کیوبا(ویب ڈیسک) لینن نے ’’ریاست اور انقلاب ‘‘ میں لکھاتھا’’تاریخ کے اس سفر میں جو کچھ آج مارکسز م کے ساتھ ہو رہاہے،یہ ہرگز کوئی نئی بات نہیں ہے؛ہر دور کے انقلابی مفکروں کے نظریات اورعوام کی نجات کے آدرش کیلئے لڑنے والوں کے ساتھ یہی بار بار ہوتاچلاآرہاہے۔سبھی انقلابیوں کی زندگیوں میں استحصالی طبقات وحشی کتوں کی طرح ان پر ٹوٹ پڑنے کو دوڑتے ہیں،ان کے نظریات کو انتہائی غلاظت اور گندگی میں لتھاڑکر پیش کیا جاتا ہے،بدترین بہتانوں اورذلت آمیز دشنام طرازی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیاجاتاہے۔اور جب یہ مرجاتے ہیں تو کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں کہ ان کو ایک بے ضررقسم کا انسان بنا کر پیش کیاجائے،ان کے بارے اور ان کے حوالے سے اس قسم کی داستانیں تخلیق کی جاتی ہیں اور ان کو کیا سے کیا بناکے پیش کیا جاتا ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ وہ انسان نہیں کچھ اور شے تھے،اور یوں اس طریقے سے ایسے لوگ سب کچھ قرار پاجاتے ہیں سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنی زندگیاں محروم اور درماندہ انسانوں کی زندگیاں بدلنے کیلئے وقف کر دی ہوئی تھیں۔ مقصد اس قسم کی زیب داستان کا ایک ہی ہوتا ہے کہ استحصال زدگان کو دھوکے فریب اور سحر میں مبتلا کر دیا جائے،اور ان بڑے انسانوں کے انقلابی آدرشوں اور نظریات پر مٹی ڈال دی جائے،ان کے انقلابی تشخص کو بیہودہ طریقے سے بگاڑ دیاجاتا ہے۔‘‘اپنی موت کے بعد چے گویرا سوشلسٹ انقلابی تحریکوں کے ہیرو اور جدید پاپ کلچر کے نمائندے کے طورپر ابھرا،البرٹو کورڈا کی بنائے ہوئے چے کے فوٹو نے بہت شہرت پائی
اور دنیا بھر میں ٹی شرٹوں،احتجاجی بینروں پر یہ فوٹو نمایاں ہوتاجارہاہے اور یوں چے گویرا ہمارے عہد کا معتبر و معروف انسان بن چکاہے۔لینن کی موت کے بعد سٹالن اور زینوویف کی قیادت میں لینن کا تشخص ابھارنا شروع کر دیاگیا۔کروپسکایا(لینن کی بیوی) کی خواہش کے برعکس لینن کی میت کو ریڈسکوائر میں سجاکر مرجع خلائق بنانے کیلئے رکھ دیاگیا تاکہ عوام اس کا آخری دیدار کر سکیں۔کروپسکایا نے بعد میں کہاتھا کہ’’ لینن جس شخصیت پرستی کے خلاف عمربھر لڑتا رہا،اسے مرنے کے بعد اسی شخصیت پرستی کی سولی پر لٹکادیاگیا۔‘‘ نومبر2005ء میں جرمنی کے جریدے ڈیر سپیجل میں یورپ کے ’’پرامن انقلابیوں ‘‘پر ایک مضمون شائع ہواتھا جس میں ایسے انقلابیوں کو ’’گاندھی‘‘اور ’’گویرا‘‘ کے وارث قراردیاگیا۔ یہ ایک شعوری بیہودگی ہے۔ہمیں چے گویراکوایسے لوگوں سے بچانے کیلئے ایک سوسائٹی تشکیل دینی ہو گی جن کا مارکسزم سے طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔اور جو چے گویرا کی ایک انتہائی غلط تصویر کشی کر رہے ہیں اور اسے ایک انقلابی صوفی درویش ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اسے ایک رومانس پسند مڈل کلاسیا،ایک انارکسسٹ،گاندھی کا ایک امن پسندپیروکار،اور اسی نوعیت کے دوسرے تشخص فراہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ہمارا اس عظیم اور سچے انقلابی سے وہی رشتہ اور ناطہ ہے
