میڈرڈ: اسپین کی 53 سالہ خاتون جوآنا میونوز گزشتہ 13 برس سے شیشے کے ایک کمرے نما پنجرے میں قید ہیں اور ان کے عزیز بھی ان کے قریب نہیں جاسکتے کیونکہ اس سے خاتون ہلاک ہوسکتی ہیں۔

تکلیف دہ امر یہ ہے کہ خود ان کے اہلِ خانہ بھی انہیں چھو نہیں سکتے۔ سال میں دو مرتبہ ان کے 26 اور 29 سالہ بچے دو مرتبہ ان سے گلے مل سکتے ہیں لیکن اس کےلیے بھی غیرمعمولی احتیاط کرنا ہوتی ہے جس میں کئی دن لگتے ہیں۔
اب سے 29 برس قبل ان پر اس بیماری نے حملہ کیا ایک دن انہوں نے باغ میں اگنے والے آلوؤں کو ہاتھ لگایا تو تھوڑی دیر بعد ان کی آنکھیں اور ہونٹ سوجنے لگے۔ اسپتال پہنچتے پہنچتے ان کا پورا بدن سوج گیا تھا۔ اس کے بعد انہیں ہر قسم کے کیمیکل سے دور رکھا گیا ہے جس کا بہترین حل ایک ایسا کمرہ ہے جو کسی آپریشن تھیٹر سے بھی 10 گنا صاف ہو اور وہاں کوئی کیمیکل نہ پایا جاتا ہو۔
اب وہ اپنے شیشے کے گھر سے باغ کو تکتی رہتی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ کسی طرح اس کمرے سے باہر آکر کھلے ماحول کو محسوس کرسکیں۔ دوسری جانب خاتون کے کھانے کو کیمیائی اجزا سے پاک کرنے کے تمام جتن کیے جاتے ہیں۔ نامیاتی غذا بنانے والی بہترین کمپنیوں سے ان کی غذا خریدی جاتی ہے۔ ایک ماہ میں وہ دو مرتبہ گوشت اور پانچ مرتبہ مچھلی کھاتی ہیں۔ کبھی کبھی وہ آکسیجن بھی استعمال کرتی ہیں۔
انہیں چھاتی کے سرطان کا عارضہ بھی ہے اور سال میں ایک مرتبہ وہ اسپتال جاتی ہیں۔ اس کےلیے پوری ایمبولینس کو خاص انداز میں جراثیم اور کیمیکلز سے پاک کیا جاتا ہے جبکہ اسپتال جانے کےلیے صاف راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔










