counter easy hit

میجر جنرل آصف غفور اور مہاتما گاندھی

میجر جنرل آصف غفور کی تمام اہم قومی امور پر ہمہ جہتی پریس کانفرنس سن کر مہاتما گاندھی کا میاں افتخار الدین اور ان کی بیگم کے نام اپنے ہاتھ سے اردو میں لکھا ہوا خط یاد آیا۔

یہ خط میاں افتخارالدین کے خاندان کے پاس اب بھی محفوظ ہے۔

مہاتما گاندھی نے یہ خط اس وقت لکھا جب میاں افتخار الدین نے انڈین نیشنل کانگریس پنجاب کی صدارت چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ ظاہر ہے کہ مہاتما گاندھی کو اپنے دیرینہ ساتھی اور پنجاب کانگریس کے صدر کے پارٹی چھوڑ جانے پر افسوس تو بہت ہوا ہو گا۔

لیکن انھوں نے فلسفہ عدم تشدد اور منفی چیز پر بھی مثبت طریقے سے ردعمل کے طور پر میاں افتخار الدین اور بیگم کو مخاطب کر کے لکھا ’تم بھلے لوگ ہو۔ کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ چلے گئے ہو وہاں بھی بھلا ہی کرو گے۔‘

اس خط کی پیروی میں عرض ہے کہ جنرل آصف غفور بھلے آدمی ہیں جو بھی کہیں گے بھلے ہی کے لیے کہیں گے۔

جنرل آصف غفور اس لیے بھی بھلے آدمی ہیں کہ ماضی کے عسکری میڈیا سپنرز جنرل شیر علی پٹودی اور جنرل مجیب الرحمن کی طرح گول مول اور نفسیاتی طور پر پیچیدہ بیان نہیں دیتے، وہ صاف اور سیدھی بات کرتے ہیں۔

ان کا پیغام بھی بڑا واضح ہوتا ہے مگر اصل مسئلہ ان کے دلائل کے منطقی نتیجے پر ہے ان کے اس فقرے سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ 1971 میں اگر میڈیا آزاد ہوتا تو مشرقی پاکستان کبھی الگ نہیں ہو سکتا تھا۔

مگر اس سے سبق الٹا سیکھا گیا ہے اور بار بار میڈیا پر پابندی لگتی رہی۔ آج کل بھی ہم صرف مثبت باتیں لکھنے پر مامور ہیں۔

تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اس بار میڈیا پر پابندی سے کوئی نیا سانحہ مشرقی پاکستان کرنا مقصود ہے؟ ورنہ تو جنرل آصف غفور جیسے بھلے آدمی کو فوراً تمام پابندیاں ختم کر کے میڈیا کو آزاد کر دینا چاہیے تاکہ بقول ان کے ملک مستحکم اور مضبوط ہو اور خدانخواستہ پھر سے میڈیا پر پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کا کوئی اور حصہ الگ نہ ہو۔

بھلے آدمی اور بھلی حکومت کے کارناموں میں سے تازہ ترین دینی مدارس کو محکمہ تعلیم کے نظام سے جوڑنا ہے۔ کئی سالوں کی کاوشوں کے بعد ’اپنا فقہ چھوڑو نہیں اور دوسرے کا فقہ چھیڑو نہیں‘ کے ماٹو کے تحت کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ بھلا کام ہے، اس کی ہر کوئی تعریف کرے گا۔ لیکن اس کام کو بار بار ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے اور بوتل میں بند جن پھر سے باہر آ جاتا ہے۔

توقع کرنی چاہیے کہ اس بار دینی مدارس کو قومی دھارے میں لا کر وہاں پڑھنے والے بچوں کے معاشی مستقبل کو محفوظ کر لیا جائے گا اور بعض مدارس میں جو نفرت انگیز مواد پڑھایا جاتا ہے یا وہاں سے بچے نفرت کا جو سبق لیتے ہیں وہ یقینی طور پر بند ہو جائے گا۔

بھلے آدمی آصف غفور نے پریس کانفرنس میں ایران اور سعودی عرب کی پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ پراکسی وار کا بھی اعتراف کیا ہے اور اس کے نقصانات کا ذکر بھی کیا ہے اس پس منظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہم پراکسی وار سے نکل آئیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اب بھی سعودی عرب سے مالی امداد و تعاون کے چکر میں اس کی اس خطے میں پراکسی بنے ہوئے ہیں اور اگر یہی معاملہ جاری رکھا گیا تو پھر فرقہ وارانہ جنگ اور بھڑکے گی۔

مہاتما گاندھی خود بھلے آدمی تھے مگر آج کل انڈیا میں جو سرکار موجود ہے اسے شاید گاندھی جی بھی بھلا قرار نہ دیتے کیونکہ مودی جی گاندھی کے فلسفے پر عمل کی بجائے بالکل اس کے الٹ چل رہے ہیں۔