جو لینن کا روزالگزمبرگ کے ساتھ تھا۔لینن نے روزا کی مارکسزم بارے غلطیوں پرتنقید میں کبھی کوئی رعایت نہیں کی تھی اور لینن نے ہمیشہ روزا کو ایک سچی انقلابی اور انٹرنیشنلسٹ کے طورپر ہمیشہ عزت واحترام کا درجہ دیا۔ اصلاح پسندوں اور منشویکوں کی طرف سے کئے گئے حملوں کے جواب میں لینن نے روزا کو ان الفاظ میں یادکیا؛ ہم یہاں ان لوگوں کو روس کی ایک قدیم کہاوت کے حوالے سے جواب دینا پسند کریں گے جس میں کہاگیا ہے کہ یہ تو ہو سکتاہے کہ بعض اوقات شاہین نیچی پروازکرتے ہوئے مرغیوں کے برابرآجائیں لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ مرغیاں پوری کوشش کر کے بھی شاہین کی بلندیوں کو پہنچنے کا تصور بھی کر سکیں۔ اپنی غلطیوں کے باوجود،روزا،ہمارے لئے شاہین کا درجہ رکھتی تھی،ہے اور رہے گی۔نہ صرف یہ کہ دنیا بھر کے کمیونسٹ ا س کی یاد وں سے اپنے آدرشوں کوہمیشہ منور رکھیں گے بلکہ اس کی سوانح عمری اور اس کا لکھا ہوا ہر لفظ دنیابھر میں کمیونسٹوں کی اگلی نسلوں کی بھرپور رہنمائی کرے گا۔4اگست1914سے جرمن سوشل ڈیموکریسی ایک تعفن زدہ لاش بن چکی ہے۔یہی ایک بیان بھی روزاکوعالمی محنت کش تحریک میں شہرت دینے کیلئے کافی ہوگا۔یقینی طورپر عالمی مزدور تحریک کے پچھواڑے میں واقع ڈربے
میں سے پال لیوی،شیڈمین،کاٹسکی اور ان جیسے مرغی نما دانشور اس عظیم انقلابی کی غلطیوں پر کیچڑ اچھالتے رہیں گے۔‘رنسٹو گویرا ڈی لا سرینا (14جون 1928تا 9 اکتوبر1967ء) نام کا یہ انسان دنیا بھر میں چے گویرا کے نام سے مشہور ومقبول ہے۔وہ ایک ایسامارکسی انقلابی تھا جو پیداتوارجنٹائن میں ہواتھا لیکن اس کے جسم کی رگ رگ اور خون کے ہر ایک ذرے میں بین الاقوامیت رچی بسی ہوئی تھی۔جیسا کہ لاطینی امریکہ میں یہ ایک معمول ہے،اس کے آباؤاجداد مخلوط النسل تھے۔گویرا،باسک گبارا کی ایک ہسپانوی شکل ہے،اس کے خاندانی ناموں میں سے ایک لنچ ہے جو کہ آئرش تھا،لنچ خاندان گیلوے کے14قبائل میں سے ایک تھا۔باسق اور آئرش نسلوں کے خون کا یہ اتصال اور ملاپ دھماکہ خیزہوناہی تھا! لاطینی امریکہ کی اکثریت کے برعکس ایک مڈل کلاس گھرانے میں پیداہونے والے چے گویرا کو غربت اور بھوک جیسی بلاؤں سے توپالانہیں پڑا۔لیکن اس کی صحت البتہ ضرور خراب رہتی تھی۔اس کی فطری مہم جوئی اور باغیانہ سرکشی اس حقیقت سے جڑی ہوئی تھی کہ وہ بچپن سے ہی استھماکے عارضے میں لاحق ہوگیاتھا۔ اس مسئلے کو کنٹرول کرنے کیلئے اس نے اپنی ساری زندگی خودکو محدود رکھنے کی تگ ودومیں صرف کر دی۔مشکلات پر قابو پانے کا اس کا آہنی عزم اسی تگ ودو کا ہی نتیجہ سمجھا جاسکتاہے۔