سپریم کورٹ میں نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ (این آئی سی ایل) میں بدعنوانی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ادارے کے سابق چیئرمین ایاز خان کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔
این آئی سی ایل کرپشن کیس کی سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی، اس موقع پر سابق چیئرمین این آئی سی ایل ایاز خان عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے سابق چیئرمین ایاز خان سے کہا کہ آگے آجائیں، آج ماشاء اللہ آپ کی آنکھیں نیچی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی قابلیت کیا ہے، کتنے تعلیم یافتہ ہیں، جس پر ایاز خان نیازی نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے فنانس اور اکنامکس میں گریجویشن کیا ہے۔ دوران سماعت عدالت نے حکم دیا کہ اگر این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی احتساب عدالت سے ضمانت پر نہیں ہیں تو ان کو گرفتار کیا جاسکتا ہے، جس پر قومی احتساب بیورو (نیب) نے ایاز خان نیازی کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ دوسرا ملزم محسن حبیب وڑائچ کہاں ہے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ محسن حبیب تاحال گرفتار نہیں ہوسکا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم راؤ انوار کو پیش کراسکتے ہیں تو محسن حبیب کیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا محسن حبیب کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ہے، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ایاز خان نیازی کے خلاف لاہور، کراچی میں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ایاز خان نیازی کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور قومی احتساب نیورو (نیب) 2 ماہ میں ٹرائل مکمل کرے۔
6 اپریل 2018 کو نیب کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ نئے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے چارج سنبھالنے کے بعد 179 میگا کرپشن کے کیسز میں سے 101 کے خلاف ریفرنسز دائر کیے گئے۔ خیال رہے کہ دسمبر 2017 میں میگا کرپشن کیسز کے حوالے سے جاری نیب کی گزشتہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ تھا کہ تحقیقاتی انتظامیہ کو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور دیگر سینئر سیاست دانوں کے خلاف کرپشن ریفرنس کی جانچ پڑتال کے لیے مزید وقت کی ضرورت ہے۔ تاہم نیب کی جانب سے 3 ماہ کی توسیع مانگی، جس پر نیب کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنی حتمی رپورٹ 31 مارچ 2016 تک جمع کرائے۔