جنرل آصف غفور انڈیا کے جھوٹوں پر خوب برسے۔ یہ ان کا میدان ہے اور وہ اس کے مردِ میدان ہیں۔ بات یہیں تک رہتی تو درست تھا مگر ہمارے بھلے آدمی نے تو حکومت کے ہر ہر شعبے کی پالیسی پر بات کی پی ٹی ایم سے لے کر ان کی سیاست اور عمل پر بھرپورروشنی ڈالی۔

ہر شعبے پر ان کا اس طرح اظہار خیال۔ ان کے اختیار سے کہیں زیادہ تھا شاید اسی لیے بلاول بھٹو نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ فوج کے ترجمان کو سیاست اور مختلف محکمہ جات پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ فوج ایک قومی ادارہ ہے سب سیاسی جماعتوں کے حکومت سے اختلاف ہوتے ہیں ان کا جواب سیاسی حکومت کو ہی دینا چاہیے اگر یہ فریضہ فوج نے سنبھال لیا تو فوج بھی متنازع ہو جائے گی اس لیے ملکی فوج کو متنازع سیاسی امور میں الجھانا غلط رویہ ہے۔

بھلے آدمی کو علم ہونا چاہیے کہ ریاست پاکستان ٹھیک ٹھیک چل رہی تھی کہ اچانک جنرل شیر علی نے دو قومی نظریہ، نظریہ پاکستان اور ایسی ہی دوسری اصلاحات متعارف کر کے ریاست پاکستان ہی میں موجود کئی لوگوں کو دوسرے درجے کا شہری اور کئی ایک کو نظریہ پاکستان کا منحرف قرار دے دیا۔

یوں بیٹھے بٹھائے بنگالی غدار ٹھہرے، ہر چھوٹی قومیت کے حق کی بات کرنے والے غیر محب وطن قرار پائے۔

کیا سندھی، کیا بلوچ اور کیا پشتون کوئی بھی غداری کے پھٹے سے نہ بچا۔ جنرل آصف غفور خود مشرقی پاکستان کی مثال کو جانتے ہیں انھیں چاہیے کہ ان سیاسی امور سے دور رہیں اسی طرح کے ایک اور فلاسفر جنرل مجیب الرحمن تھے جنھوں نے ضیا ڈاکٹرائن میں ’اسلامی جمہوریت‘، ’صدارتی نظام‘ جیسے مثبت اور پر کشش الفاظ تخلیق کیے اور سیاسی مخالفین کو تخریب کار اور انڈیا کے دوست قرار دیا یوں اس وقت ملک کی سب سے مقبول پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی حب الوطنی ہی کو مشکوک بنا ڈالا۔

جنرل آصف غفور سیاسی جماعتوں اور گروپوں کی غداری کے فتوے دینے سے گریز کریں کیونکہ ماضی میں عسکری ترجمانوں سے یہی غلطی ہوتی رہی۔

اگر انھیں ماضی کی غلطیوں کا ادراک ہے تو انھیں دوبارہ سے یہ غلطی ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔ آخرمیں بقول گاندھی اس بھلے آدمی سے گزارش ہے کہ آزاد میڈیا کی تعریف کے بعد انھیں چاہیے کہ وہ ملک میں میڈیا کو آزاد کروا دیں۔ ہمیں علم ہے کہ اس بھلے آدمی سے کہیں بہت نیچے کے لوگ ہیں جو میڈیا پر پابندی لگواتے ہیں۔

ہمیں یہ خوش گمانی بھی ہے کہ یہ ساری پابندیاں اسے بھلے آدمی سے بالا ہی بالا یا نیچے ہی نیچے سے لگ جاتی ہیں۔ اگر انھیں اس کا علم ہو تو وہ ایسا کبھی نہ ہونے دیں ۔اس بھلے آدمی نے پاکستانی میڈیا کو کچھ عرصے کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کی ذمہ داری عطا کر رکھی ہے اور ہم سب منشی آج کل سب میٹھا میٹھا لکھ رہے ہیں۔

پوچھنا یہ تھا کہ ہم نے یہ ذمہ داری کب تک نبھانی ہے؟ کیاوہ چھ ماہ گزر چکے ہیں یا دوبارہ سے آ گئے ہیں۔ ہم منشیوں پر جب سے یہ بھاری ذمہ داری پڑی ہے ہمارے کندھے بوجھل ہو گئے ہیں، مثبت لکھنے کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ سر بھی بھاری ہو رہا اور پاؤں بھی۔ براہ کرم منشیوں کا یہ بوجھ ہلکا کر دیں یہ بچارے اس بھاری ذمہ داری کے اہل ہر گز نہیں۔ باقی آپ بھلے آدمی ہیں جو بھی کریں گے بھلا ہی کریں گے۔۔۔۔