counter easy hit

خان جی : اگر اپنی سیاسی مقبولیت قائم رکھنا اور اپنی تبدیلی کو بدنام ہونے سے بچانا چاہتے ہو تو یہ کام کرو

لاہور (ویب ڈیسک) فرض کریں کہ اگلے الیکشن میں نواز شریف اور شہباز شریف نہ ہوں، حمزہ کو بھی آئوٹ کر دیا جائے تو ن لیگ کی جگہ کون لے گا؟ آخر پورا ملک صرف پی ٹی آئی کا حامی تو نہیں بن سکے گا ایک اختلافی کیمپ تو رہے گا۔نامور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ جب کوئی قومی سیاسی جماعت کمزور ہوتی ہے تو اس کی جگہ انتہاپسند اور علیحدگی پسند جنم لیتے ہیں۔ معاشرے میں گروہی، قبائلی اور برادری اختلافات بڑھتے ہیں اور تو اور فرقوں کی بنیاد پر جھگڑے ہوتے ہیں۔ کیا ہمارے کرم فرما یہی چاہتے ہیں تو پھر اس مفروضے پر تعمیر ہونے والی عمارت پختہ نہیں ،بہت ہی کمزور ہو گی۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سیاست گملوں میں نہیں گلیوں میں نمو پاتی ہے۔ عوامی مقبولیت کو قائم رکھنے کے لئے بہادری اور قربانی لازمی جزو ہیں صرف تقریریں اقتدار نہیں بچا سکتیں بلکہ وعدے تو پھندے بن جاتے ہیں۔ اگر ملک کو ترقی اور خوش حالی کے راستے پر چلانا ہے تو واحد راستہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہے۔ احتسابی قوانین کو ملکی قانون اور ملکی آئین سے بالاتر قرار دینے اور احتساب کے ذریعے سے سیاست کرنے سے ملک زوال کا شکار ہو گا۔ احتساب کا نظام سیاست سے الگ تھلگ اور بالاتر ہونا چاہئے۔ بھارت، برطانیہ اور امریکہ میں احتساب ملکی غیر سیاسی ادارے کرتے ہیں اور کوئی ان پر انگلی نہیں اٹھاتا۔پاکستان میں جس دن حکومتی جماعت کا حکومتی ادارہ
غیرجانبدارانہ اور غیر سیاسی احتساب کرے گا اسی دن احتساب کی ساکھ بہتر ہو گی وگرنہ اسے جانبدارانہ اور ظالمانہ قرار دیا جاتا رہے گا۔ فرض کریں کہ کارگل پر حملہ کامیاب ہو جاتا تو کیا ہم عالمی دبائو کے مقابلے میں یہ قبضہ برقرار رکھ سکتے تھے؟ ہرگز نہیں۔ فرض کریں کہ آپریشن جبرالٹر کے مقاصد حاصل ہو جاتے تو کیا ہم بھارت سے کشمیر چھین سکتے تھے؟ ہرگز نہیں۔ تو سبق کیا ملا کہ مفروضوں اور حکمت عملیوں سے ضروری نہیں آپ کی مرضی کے نتائج حاصل ہوں۔ سیاست اور جنگ دونوں میں کسی ایک فریق کی حکمت ِعملی فیصلہ نہیں کرتی دوسرے فریق کا ردعمل جنگ اور سیاست کا فیصلہ کرتا ہے۔ اسی لئے ہمارے کرم فرمائوں کو اب مفروضوں سے نکل کر حقائق کی دنیا میں آنا ہو گا۔ مٹی کے مادھو بنانے سے ریاست نہیں چلتی اس کے لئے اصلی نام اور اصلی کام والوں کو سامنے لانا ہو گا۔ جنگ اور سیاست میں جعلی ہیرو نہیں چلتے بلکہ ان کی اصلیت کھل جاتی ہے۔ سیاست کی ڈوریاں نہ کھینچیں اسے آزاد چلنے دیں، پاکستان خودبخود ٹھیک ہو جائے گا۔