تحریر : ایم سرور صدیقی
شاید اب سوچنا محال، بات کرنا مشکل اور سمجھانا یقینا اس سے بھی مشکل مرحلہ ہے، قحط الرجال ہے، یا اخلاقی اقدار کے امین خال خال رہ گئے ہیں کیا زمانہ آگیاہے جو سچے ،کھرے اور بے غرض ہیں ان کی کوئی سننے کو تیارنہیں ،بات ماننے پر آمادہ نہیں لوگ لچھے دار باتیں کرنا اور سننا پسند کرنے کرتے ہیں بیشتر صاف ،ستھری کھری بات کرنے والوں سے ناراض، ناراض رہتے ہیں جیسے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں ہر چیزپر مادیت اس قدر غالب ہے کہ لوگوں کا،چیزوں کا اور ماحول کا اصل حسن چھپ گیا ہے بات کرو تو سب تسلیم بھی کرتے ہیں ، کوئی مانے نہ مانے دل تو ضرور گواہی دیتاہے کسی لالچ ، اجریاثواب اور صلہ کی خواہش کئے بغیر انسانیت کی خدمت ہی زندگی کی علامت ہے کہنے والے یہی کہتے ہیںآدمیت سے انسانیت کے درمیان معمولی سا فرق ہے جس نے یہ راز جان لیا سمجھ لیجئے نسخہ ٔ کیمیا اس کے ہاتھ لگ گیااسی لئے حالی نے کہا تھا
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگراس میں لگتی ہے محنت زیادہ
لیکن کیا کیجئے ! آدمیت سے انسانیت کے درمیان معمولی سا فرق بھی اب ہمیں کوئی فرق نہیں لگتا ضمیر، احساس اور مروت کا گلہ گھونٹ کر شاید ہم نے تنزلی کو ہی ترقی کامتبادل سمجھ لیاہے اسی لئے تیزی سے تنزلی کا یہ سفر جاری ہے لیکن کسی کو مطلق احساس تک نہیں اسے اجتماعی بے حسی سے بھی تعبیر کیا جا سکتاہے اور اجتماعی خودکشی بھی۔حکومتی نمائندے، اہل ِ فکر،دانشور بالخصوص علماء کرام اساتذہ معاشرے میں بہتری کے لئے کچھ اسباب پر غور کریں لوگوںمیں حلال حرام کی تمیزاجاگرکی جائے،ہر سطح پر ظلم کے خلاف مو ٔثر تحریک چلا ئی جائے۔۔نفرتوںکے خاتمہ کیلئے محبت ،رواداری اورمذہبی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے کچھ کیا جائے تو بہتوںکا بھلاہوگا۔ لیکن کریں کیاشاید اب سوچنا محال، بات کرنا مشکل اور سمجھانا یقینا اس سے بھی مشکل مرحلہ ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ دل محبت سے خالی ہو گئے ہیں مسلمان ہونے کے باوجودہم مروت، احساس ،اخوت،بھائی چارہ اور ایک دوسرے کی چاہت سے عاری ہوتے جارہے ہیں اوردل ہیں کہ خواہشات کے قبرستان بن گئے کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا کہ کسی لالچ ، اجریاثواب اور صلہ کی خواہش کئے بغیر انسانیت کی خدمت ہی زندگی کی علامت ہے پاکستان میں غربت،دہشت گردی ،بے روزگاری،مہنگائی ،جسم فروشی اور چوری ،ڈکیتی،راہزنی دیگرمسائل کا بڑا سبب دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جس نے مسائل در مسائل کو جنم دے کر عام آدمی کی زندگیاں تلخ بنادی ہیں
پاکستان نصف صدی سے جن چیلنجز سے نبرد آزما ہے ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملکی وسائل چند خاندانوںتک محدودہوکر رہ گئے ہیں یہی لوگ اس وقت پاکستانیوںکی تقدیرکے مالک بنے ہوئے ہیں اصلاح احوال کیلئے کوئی طریقہ ہے نا سلیقہ۔۔لگتا ہے کسی کو اس بارے سوچنے کی کوئی فکرنہیں اچھے خاصے لوگ تنقید کے ڈر یا بااثرلوگوںکے خوف سے تعمیری کام کرنا بھی بند کردیتے ہیں۔کبھی کبھی ہم سوچتے رہتے ہیں اور سوچ ۔۔سوچ کر سوچتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ظالم ا تنے طاقتور، بااثر اورصاحب ِ اختیار کیوںہیں کہ آئین اور قانون بھی ان کے سامنے بے بس رہتاہے اس لئے ہرروز ایک نیا سانحہ جنم لے رہاہے۔۔ہررات ظلم کی ان گنت کہانیاں جنم لیتی ہیں۔۔۔ہر سورج مظلوموںکیلئے نیا امتحان لے کر طلوع ہوتاہے کبھی مظلوم خودسوزی کرتے ہیں لیکن بااثر ملزمان کا کچھ نہیں بگڑتا الغرض سمجھ نہیں آتی ہر قسم کی سماجی قباحتوںاور عجیب رسم و رواجوں اور برائیوںمیں جکڑا یہ معاشرہ کب سدھرے گا؟
ہمارے حکمران ہیں کہ روز نیا دعوےٰ کرتے ہیں۔۔ اور ان کے حواری تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے تھکتے نہیں اورمزے کی بات یہ ہے کہ انہیں کوئی شرم بھی محسوس نہیں ہوتی لیکن عوام کی حالت جوں کی توں ہے۔شاید اب سوچنا محال، بات کرنا مشکل اور سمجھانا یقینا اس سے بھی مشکل مرحلہ ہے کیا عام آدمی حکومت سے مایوس ہو جائیں؟ ۔۔نرمی ،تر غیبات، آسائشیں اور مراعات قانون شکنوں کیلئے نہیں صرف اور صرف ان کیلئے ہونی چاہییں ۔۔۔جو حکومت کی رٹ مانتے ہوں۔۔۔قانون کا احترام دل سے کریں۔۔۔اورسماج کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں ہمارے خیال میں وہ وقت قریب آن پہنچاہے جب حکمرانوںنے یہ فیصلہ کرناہے کہ اس ملک کو نظام درست کرناہے یا اشرافیہ کو یونہی شتر بے مہار آزادی دئیے رکھنی ہے۔۔ہم نے اپنے ملک کی بقاء کیلئے کام کرناہے یا پھر ڈنگ ٹپائو پالیسیاں بناکر اپنے آپ کے ساتھ منافقت کرنی ہے۔۔۔۔
یہ سسٹم ایسے ہی چلتا رہا تو اخلاقی اقدار، اخلاقیات اور یگانگت کا جنازہ روز سر بارار اٹھے گا اور ہمارے ارد گرد وحشت،بے شرمی اور بے حیائی ناچ رہی ہوگی اور ہم کچھ کرنا بھی چاہیں تو کچھ نہیں کر پائیں گے۔یاد رکھیں اگر قدرت ہمیں مہلت پہ مہلت دیئے جارہی ہے تو اس سے فائدہ اٹھایا چاہیے جناب!برا منانے کی کوئی ضرورت نہیں حکمرانوں سے فقط ایک سوال ہے کیا فیصلہ ہے کیا آپ نے ؟ ورنہ ہمارے بارے میں تو لوگوںکی رائے مسلمہ ہے
اس جھوٹی نگری میں ہم نے یہی ہمیشہ دیکھا ہے
سچی بات بتانے والے کچھ کچھ پاگل ہوتے ہیں
تحریر : ایم سرور صدیقی