تھا۔اصل میں چین دنیا کی منڈیوں تک اپنے مال کی رسائی چاہتا ہے جو سمندر کے راستے مہنگا اور لمبا راستہ ہے اس میں وقت بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے جو تجارت کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں ۔ زمینی راستے سے تجارت میں فاہدہ ہے اور راستہ بھی کم ہے اس لیے تو اس نے شاہ راریشم بنائی تھی اب اس کو گوادر کی بندر گاہ تک پہنچانا چاہتا ہے۔ چین کے مجوزہ روٹ کے مطابق خنجراب،گلگت، حسن ابدال سے میانوالی،ملتان ڈیرہ غازی خان،ڈیرا مراد جمالی۔پنجگور اور گوادر پورٹ تک پہنچتا ہے۔اس روٹ کا فاصلہ کم از کم بنتا ہے۔
اس سے بلوچستان کے راستوں میں ترقی کے امکانات پیدا ہوں گے۔جب روڈ پرسامان سے بھرے ٹرک اور ریلیںرواں دواں ہوتی ہیں توپھر اُن راستوں پر ہوٹل بنتے ہیں۔ مکینک کی ورک شاپ بنتی ہیں۔ جگہ تجارتی بستیاں آباد ہوتی ہیں۔ بلوچستان میں ترقی ہو گی تو عوام خوش ہوں گے ۔لوگوں کو روز گار ملے گا۔ جب خوشحالی آئے گی تو علیحدگی پسندوں کو بلوچستان کے عوام رد کر دیں گے ۔بلوچستان کا مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔اب نواز شریف حکومت نے بقول عمران خان صاحب کے دو سال تک تو اس اقتصادی راہداری کو عوام سے چھپائے رکھا اب عوام کے سامنے لایا گیا تو اسے متنازہ بنا دیا گیا۔ اخباری خبروں کے مطابق اس کا راستہ ٥٠٠ کلومیٹر بڑھا دیا گیا۔ نواز شریف صاحب نے جو نیا راستہ تجویز کیا ہے وہ پاکستان کا نسبتاً ترقی زیادہ یافتہ علاقہ ہے۔
اس سے پاکستان کے کچھ لوگ ناراض ہو گئے ہیں۔ گو کہ پاکستان کے تمام سیاسی لیڈروں کو اسلام آباد بلا کر اس اقتصادی راہداری پر تفصیلات بتائی گئی ہیں لیکن اس سے لوگ مطمئن نہیں ہوئے اور انہوں نے کوئٹہ میں ناراض لوگوں کے اجتماع میں پرانے اور کم فاصلے والے راستے کے لیے اگر کہا ہے تو یہ اُن کا جائز مطالبہ ہے۔ اسی کو چین نے بھی تجویز کر رکھا جو اس کا اصل منصوبہ ہے جس کا فاصلہ کم از کم ہے۔اسی اقتصادی راہداری کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنے دیں۔ اس کے بعد پورے پاکستان میں اس سے سڑکیں ملا دیں۔ہمارے ملک میں دشمنوں نے پہلے سے ہی کالاباغ ڈیم بنانے پر اختلافات ڈال دیے تھے جو اب تک چلے آ رہے ہیں اور پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہو چکا ہے۔ اب ایک بہت بڑے اقتصادی پروگرام میں بھی دشمن اختلاف ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس کو تد بر سے حل کرنا چاہیے ۔ یہ ذمہ داری حکومت کی ہے یعنی نواز شریف صاحب کے کندھوں پر پڑتی ہے کہ جیسے پہلے بھی صوبوں میں حکومت سازی میں بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے خیبر پختون میںاکثریتی پارٹی کو حکومت بنانے دی اور بلوچستان میں ایک معاہدے کے تحت وزیر اعلیٰ بلوچ اور گورنرپختون بنے جس سے ایک اچھا تاثر قائم ہوا۔ اسی طرح بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعتراضات کرنے والوں کے جائز مطالبات پر غور و فکر کر کے اسے دور کرنا چاہیے۔ ویسے دو مارچ کوایکپریس ٹریبیون میں چین کے ایک ذمہ دار کا مضمون چھپا تھا جس میں اس کا کہا کہ ایک ہی روٹ ہے جو پاکستان اور چین کے درمیان طے ہوا ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا روٹ نہیں۔ اگر یہی بات ہے توہم اعتراض کرنے والے لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی طرح خا مخواہ اقتصادی راہداری کو متنازہ نہ بنائیں اور پاکستان کی ترقی میں اپنا اپنا ہاتھ بٹائیں۔
تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)