انسان دوستی کی اس کی خصلت پہلے اسے میڈیکل کے شعبے کی طرف لے گئی اوروہ ڈاکٹر بن گیا۔اس نے ڈرماٹالوجی جلد کے شعبے میں سپیشلائزیشن کی۔جلدی بیماری الیاسپی کا علاج معالجہ اس کی دلچسپی کا محورتھا۔ان دنوں اس کی ذہنی کیفیت وہی تھی جو کسی بھی مڈل کلاس نوجوان کی ہوسکتی ہے۔محنت اور لگن سے ڈگری کا حصول،پھر ایک مناسب ملازمت،اور ممکن ہو تو کسی میڈیکل شعبے میں تحقیق،جدید انسانی علوم پر دسترس کے ذریعے کوئی اہم دریافت کرنے کی جستجو؛اپنی زندگی کے اس حصے کے بارے وہ خود لکھتاہے:’’جب میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہاتھا تو میرے ذہن کے نہاں خانوں میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو آج ایک انقلابی کے طورپر مجھ میں ہے۔ہر ایک کی طرح میرا بھی ایک ہی مقصد ایک ہی جنون تھا ؛کامیابی۔میں خواب دیکھا کرتا تھا کہ میں ایک مشہور محقق بنوں گا۔میں سوچتارہتاتھا کہ میں انتھک محنت کر کے کچھ مختلف کر کے دکھاؤں گاکچھ ایسا کہ جو نوع انسانی کی عظیم خدمت قرار پائے۔لیکن اس وقت میرا یہ آدرش محض ایک ذاتی کامیابی کا آدرش ہی تھا۔ہر ایک کی طرح میں بھی اپنے ماحول کی ہی پیداوار اور اس کا اظہار تھا۔‘‘بیشتر نوجوانوں کی طرح سے ارنسٹو کوبھی دنیاگردی کا بہت شوق تھا۔
وہ ایک ’’آتش زیرپا‘‘ قسم کی روح تھی،جسے کہیں رکنا ٹھہرنا نصیب ہی نہیں ہوتا۔پڑاؤ اس کے مقدر میں ہی نہیں تھا،جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے۔’’مجھے اب یہ معلوم ہو چکا ہے کہ میں ایک ناقابل یقین مقدر کی گرفت میں ہوں،اور مسلسل مسافرت میرا نصیب ہو چکی ہے‘‘۔اس کا رستہ کون سا تھا اس کی سمت کون سی ہوگی،اس کا ادراک اس کو خود بھی نہیں تھا۔بلاشبہ وہ ایک فرض شناس فزیشن بن سکتا تھا لیکن اس کی ’’آوارگی‘‘اس پرحاوی ہو گئی اور اسے کھینچ کے کہیں اور ہی لے گئی اسے کچھ اور ہی بنا گئی۔ اس نے سفر اختیارکیا تو پلٹنابھول گیا اور برسوں اپنے ارجنٹائن واپس نہ آسکا۔اس کی مہم جو طبیعت اسے موٹرسائیکل پر سارے جنوبی امریکہ کے سفر کی طرف لے گئی۔اس کی ڈاکٹری اور اس کے انقلابی آدرشوں کے مابین تعلق اس وقت ظاہرہواجب اسے اپنی 24ویں سالگرہ کے موقع پرسان پابلو کے ایک آڈیٹوریم میں ایک تقریب کے دوران تقریر کرنی پڑی جس میں اس نے کہا؛’’اگرچہ ہم ابھی اس قابل نہیں ہیں کہ اتنے بڑے اور عظیم مقصدپر بات کر سکیں لیکن ہمارا یقین ہے اور میرے اس سفر نے میرے اس یقین کو اور بھی پختہ کردیا ہے کہ امریکہ کی غیر مستحکم اور ناپائیدارقوموں میں تقسیم مکمل طورپر ایک افسانوی بات ہے۔ہم ایک ہی نسل سے تعلق رکھنے والے ہیں ہمارے مابین کئی نسلی وجغرافیائی مشابہتیں موجودہیں؛میکسیکو سے میگلن تک ہم میں بہت کچھ سانجھا ہے۔اس تنگ نظر وطنیت سے نجات حاصل کرنے کی ایک خواہش اور کوشش کے طورپر میں پیرواورایک متحدہ امریکہ کے نام ایک جام تجویز کرتا ہوں‘‘۔








